امام حسین ؓ کو کیا کرنا چاہئے تھا؟

چند کتابیں جو ہمیشہ میری سائیڈ ٹیبل پر موجود رہتی ہیں اُن میں سے ایک مولانا مودودی کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ ہے۔ شکر ہے کہ یہ کتاب کبھی اسکول کے نصاب کا حصہ نہیں رہی ورنہ آج کل کے کسی مہا پُرش نے اِس پر بھی پابندی لگوا دینی تھی۔

ہر سال نو/ دس محرم کو میں جن کتابوں کو دہرائی کی غرض سے پڑھتا ہوں اُن میں تاریخ طبری اور خلافت و ملوکیت شامل ہیں۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ حضرت زید بن علی ؓ، امام حسینؓ کے پوتے تھے، اُس وقت ہشام بن عبد الملک کی حکومت تھی جو یزید ثانی کا بھائی تھا۔

ہشام نے اپنے عراق کے گورنر خالد بن عبداللہ کو معزول کرکے تحقیقات شروع کروائیں تو اِس سلسلے میں گواہی کے لئے حضرت زید ؓکو مدینے سے کوفے بلایا گیا۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا، ایک طویل عرصے کے بعد اہلِ بیت کا کوئی ممتاز فرد اسی شہر میں آ رہا تھا جہاں ساٹھ برس پہلے امام حسین ؓتشریف لائے تھے۔

حضرت زید ؓکی آمد کی خبر سے گویا پورے کوفے میں بھونچال سا آ گیا اور لوگ پروانوں کی طرح آپؓ کے گرد جمع ہونے لگے۔ ’’ان لوگوں نے حضرت زید ؓکو یقین دلایا کہ کوفہ میں ایک لاکھ آدمی آپؓ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں اور 15ہزار آدمیوں نے بیعت کرکے باقاعدہ اپنے نام بھی ان کے رجسٹر میں درج کرا دیے۔

اس اثنا میں کہ خروج کی یہ تیاریاں اندر ہی اندر ہو رہی تھیں، اُموی گورنر کو اس کی اطلاع پہنچ گئی۔ حضرت زید ؓنے یہ دیکھ کر کہ حکومت خبردار ہو گئی ہے، صفر 122ھ/ 740ءمیں قبل از وقت خروج کر دیا۔

جب تصادم کا موقع آیا تو کوفہ کے لوگ ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ جنگ کے وقت صرف 218آدمی ان کے ساتھ تھے۔ دورانِ جنگ اچانک ایک تیر سے وہ گھائل ہوئے اور ان کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا‘‘۔ (خلافت و ملوکیت، ص267)۔

اِس واقعے کی تفصیلات پڑھیں تو یوں لگتا ہے جیسے واقعہ کربلا دہرایا گیا ہو۔ وہی کوفے والے، وہی ان کے عہد و پیمان۔ وہی اہلِ بیت اور وہی اُن کا شوقِ شہادت۔ امام حسین ؓجب کوفے کے لئے روانہ ہوئے تو انہیں بھی ’’زمینی حقائق سمجھائے گئے‘‘ اور بتایا گیا کہ اُن کے لیے یہ مہم بےحد خطرناک ثابت ہوگی۔

جو لوگ امام حسین ؓپر یہ کہہ کر تنقید کرتے ہیں کہ یہ اقتدار کی جنگ تھی، وہ اِس قسم کا اعتراض کرتے ہوئے یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ امام عالی مقام ؓکو اچھی طرح علم تھا کہ وہ جس مقصد کے لئے نکلے ہیں اُس کے لئے انہیں کیا قربانی دینا پڑ سکتی ہے۔

کوفے کے سفر میں ایک سے زیادہ مرتبہ ایسا موقع آیا جب امام حسینؓ کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ بحفاظت واپس جا سکتے تھے مگر انہوں نے یہ بات قبول نہیں کی۔ حُر نے بھی انہیں یہ پیشکش کی تھی کہ وہ واپس چلے جائیں مگر نواسہ رسولﷺ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’نہیں، خدا کی قسم نہیں، میں کسی اہانت آمیز انداز میں بیعت کروں گا اور نہ ہی کسی غلام کی طرح میدان چھوڑکر بھاگوں گا‘‘۔

دوسری بات جو زیادہ غور طلب ہے یہ کہ یزید کے اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد امام حسین ؓکو کیا کرنا چاہئے تھا؟ کیا انہیں خاموشی سے یزید کی بیعت کر لینی چاہئے تھی؟ کیا اِس طرح بیعت کرنے سے یزید کی حکمرانی کو قانونی جواز نہ مل جاتا اور کیا یہ بات درست ہوتی؟

کیا یزید کی نامزدگی اور اس کی حکمرانی اسلامی خلافت کے مجوزہ اصولوں کی رُو سے قانوناً درست اور جائز تھی؟ اِن سوالات پر صدیوں سے بحث جاری ہے اور ظاہر ہے کہ اِس بحث کو چار سطروں میں یہاں سمیٹنا ممکن نہیں۔ مولانا مودودی نے البتہ اِس بحث کا کلیجہ نکال کر رکھ دیا اور لکھا کہ ’’اُن(امام حسین ؓ) کی زندگی میں اور اُن کے بعد صحابہ و تابعین میں سے کسی ایک شخص کا بھی یہ قول ہمیں نہیں ملتا کہ انؓ کا خروج ناجائز تھا‘‘۔

دراصل یہ بات ہی نواسہ رسولﷺ کی شان کے خلاف تھی کہ وہ ایک ناجائز حکومت کے خلاف آواز نہ اٹھاتے، کوفے والے انہیں خط لکھتے یا نہ لکھتے، ان سے پیمان توڑتے یا نبھاتے، امام حسینؓ نے ہر حال میں حق سچ کا ہی ساتھ دینا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر قسم کے نتائج اور زمینی حقائق کا ادراک رکھنے کے باوجود کوفے تشریف لے گئے۔ باقی تاریخ ہے۔

دنیا میں ظلم، جبراور فسطائیت کے خلاف ڈٹ جانے کااگر کوئی ماڈل ہے تو وہ امام حسین ؓکا ہے۔ اِس راستے پر چلنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے، اِس راستے میں بدترین دشمنوں سے واسطہ پڑتا ہے، اِن دشمنوں کو پیاس سے بلکتے ہوئے شیر خوار بچے پر کوئی رحم آتا ہے اور نہ قتل کرنے کے بعد لاشوں کی بےحرمتی پر کوئی ملال ہوتا ہے۔

امام حسین ؓکا سر سنان بن انس نے کاٹا اور خولی بن یزید کے حوالے کر دیا، جنگ کے بعد خولی اپنے گھر چلا آیا، اس کی عورت نے پوچھا کیا لائے ہو، خولی نے کہا ’’تمام دنیا کی دولت تیرے پاس لے کر آیا ہوں۔ تیرے خیمے میں حسین ؓکا سر لے کر آیا ہوں‘‘۔

اس نے کہا ’’لعنت ہے تجھ پر۔ لوگ سونا چاندی لے کر آئے اور تو رسول اللہﷺ کے فرزند کا سر لایا ہے‘‘۔ (طبری، جلدچہارم)۔ ساٹھ برس بعد تاریخ پھر دہرائی گئی۔ امام حسین ؓکے پوتے حضرت زید ؓکا سر کاٹ کر ہشام کے پاس بھیجا گیا اور یہ سر دمشق میں اُس کے دروازے کے باہر لٹکا دیا گیا۔

میں ایک گناہگار مسلمان ہوں، جو تھوڑی بہت توفیق اللہ نے مجھے دی ہے اُس کی وجہ سے کبھی کبھار کوئی نیکی بھی سرزد ہو جاتی ہے۔ البتہ تاحال خانہ خدا کی زیارت سے محروم ہوں، ابھی تک بلاوا نہیں آیا لیکن جب بھی موقع ملا تو خدا کے گھر کی زیارت کرنے اور روضہ رسولﷺ، ابوبکر ؓاورعمر ؓکے دربار میں حاضری دینے کے بعد کربلا بھی جاؤں گا۔

وہ مٹی دیکھنے ،جہاں نواسہ رسولﷺ کا خون بہا تھا!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے