ڈاکٹر ذاکر حسین اور جامعہ ملیہ اسلامیہ

یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے زندگی میں خواب دیکھے اور پھر اپنی محنت، لگن اور استقامت سے ان خوابوں کی تعبیر پائی۔ اس کہانی کا آغاز 1920ء سے ہوتا ہے جب ذاکر حسین علی گڑھ میں زیرِ تعلیم تھے۔ وہ عام طالبِ علم نہ تھے جس کی دنیا صرف کتابوں تک محدود ہوتی ہے۔ وہ ایک لائق طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ علی گڑھ کی سٹوڈنٹس یونین کے نائب صدر بھی تھے۔ ان دنوں مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھنے والے علی گڑھ کے طالبِ علم اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے تھے کہ وہ ایک ممتاز یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔

ادھر ملکی حالات میں ایک ارتعاش تھا۔ 1919ء میں تحریکِ خلافت کا آغاز ہو چکا تھا جس کی قیادت جوہر برادران کر رہے تھے جس کا مقصد ترکی میں خلافت کو بچانا تھا۔1920 میں تحریک عدم تعاون شروع ہو گئی تھی جس کا مقصد انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔ ہندو مسلم اتحاد انگریزوں کے لیے تشویش کا باعث تھا۔ ملکی صورتحال کے اثرات تعلیمی اداروں پر بھی پڑ رہے تھے۔ علی گڑھ کی فضا میں بھی آزادی کے نعروں کی گونج سُنائی دے رہی تھی۔ تحریک عدم تعاون کا بنیادی نکتہ فرنگی حکومت سے قطع تعلق اور عدم تعاون تھا جس میں لوگوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ سرکاری دفتروں اور اداروں کو چھوڑ دیں۔ ان اداروں میں تعلیمی ادارے بھی شامل تھے۔ مقامی تعلیمی اداروں سے کہا گیا تھاکہ وہ فرنگی حکومت سے ملنے والی گرانٹ لینا بند کر دیں۔

محمد علی جوہر اور ان کے کچھ ساتھیوں‘ جو اُس وقت علی گڑھ میں زیرِ تعلیم تھے‘ نے علی گڑھ کے حکام سے کہاکہ ہمیں فرنگی حکومت سے گرانٹ نہیں لینی چاہیے لیکن حکام کیلئے یہ مطالبہ ناقابلِ قبول تھا۔ یوں طلبا اور اساتذہ کے ایک گروہ نے فیصلہ کیاکہ انہیں ایک نئے تعلیمی ادارے کی ضرورت ہے‘ ایک ایسا ادارہ جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور جسے فنڈز کے لیے فرنگی حکومت کے سامنے دستِ طلب دراز نہ کرنا پڑے۔ اس قافلے میں نوجوان ذاکر حسین بھی شامل تھے۔

علی گڑھ کے سامنے ہی ٹینٹ لگا کر ایک نئے تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا آغاز کیا گیا۔ بے سروسامانی کا عالم تھا‘ ایسے میں حکیم اجمل خان نے نہ صرف خود مالی مدد کی بلکہ اپنے جاننے والوں سے بھی چندے کی اپیل کی‘ یوں ملک کے طول و عرض سے لوگوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تعمیر کیلئے چندے دیے۔ چندہ دینے والوں میں کانگریس کے گاندھی بھی شامل تھے‘ جو جامعہ ملیہ کو فرنگی حکومت کے خلاف جنگ میں ایک اہم مورچہ سمجھتے تھے۔ جامعہ ملیہ کا سنگِ بنیاد رکھنے کیلئے دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند مولانا محمودالحسن کو دعوت دی گئی۔

یوں 29 اکتوبر 1920ء کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا‘ جس میں اساتذہ اور طلبا کی کثیر تعداد فرنگی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف سرگرم تھی۔ جامعہ کے کئی طلبا رضاکاروں کے طور پر تحریک خلافت کیلئے کام کررہے تھے۔ اسی طرح کئی اساتذہ ملکی سطح پر فرنگی حکومت کی مخالفت کر رہے تھے۔ ان میں سے کئی اساتذہ کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ آنے والے وقت میں دواور واقعات ایسے ہوئے جن سے جامعہ کا وجود ہچکولے کھانے لگا۔ ایک تو وہ پُرتشدد واقعہ جس کے بعد گاندھی نے تحریک عدم تعاون کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اس تحریک کے اچانک خاتمے سے نوجوانوں کو سخت مایوسی ہوئی‘ لیکن ابھی ایک اور خبر ان کی منتظر تھی۔ 1924ء میں مصطفی کمال اتاترک نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ یہ جامعہ ملیہ کیلئے ایک اندوہناک خبر تھی کیونکہ تحریکِ خلافت کی مرکزی قیادت جامعہ ملیہ سے وابستہ تھی اور جامعہ کے وائس چانسلر مولانا محمد علی جوہر اس کے مرکزی رہنماؤں میں شامل تھے۔ ان پے درپے واقعات نے جامعہ ملیہ کو ہلا کررکھ دیا اور جامعہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہوگئی۔ جامعہ کا وجود خطرے میں نظر آنے لگا۔

جب اُمید کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی توجامعہ کے حکام کو ذاکر حسین کا خیال آیا‘ وہی ذاکر حسین جو جامعہ کے اولین قافلے میں شامل تھے۔ ان دنوں ذاکر حسین جرمنی میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کررہے تھے۔ ان کے ہمراہ دو اور دوست بھی تھے۔ عابد حسین جو تعلیم کے شعبے میں پی ایچ ڈی کررہے تھے‘ اور محمد مجیب جو آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کے بعد جرمنی میں پرنٹنگ کی تربیت حاصل کررہے تھے۔ یہ 1925ء کی بات ہے‘ جامعہ کے حکام نے ڈاکٹر ذاکر حسین سے رابطہ کرکے درخواست کی کہ جامعہ سخت معاشی مشکلات کا شکار ہے اور اسے آپ کی ضرورت ہے۔ تینوں دوستوں نے مشورہ کیا۔ ان کے سامنے پی ایچ ڈی کے بعد بہت سے امکانات کے دروازے کھلے تھے۔ دوسری طرف معاشی طور پر انتہائی کمزور جامعہ ملیہ تھی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اپنے دوستوں کو قائل کر لیاکہ وہ ہندوستان جائیں گے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اپنی خدمات پیش کریں گے۔ بظاہر یہ ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا‘ لیکن عشق میں نفع اور نقصان کا حساب کتاب نہیں ہوتا۔ 1926ء میں فروری کے مہینے میں تینوں دوست جامعہ ملیہ کا حصہ بن گئے۔ انہیں احساس تھاکہ جامعہ سخت مالی مشکلات کا شکار ہے۔ ذاکر حسین کو 100 روپے ماہانہ کی پیشکش کی گئی‘ انہوں نے کہا: میں صرف 80 روپے ماہانہ پر کام کروں گا۔

یہ تھا وہ جذبہ جو ذاکر حسین اور اس کے ساتھیوں کے دلوں میں موجزن تھا۔ ذاکر حسین معاشیات کے ماہر تھے۔ انہوں نے جامعہ کی مالی حیثیت کو مستحکم بنانے کیلئے کام شروع کر دیا۔ عابد حسین کا شعبہ تعلیم تھا۔ انہوں نے تعلیم کے حوالے سے بہت سے پروگرام شروع کیے۔ خاص طور پر شام کے پروگرام بہت مقبول ہوئے‘ جس سے جامعہ کی آمدنی میں اضافہ ہونے لگا۔ ان کے تیسرے ساتھی ڈاکٹر مجیب تھے‘ جنہوں نے جرمنی سے پرنٹنگ کی تربیت حاصل کی تھی۔

انہوں نے جامعہ ملیہ میں پرنٹنگ پریس قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ابھی ترقی کا سفر شروع ہی ہوا تھاکہ 1928ء میں حکیم اجمل خان کا انتقال ہوگیا۔ یہ جامعہ کیلئے ایک بڑا دھچکا تھا کیونکہ جامعہ کی مالی امداد کا بڑا حصہ ان کی طرف سے آتا تھا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا اور نئے سرے سے جامعہ کی مالی استواری کی منصوبہ بندی شروع کی۔ ایسے میں انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت ایک عہدنامے پر دستخط کیے کہ وہ اگلے بیس سال تک جامعہ کو نہیں چھوڑیں گے‘ اور یہ بیس برس 150 روپے ماہانہ سے اوپر تنخواہ نہیں لیں گے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس عہد کو نبھایا۔ وہ صرف ایک ماہر منتظم ہی نہیں ایک ممتاز ماہر تعلیم بھی تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے جامعہ میں نئے تعلیمی پروگرام متعارف کرائے۔ یوں جامعہ معاشی طور پر مستحکم ہونے لگی۔ یکم مارچ 1935ء کو جامعہ نے اپنے نئے کیمپس میں سفر کا آغاز کیا۔ جامعہ میں ملکی اور غیرملکی سکالرز کو سیمینارز کی دعوت دی جاتی۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کی دعوت پر 1939ء میں مولانا عبیداللہ سندھی نے جامعہ میں بیت الحکمہ کی بنیاد رکھی۔ 1947ء میں فرنگی دور ختم ہوگیا۔1948 ء میں ڈاکٹر ذاکر کے جامعہ ملیہ کے ساتھ معاہدے کے 20 سال پورے ہو گئے تھے۔ ملک آزاد ہو چکا تھا۔ حالات بدل چکے تھے۔ تب حکومت نے انہیں علی گڑھ یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے عہدے پر فائز کیا۔ پھر وہ بھارت کے نائب صدر بن گئے اور آخر وہ دن بھی آیا جب ڈاکٹر ذاکر حسین بھارت کے پہلے مسلمان صدر بنے۔ ایوانِ صدر میں دن بھرکی مصروفیات کے بعد جب ڈاکٹر ذاکر حسین اکیلے ہوتے تو کبھی کبھی انہیں ان دنوں کی یاد آجاتی‘ جب آشفتہ سروں کے ایک قافلے کے ہمراہ وہ فرنگی استعمار کے خلاف ایک تعلیمی ادارے کی تعمیر میں مصروف تھے۔ کیسا جذبہ تھا جس نے راستے کی ہر چٹان کو پگھلا دیا تھا۔ کیسا عشق تھا جس نے بے سروسامانی میں بھی انہیں باثروت بنا دیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے