کیا پھر ہمیں ہتھکڑیوں سمیت مارا جائے گا ؟

حالیہ شورش دیکھ کر یقین ہو چلا ہے کہ ہم چلے ضرور مگر آگے نہیں بڑھے، ہم دائروں میں ہی گھومتے رہے،ہمارے پاوں ہمیں پیچھے کی جانب دھکیلتے رہے، دماغ اسی کی دہائی میں اٹکا ہوا ہے ، وہی ہو رہا ہے جو ماضی میں ہوا،تین نسلیں شیعہ سنی فسادات کی نذر ہونے کے بعد بھی ہم بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں، ایک چنگاری ہمیں جلا کر راکھ کر سکتی ہے

دونوں اطراف سے نعروں ،تقریروں، اور جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے ،ہلکے ہلکے سروں میں تشدد شروع ہو چکا ہے، معلوم نہیں اس کشمکش کی آخری منزل کیا ہو گی؟ کیا ریاست آگے بڑھے گی یا پھر شیعہ سنی دونوں کو آپس میں ہی فیصلہ کرنے دیا جائے گا؟

آج جو بزرگ روڈوں پر ہیں کل انہوں نے مدرسے سنبھال لینے ہیں اور پھر کہہ دینا ہے نوجوان اکابرین کے باغی ہیں، یہ روش اکابرین کی نہیں رہی ! انہوں نے مدارس میں ان لوگوں پر زمین کو تنگ کر دینا ہے جو آج انکی آواز بن رہے ہیں! کل انہوں نے طلباء کو فارغ کر کے کہہ دینا ہے یہ دہشت گرد ہیں ریاست ان سے خود نمٹے!

ابھی کل کی ہی تو بات ہے جب ماوں کے لعل ہتھکڑیوں سمیت جعلی پولیس مقابلوں میں مارے گئے تو کسی جید عالم دین، کسی اکابر، کسی حق پرست کہلوانے والے آج کے بزرگ کو بے بسی کی اس موت پر دو لفظ کہنے کی توفیق نہیں ہوئی !

روڈ پر بے یار و مددگار پڑے نوجوانوں کی لاشیں آج بھی آنکھوں کے سامنے آتی ہیں تو آنکھوں میں آنسو تیرنے لگ جاتے ہیں! کیا ان بزرگوں کے سامنے ماضی نہیں؟ یہ کیسے میرے بزرگ ہیں جو زمانے سے واقف ہی نہیں؟

جو ایک کال پر حاکم وقت سے مل سکتے ہوں! آرمی چیف سے بات منوا سکتے ہوں وہ لوگ روڈوں پر کیا کر رہے ہیں؟ ہنگامہ کیوں برپا ہے؟ ہنگامہ وہ کرتا ہے جس کی رسائی نہیں ہوتی جو جیب میں حاکموں کے نمبرز لیکر گھوم رہے ہوں انہیں کیا ضرورت شور کرنے کی؟

جھنگ وہ جگہ ہے جہاں سے شیعہ سنی کشمکش کا آغاز ہوا تھا ، ہزاروں لوگ اس راہ میں قربان ہوئے، آج چالیس سال ہونے کو ہیں کیا یہ دونوں گروہ ختم ہو گئے؟ کیا دونوں گروہ اپنی سوچ سے پیچھے ہٹے؟ کیا لڑائی کے بعد عقائد بدل گئے؟ کیا اہل تشیع نے اپنی کتابیں جلا ڈالیں؟ کیا کوئی جلوس بند ہو گیا ہے؟ کیا سپاہ صحابہ ریاستی جبر سہنے کے بعد ختم ہو گئی ہے؟ دونوں اطراف سے لاشیں اٹھیں، کوئی ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا؟ اگر لڑائی سے معاملہ حل نہیں ہو سکا تو پھر حل لڑائی کیوں؟ نعروں سے اگر معاملہ حل نہیں ہوا تو پھر آج نعرے کیوں؟ تبرا کیوں؟

اگر برا نہ منائیں تو یہ حقیقت مان لیجئے کہ

مولانا حق نواز صاحب کے بعد سنی قوم میں کوئی ان جیسا خطیب پیدا نہیں ہوا ! وہ ایک مرتبہ امی امی کرتے تو لوگ چیخنے لگتے تھے، انہوں نے سنی نوجوانوں کو متحد کیا اور ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جس نے نوجوانوں میں آگ بھر دی تھی، اس وقت بھی یہ بزرگ انکے ساتھ تھے، پھر جب وقت بدلا تو اکابرین گھر بیٹھ گئے اور نوجوان میت کی چارپائی اٹھائے وارث ڈھونڈتے رہے

آج پھر وہی منظر ہے! آنکھ جو دیکھتی ہے وہ دکھا نہیں سکتی، دماغ جو سوچتا ہے وہ بتا نہیں پاتا !

سادہ سا سوال ہے کہ کیا ہماری چوتھی نسل پھر آگ میں جھونکی جا رہی ہے؟ کیا لڑائی ہی ہمارا مقدر ہے؟ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم بیٹھ جائیں! اور زندگی گزارنے کا ضابطہ بنا لیں! سب اپنے اپنے عقیدے رکھیں مگر توہین کسی کی نہ ہو !

جو لوگ اہل تشیع کیساتھ مجلس عمل میں اکھٹے بیٹھتے ہوں، تحریک ختم نبوت میں ساتھ بیٹھتے ہوں، اسلامی نظریاتی کونسل، ملی یک جہتی کونسل میں ساتھ بیٹھتے ہوں، جو سپاہ صحابہ کو اسٹیج دینے کی بجائے اہل تشیع علماء کو اسٹیج اور مسجد کا منبر دیتے آئے ہوں وہ روڈوں پر انکے خلاف کیا کر رہے ہیں؟

نوجوانوں کے خون کو سستا نہ سمجھیں، ماں باپ کی کمر جھکتی ہے تب بیٹوں کی کمر سیدھی ہوتی ہے، ماوں سے ان کے سہارے نہ چھینیں! انہیں جینا سکھائیں! ماوں نے بچوں کو آپ کی قربان گاہ پر قربان کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا ! جب جی چاہا انہیں اپنا کہہ دیا جب جی چاہا دھتکار دیا!

خدا کے لیے ایسا نہ کریں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے