تم ترقی نہیں کر سکتے

زندگی میں ترقی کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے مثلاً جنہوں نے ترقی کی ہے ان کے بارے میں کہنا پڑتا ہے کہ بیکاری کے زمانے میں وہ ہمارے پاس آکر بیٹھا کرتا تھا، میں نے کبھی اسے منہ نہیں لگایا۔ وزیر بننے کے بعد وہ اپنا پرانا زمانہ بھول گیا ہے، اب کبھی ملے تو نظریں ہی نہیں ملاتا۔ اگر آپ ترقی نہیں کرنا چاہتے تو آپ ایسے لوگوں سے پوچھے بغیر نہیں رہ سکتے کہ بیکاری کے زمانے میں جس شخص کو آپ نے منہ نہیں لگایا تھا وزیر بننے کے بعد وہ آپ کو منہ کیوں لگائے؟

میرے ایک دوست ترقی کرنے کے بہت خواہشمند ہیں۔ وہ ماسی برکتے کے تنور سے کھانا کھانے کے بعد کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے باہر کھڑے ہو کر خلال کرتے ہیں۔ کوئی دوست ادھر سے گزرے تو کہتے ہیں کہ پرائم منسٹر کے خصوصی ایلچی سے اہم مذاکرات کرنا تھے، کھانے کی میز پر اس سے بات چیت کرنے کے بعد بس ابھی فارغ ہوا ہوں، ان سے ان کے دن کی مصروفیات پوچھیں تو وہ شروع ہو جاتے ہیں، یہ مصروفیات سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر کی اہم شخصیات اس گھنٹہ گھر کے گرد گھومتی رہتی ہیں اور ہمارے یہ دوست واقعی گھنٹہ گھر ہیں کہ پہلے دن سے جہاں کھڑے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔

اس قسم کے لوگوں کو تقریبات میں پہلی نشستوں پر بیٹھنے کا بھی بہت شوق ہوتا ہے۔ کئی دفعہ تو یہ لائوڈ اسپیکر والے سے پہلے جلسہ گاہ میں پہنچ جاتے ہیں اور پہلی صف میں جا بیٹھتے ہیں۔ اگر کبھی لیٹ ہو جائیں تو پچھلی صفیں چیرتے ہوئے آگے آتے ہیں اور عقابی نگاہوں سے خالی نشست ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ اگر خالی نشست نظر نہ آئے تو تقریباً کسی کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ جب لوگ اخبار میں شائع شدہ تصویر یا ٹیلی وژن کے خبرنامے میں انہیں پہلی صف میں بیٹھا دیکھتے ہیں تو ان صاحب کو احساس ہوتا ہے کہ ان کی ’’مسلح جدوجہد‘‘ رائیگاں نہیں گئی۔

ترقی کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی محفل میں کسی اہم شخصیت کے برابر میں نشست حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہو جائے تو اس کے کان میں بات ضروری کی جائے خواہ وہ بات ’’ہور کیہ حال اے؟‘‘ ہی کیوں نہ ہو اس سے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس شخصیت سے آپ کے انتہائی گہرے مراسم کا احساس ہوتا ہے اور یہ چیز ترقی کے ضمن میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔

بہت سے لوگ ترقی کرنے کیلئے دامے، درمے، قدمے، سخنے قسم کے نسخے بھی استعمال کرتے ہیں خصوصاً کاروباری لوگوں کی اکثریت ان نسخوں پر عمل کرتی ہے اور ان کے تمام کام پوری سہولت سے ہوتے چلے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے کہیں کے کہیں پہنچ جاتے ہیں حتیٰ کہ ان میں سے کچھ اسپتال اور کچھ تو وقت سے بہت پہلے قبرستان تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

خود میں ترقی کے لئے بہت پاپڑ بیلتا ہوں مگر میرا ایک دوست ترقی کے بہت خلاف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ترقی کی سمت متعین ہونا چاہئے مثلاً جہالت کی طرف ترقی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، ذہنی مفلسی کی طرف سفر کرنا مفید نہیں۔ زندگی گزارنے کا حق آپ کا ہے ایسا نہ ہو کہ ترقی کرنے کی خواہش میں زندگی آپ کو گزارنا شروع کر دے۔ کھوکھلی زندگی کی سمت میں ترقی کرتے جانا زندگی کی حقیقی خوشیوں سے ہمیشہ کے لئے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ انا اور خودداری کی قربانی، عزیز و اقربا کی قربانی، اصولوں کی قربانی، اعلیٰ قدروں کی قربانی، اپنی زندگی کی باگ سیم و زر اور جاہ و حشمت کی خواہش کے سپرد کرنے کی قربانی سے ترقی کی منزل کی حیثیت ایک سراب سے زیادہ نہیں ہوتی۔ میرے د وست کا کہنا ہے کہ افراد کے علاوہ جب قومیں بھی اس قسم کی ترقی کرکے سپرپاور بنتی ہیں تو اپنی ہوس کے نتیجے میں پوری انسانیت کے لئے خطرہ بن جاتی ہیں لہٰذا ترقی کرنے سے پہلے ترقی کی سمت ضرور متعین کرلینا چاہئے لیکن اگر کسی کے نزدیک ترقی کا مفہوم یہی ہے کہ وہ عقاب سے گدھ بن جائے تو اسے روکنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ عقاب کے ذہن میں اس خواہش کی پیدائش ہی اسے گدھ بنانے کے لئے کافی ہے۔ ہماری قوم اس وقت اسی خواہش میں زندہ ہے چنانچہ وہ اپنا سردار بھی کسی بڑی گدھ کو منتخب کرتی ہے جو بستیوں کو آباد نہیں، انہیں ویران دیکھنا چاہتا ہے۔!

آخر میں بی بی سی لندن سے وابستہ میرے تخلیقی ذہن کے حامل دوست عارف وقار کی ایک پوسٹ، جو بہت دلچسپ علمی نوعیت کی ہے، وہ بھی ملاحظہ کر لیں۔

جُولاں اور جَولاں

فیض احمد فیض کی ایک مشہور نظم کا عنوان ہے:

’’آج بازار میں پا بہ جولاں چلو‘‘۔ نظم اِس طرح شروع ہوتی ہے:

چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں

تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پا بہ جولاں چلو

’’جُولاں‘‘ (جیم پر پیش) کے معنی ہیں:بیڑی۔

’’پا بہ جُولاں‘‘ کے معنی ہوئے: جس کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئی ہوں۔

ایک اور لفظ ہے ’’جَولاں‘‘ (جیم پر زبر کے ساتھ)۔ اِسی سے ’’جَولانی‘‘ بنتا ہے اور اِس سے ’’جَولانی طبع‘‘ بنا ہے، جس کے معنی ہیں:طبیعت کی روانی، اُمنگ۔

’’جَولاں‘‘ کے لفظی معنی ہیں:گھوڑا دوڑانا، کُدانا

مطلب یہ ہوا کہ’’جُولاں‘‘ اور ’’جَولاں‘‘ دو مختلف لفظ ہیں، فیض کی اِس نظم میں ’’پا بہ جُولاں‘‘ (جیم پر پیش کے ساتھ) آیا ہے۔

اِسے اگر جیم پر زبر کے ساتھ ’’پا بہ جَولاں‘‘ پڑھا جائے، تو مطلب بدل جائے گا۔ بدل کیا جائے گا، بگڑ جائے گا۔

(حوالہ کتاب :’’انشا اور تلفّظ‘‘از ’’رشید حسن خاں‘‘ص 63:)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے