احمد شاہ مسعود کی کمر کا درد اور سخت گدے کی کہانی

9 ستمبر 2001 کو افغانستان کے صوبہ پنجشیر میں طالبان کے خلاف مزاحمتی محاذ کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کی دو عرب حملہ آوروں کے ہاتھوں ہلاکت ان کے حامیوں اور مخالفوں دونوں کے لیے ہی ایک ناقابلِ یقین بات تھی جب دو عرب نوجوانوں نے شمالی اتحاد کے سربراہ کو دھماکے سے اڑا دیا.

افغانستان کے پہلے نائب صدر امر اللہ صالح نے، جو اس وقت احمد شاہ مسعود کے قریبی ساتھی تھے، اپنی کتاب ’مسعود کے بعد‘ میں لکھا ہے کہ ’مجھے اس جگہ بھیج دیا گیا جہاں مسعود کی لاش کو تقریباً 1 بجے کے قریب منتقل کیا گیا تھا۔ ایک یا دو مقامی کمانڈر اور دو یا تین سینیئر لاجسٹک افسران مسعود کے محافظوں کے ساتھ موجود تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ صورتحال اور اس منظر پر کسی کا کنٹرول نہیں تھا۔ ’لگتا تھا کہ ہماری دنیا ختم ہو چکی ہے۔ کبھی ہم خود سے اور کبھی ایک دوسرے سے بات کرتے۔‘

امراللہ صالح نے لکھا کہ آدھے گھنٹے یا اس کے بعد احمد شاہ مسعود کے قریبی ساتھی صالح محمد ریگستانی نے جائے وقوع کا انتظام سنبھال لیا۔ ’انھوں نے حضرت ابوبکر سے ایک روایت نقل کی جس میں انھوں نے پیغمبرِ اسلام کی وفات پر سوگواروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو شخص محمد کی عبادت کرتا ہے تو محمد مر چکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ زندہ ہے اور کبھی ختم نہیں ہو گا۔‘

ریگستانی نے کہا کہ ’احمد شاہ مسعود نہیں ہیں، لیکن مقصد کھڑا ہے۔ دشمن اب بھی اس صورتحال میں مزید آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آئیے اس مسئلے کا صحیح طریقے سے انتظام کریں اور اسے سنبھالیں۔‘

ریگستانی نے اپنے مضمون ’مسعود شناسائی‘ میں لکھا کہ ’مسعود کی شہادت کے وقت میں تاجکستان میں تھا اور میری قسمت دیکھیں کہ اس واقعے کے ایک گھنٹہ بعد میں ان کے تھکے ہوئے خون آلود جسم کے قریب پہنچا اور یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔‘ انھوں نے اس واقعے کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔

[pullquote]کمانڈر کی ہلاکت کے بعد ساتھیوں کا فیصلہ[/pullquote]

صالح نے اس دن کے بارے میں لکھا کہ تین افراد کے وہاں آنے کے بعد، جن میں سے ایک افغانستان کے سابق نائب صدر مارشل محمد قاسم فہیم تھے، یہ فیصلہ کیا گیا کہ احمد شاہ مسعود کی موت کے متعلق ابھی کچھ نہیں بتایا جائے گا اور اعلان کیا جائے گا کہ وہ زخمی ہوئے ہیں۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ فہیم خان مرکزی مقام پر واپس آجائیں اور کمانڈروں کو مطلع کریں کہ مسعود زخمی ہو چکے ہیں اور یہ کہ طالبان کے حملے کے لیے تیاری کی جانی چاہیے۔

امر اللہ صالح کے مطابق وہ خود تو ووٹنگ کے دوران وہاں موجود نہیں تھے، لیکن یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ فہیم خان ہی موجودہ سربراہ ہوں گے۔

صالح نے لکھا کہ اس وقت انھیں دو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ پہلے مسعود کی موت کے بارے میں امریکہ کو آگاہ کرنا اور دوسرا خصوصی کلینک میں مسعود کے جسم کی حفاظت کرنا۔ انھوں نے لکھا کہ ’میں نے امریکیوں کو بتایا کہ مسعود ایک خودکش حملے میں مارے گئے ہیں اور ان کی لاش کو ایک محفوظ اور ٹھنڈی جگہ پر رکھا گیا ہے۔ مسعود کی عدم موجودگی میں ہمیں واقعتاً آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے مسعود کے جسم کے تحفظ کے بارے میں لکھا کہ انھوں نے ان کا جسم ہیلی کاپٹر کے ذریعہ وسا خان سے مردہ خانے منتقل کروایا۔ انھوں نے بتایا کہ ابھی انھوں نے مسعود کے ساتھ کچھ گھنٹے بھی نہیں گزارے تھے جب انھیں تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے جانے کی ہدایت کی گئی۔ ان کے فرائض میں میڈیا کو سنبھالنا اور احمد شاہ مسعود کی چوٹ اور دیگر امور کے متعلق بتانا تھا۔

افغانستان میں سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے اپنی کتاب ’سینٹ‘ میں لکھا ہے کہ عبد اللہ عبد اللہ نے انھیں 9 ستمبر 2001 کو کال کی تھی اور انھیں فوراً ہی پتہ چل گیا تھا کہ مسعود کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عبداللہ کی آواز کانپ رہی تھی جو کہ ان کی نارمل پرسکون آواز سے مختلف تھی۔ خلیل زاد کے مطابق عبد اللہ نے انھیں بتایا کہ مسعود شدید زخمی ہیں لیکن زندہ ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد انھوں نے دوبارہ فون کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ مسعود مارے گئے ہیں۔

امر اللہ صالح کے مطابق امریکیوں نے مسعود کی موت کی خبر کو افشا کر دیا تھا اور مسعود کے لواحقین کے لیے اب اسے خفیہ رکھنا زیادہ مشکل ہو گیا تھا۔

[pullquote]مسعود کی موت کا اعلان کیوں نہیں کیا گیا تھا؟[/pullquote]

پاکستانی مصنف احمد رشید اپنی کتاب ’ڈیسینٹ اِن ٹو کیوس‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ افواہیں کہ مسعود ابھی زندہ ہیں کئی دنوں تک گردش کرتی رہیں۔ ایسا شمالی اتحاد کے جنگجوؤں کے حوصلے برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا تھا جو طالبان اور القاعدہ کے مشترکہ حملے سے ’خوفزدہ‘ تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ عبداللہ عبداللہ جب نائن الیون کے حملے کے بعد مسعود کی کرسی پر بیٹھے تھے تو اپنے انٹرویو کے دوران مسلسل رو رہے تھے۔ ’وہ جا چکا تھا اور ہمارے پاس کوئی کمانڈر نہیں تھا۔ سب جانتے تھے کہ مسعود زندہ نہیں ہے۔‘

مسعود سے ان کی موت سے قبل اپنی آخری ملاقات کے بارے میں احمد رشید کہتے ہیں: ’مسعود اس تاریخی لمحے کو ایک مقامی کمانڈر سے ایک اہم قومی رہنما بننے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے جو اکثر بے چین اور متشدد نظر آتا تھا۔ انھوں نے ہزارہ اور ازبک رہنماؤں کے ساتھ اپنے اختلافات ختم کر دیے تھے اور ان پشتون رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی تھیں جن پر انھیں پہلے اعتماد نہیں تھا۔ انھوں نے افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ سے بھی صلح کر لی تھی جنھیں وہ زندگی بھر برا بھلا کہتے رہے تھے۔‘

احمد شاہ مسعود کی اہلیہ صدیقہ مسعود یا پری نے اپنی ایک ڈائری میں، جو کہ احمد شاہ مسعود کے ایک انٹرویو پر مبنی تھی، لکھا کہ ان دنوں ان سے بھی مسعود کی موت پوشیدہ رکھی گئی تھی، کیونکہ سب جانتے تھے کہ طالبان پورے ملک کا کنٹرول سنبھالنا چاہتے ہیں۔ اور اس وقت انھوں نے اس موقع پر مزاحمت کو منظم کرنے کو ترجیح دی۔

[pullquote]مسعود کی موت کی اطلاع ان کے اہل خانہ کو کب ملی؟[/pullquote]

احمد شاہ مسعود کی اہلیہ نے بتایا کہ اس واقعے سے قبل مسعود کے ایک محافظ نے انھیں اطلاع دی تھی کہ ’امیر صاحب‘ دوپہر کا کھانا گھر پر ہی کھائیں گے۔ ’ان دنوں طالبان باقاعدگی سے شمالی علاقوں پر حملے کر رہے تھے اور بسم اللہ خان (سابق وزیر دفاع) نے میرے شوہر سے شمالی کمانڈر سے ملاقات کرنے کو کہا تھا۔‘

ان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جب مسعود راستے میں تاجک دارالحکومت دوشنبے سے روانہ ہوئے تو طالبان شمالی میدانی علاقوں سے پیچھے ہٹ گئے۔

پری نے بتایا کہ جب وہ گھر کا کام کر رہی تھیں تو اس دوران ان کے بھائی راشدین آ گئے اور ان سے کہا: ’پری، اٹھو، ہمیں جانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں تمہیں دوشنبے لے جاؤں گا، وادی میں لڑائی ہو رہی ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ کیا انھوں (مسعود) نے یہ کہا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ جب وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھے تو انجن میں آگ لگ گئی جس کی وجہ سے وہ اڑ نہ سکے۔ وہ دوبارہ گھر واپس چلے گئے۔ ان کی ماں نے اس رات ان سے کہا: ’پری! امیر کے ساتھ کچھ ہوا ہے۔ میری دنیا تباہ ہو گئی۔‘ ان کی والدہ نے بتایا کہ دو عرب صحافیوں کے روپ میں آئے جن کے پیٹ میں بم تھے، انھوں نے احمد شاہ مسعود کے ساتھ ہی خود کو اڑا دیا۔

انھوں نے لکھا کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ میرے شوہر کو فارخور سٹی ہسپتال لے جایا گیا ہے، جب ہم فارخور ہوائی اڈے پر پہنچے، تو ہم نے ایئرپورٹ کے مینیجر امیر جان کو دیکھا، جنھوں نے مسکرا کر ہمیں بتایا کہ آپ ایک دن دیر سے پہنچے ہیں۔ وہ انھیں علاج کے لیے فرانس لے گئے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ فارخور سے دوشنبے گئیں اور دیکھا کہ سبھی ہیلی کاپٹر میں رو رہے تھے۔ ’مجھے پتہ چلا کہ میرے شوہر شدید زخمی ہیں۔ مجھے کوئی بتانے والا نہیں تھا کہ کیا وہ ہوش میں ہیں، مجھ سے کوئی رابطہ کیا ہے یا میری مدد کی کوئی ضرورت ہے۔‘

پیر کو میں نے اپنے بھائی راشدین سے کہا کہ میں مزید برداشت نہیں کر سکتی، میں انھیں دیکھنا چاہتی ہوں، چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ۔ میرے بھائی ڈاکٹر عبد اللہ سے ملنے چلے گئے۔ انھوں نے کہا کہ ’کل تم ہیلی کاپٹر کے ذریعے کلب میں ان سے ملو گی۔‘

’کلب میں انھوں نے میرے پہنچنے سے پہلے ہی انھیں مردہ خانے سے نکال کر تیار کر دیا تھا۔ انتہائی طاقتور اور خوبصورت شخص اب بالکل زرد اور سخت جسم میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ان کے خوبصورت بال اب مکمل طور پر جھلس چکے تھے اور ان کا جسم زخموں سے بھرا ہوا تھا۔ ان کا جسم گردن سے ٹانگوں تک کٹ گیا تھا، اور ایک چوڑے اور گہرے گھاؤ نے ان کے سینے کو دل تک چیر دیا تھا۔‘

[pullquote]مسعود کی زندگی کے آخری ایام میں جسمانی حالت[/pullquote]

پری اپنے شوہر کے آخری بار گھر سے جانے کے لمحے کو کچھ اس طرح یاد کرتی ہیں۔ ’انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ سخت اونی گدے پر سونا چاہتے ہیں، کیوں کہ صبح اٹھتے ہی انھیں کمر میں تکلیف ہوتی تھی۔ میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ جب وہ واپس آئیں گے تو میں انھیں ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گی اور سنجیدگی کے ساتھ ان کا علاج کرواؤں گی۔‘

انھوں نے کہا کہ انھوں نے مسعود کی واپسی پر گدا بنوانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ ’جب وہ آرام کرنا چاہیں گے تو انھیں اسے دیکھ کر بڑی حیرت ہو گی۔‘ لیکن وہ گدے پر سونے کے لیے واپس نہیں آ سکے۔

احمد رشید لکھتے ہیں کہ انھوں نے مسعود کو قتل سے چند ماہ قبل دیکھا تھا اور وہ صاف طور پر بوڑھے دکھائی دے رہے تھے۔ ’دوشنبے، تاجکستان میں بھی وہ وہی جنگی جیکٹ پہنے ہوئے جو انھوں نے جنگ کے دوران پہن رکھی تھی۔ وہ ہمیشہ ہیٹ اور ملٹری یونیفارم پہنتے تھے۔ ان کی داڑھی سفید ہو چکی تھی اور وہ پہلے کی طرح پھرتیلے نہیں نظر آ رہے تھے۔‘

مسعود کے قریبی ساتھی صالح محمد ریگستانی کہتے ہیں کہ مسعود اپنی زندگی کے آخری ایک دو سالوں میں ذرا تھکے ہوئے نظر آتے تھے۔ کمر کا درد کبھی کبھی انھیں اتنا پریشان کرتا تھا کہ وہ شاید ہی سیدھے کھڑے ہو سکتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ مسعود کو کبھی کمر میں درد اور کبھی دانت میں درد رہتا۔ ڈاکٹروں نے انھیں آرام کا مشورہ دیا تھا لیکن انھیں آرام کرنے کا موقع بہت کم ہی ملتا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے