حیا کا معنی، اُس کے تقاضے اور ثمرات… (1)

انسان کے خالق کی طرف سے اُس کے نفس میں ایک ایسی قوت و استعداد ودیعت کی گئی ہے جس کی وجہ سے انسان خیر و صلاح کے کاموں کی طرف پیش قدمی کرتا ہے اور شر و برائی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس قوت یا ملکہ کا نام حیا ہے۔ خیر و شر کے باطنی جذبات پوشیدہ اُمور ہیں جو صرف اپنی علامات اور نشانیوں سے ہی پہچانے جاتے ہیں، خیر کی بہترین علامت شرم و حیا ہے اور شر کی علامت بے حیائی ہے؛ چنانچہ ایک عربی شاعر کہتا ہے:
لاَ تَسْاَلِ الْمَرْئَ عَنْ خَلاَئِقِہٖ
فِیْ وَجْہِہٖ شَاہِدٌ مِنَ الْخَبَرِ

ترجمہ: انسان سے اُس کے اخلاق کی بابت نہ پوچھ، خود اس کے چہرے پر اُس کے اخلاق کی شہادت موجود ہے۔

ابوحیان اُندلسی صفتِ حیا کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”معیوب اور قابلِ مذمت افعال صادر ہونے کے خوف سے انسانی طبیعت میں انقباض اور گھٹن کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے‘ اسے حیاکہتے ہیں، اس کا منبع دل ہے اور اس کا مظہر چہرہ ہے، یہ حیات سے مشتق ہے اور اس کی ضد اَلْقِحَۃُ یعنی بے حیائی اورغیر پسندیدہ کاموں کے ارتکاب پر جری ہونا ہے‘‘۔ (البحر المحیط، ج:1،ص: 191) حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی فرماتے ہیں: ”جس کام کے ارتکاب کی صورت میں کسی شخص کو ملامت کا خوف ہو اور اس بنا پر اس کام کو کرنے میں انقباض اور گھٹن کی کیفیت پیدا ہو تو اُس کیفیت کو لغت میں حیا کہا جاتا ہے اور شریعت کی نظر میں حیا کا معنی ہے: ”ایساوصف جو انسان کو بُرے کاموں سے اجتناب پر برانگیختہ کرے اور حق داروں کے حقوق میں تقصیر و کوتاہی سے روکے۔ اِسی وجہ سے حدیث میں آیا ہے : حیا پوری کی پوری خیر ہے‘‘۔ (فتح الباری:ج:1،ص:55) علامہ ابن علان صدیقی فرماتے ہیں: ”شریعت کی اصطلاح میں حیا اس خُلق کو کہتے ہیں کہ جو انسان کو قبیح اقوال و افعال اور برے اخلاق کے ترک پر برانگیختہ کرتا ہے اور حقدار کے حق میں کوتاہی اور تقصیر سے روکتا ہے اور کہا گیا ہے: حیا نفس کی ایک ایسی کیفیتِ راسخہ کا نام ہے کہ جو نفس کو حقوق کی ادائیگی پر اور قطعِ رحمی اور نافرمانی سے اجتناب پر برانگیختہ کرتی ہے‘‘۔ (دَلِیْلُ الْفَالِحِیْن لِطُرُقِ رِیَاضِ الصَّالِحِیْن، ج:5، ص:150)۔

بنیادی طور پر حیا کی دو قسمیں ہیں: حیا کی ایک قسم تو نفسانی ہے، حیاکی یہ صفت اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی درجے میں تمام نفوس میں پیدا فرمائی ہے، جیسا کہ لوگوں کے سامنے شرمگاہ کھولنے اور صحبت و مجامعت سے حیاکرنا اور دوسری قسم ایمانی ہے، وہ یہ ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کے خوف کی بنا پر گناہوں کے ارتکاب سے رُک جائے۔ (التعریفات،ص:94) حیا کے مختلف درجات ہیں اور اس کا کامل ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک سے حیا کرے اور اس کی تشریح یوں کی گئی ہے: ”وہ تمہیں ایسی جگہ موجود نہ پائے جہاں قدم رکھنے سے اُس نے تمہیں منع کیا ہے اور اُس جگہ سے تمہیں غیر حاضر نہ پائے جہاں حاضر ہونے کا اُس نے تمہیں حکم دیا ہے‘‘۔ (شَرْحُ الزُّرْقَانِی عَلَی الْمَوَاہِبِ الَّلدُنِّیَّۃِ بِالْمَنَحِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ،ج:6،ص: 91) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ”کیا وہ (انسان) نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے‘‘ (العلق:14)۔ (2) ”بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے‘‘ (النساء :1)۔ لہٰذا کسی بندے کا گناہوں کی پروا نہ کرنا، شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کرنا، بندگانِ خدا کی حق تلفی اور اُن کی دل آزاری کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اس کا دل اللہ تعالیٰ کی عظمت و ہیبت سے خالی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے حیا کی کوئی رمق موجود نہیں ہے۔

حیائے ایمانی کی وضاحت ان احادیث سے ہوتی ہے: ”حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے حیاکرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ! الحمدللہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: حیا کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ تم اپنے سر (اور دماغ) میں موجود تمام افکار کی حفاظت کرو اور تم اپنے پیٹ اور جو کچھ اس کے اندر ہے، اُس کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کرو اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دے، پس جس نے اس طرح کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حیا کی جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے‘‘ (ترمذی:2458)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکیزہ انسان اپنی سوچ کو بھی پاکیزہ رکھتا ہے، بطن اور باطن کی حفاظت کے معنی یہ ہیں کہ وہ لقمہ حلال کھاتا ہے اور شہوت پرستی نہیں کرتا۔

حضرت معاویہؓ بن حیدہ القشیری بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺسے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! ہماری شرمگاہوں کی حدود کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: اپنی منکوحہ بیوی کے سوا ہر ایک سے اپنی شرمگاہ کو چھپائو، اُنہوں نے عرض کی: انسان کبھی دوسرے شخص کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تب بھی تمہاری ہر ممکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ تمہاری شرمگاہ کوئی نہ دیکھے۔ میں نے عرض کی: انسان کبھی تنہائی میں ہوتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اُس سے حیا کی جائے‘‘ (ترمذی:2769)۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان تنہائی میں بھی تلذُّذ کی نیت سے اپنی شرمگاہ کو نہ دیکھے اور بلاضرورت کشفِ عورت نہ کرے، اگر کوئی نہ بھی دیکھے، اللہ تودیکھ رہا ہوتا ہے، تو سب سے زیادہ حیا تو خالق و مالک کی ذات سے ہونی چاہیے۔

”حضرت سعیدؓ بن زید انصاری بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! مجھے وصیت فرمائیں، آپﷺ نے فرمایا: میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ تو اللہ عزوجل سے ایسی حیا کر جیسے تو اپنی قوم کے کسی نیک و صالح آدمی سے حیا کرتا ہے‘‘ (مکارم الاخلاق للخرائطی:309)۔
الغرض حیا ایک نفسانی ملکہ، فطری اور جبلّی استعداد ہے جو انسان کو ہر طرح کی برائیوں سے روکتی ہے، اس کے اور معصیت کے درمیان رکاوٹ بنتی ہے، یہ ایک روحانی حِس ہے، جس طرح انسان آگ کے الائو سے بے اختیار پیچھے ہٹتا ہے اور تمام موذی و مُضر اشیا مثلاً: شیر اور سانپ وغیرہ جیسے تمام درندوں اور حشرات سے بے اختیار جان بچاتا ہے، اسی طرح جس کے اندر اللہ تعالیٰ کا ودیعت کردہ یہ نفسانی ملکہ اور فطری استعداد اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہوتی ہے، وہ ہر معصیت اور تمام معیوب و ناپسندیدہ اقوال و افعال سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔

جس انسان میں یہ ملکہ جس قدر کم ہوگا، اُس سے اعمالِ خیر کا صدور بھی اُسی مقدارمیں کم ہو گا۔ اگر کسی شخص میں اس استعداد کا فقدان ہے یا قرآنِ کریم کے الفاظ میں اُس کے قلب پر رَین ہے یا حدیثِ پاک کے مطابق غین ہے، تو وہ قبیح افعال سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتا، بلکہ ان کاموں میں وہ ایک گونہ لذت و انبساط محسوس کرتا ہے۔ صفتِ حیا فطرتِ سلیمہ کو جانچنے کی ایک کسوٹی ہے، چنانچہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: ”لوگوں تک گزشتہ نبیوں کا جوکلام پہنچا، اُس میں یہ بھی مذکور تھا: جب تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہو کرو‘‘ (بخاری:6120)۔ اسی کو فارسی میں یوں بیان کیا جاتا ہے: ”بے حیا باش ہرچہ خواہی کن‘‘ یعنی جسے شُترِ بے مہاراور مادر پدر آزاد بننے کی خواہش ہے توسب سے پہلے وہ نعمتِ حیا سے محروم ہوتا ہے اور اپنی گردن سے اس کے بندھن کو کھول دیتا ہے، یعنی شریعت کی پابندی سے آزاد ہو جاتا ہے، اس کے بعد جو اُس کے جی میں آئے، کر گزرتا ہے، کیونکہ یہی وہ غیر مرئی مُہار اور پیروں کی زنجیر ہے جو انسان کے قدموں کو برائیوں کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے۔

نبی کریمﷺ نے شرم و حیا کو انبیائے کرام و رسلِ عظام کی سنت قرار دیا ہے: (1) ”حضرت ابوایوبؓ انصاری بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: چار چیزیں رسولوں کی سنتوں میں سے ہیں: حیا، خوشبو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا‘‘ (ترمذی:1080)۔ (2): ”حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: موسیٰ(علیہ السلام) بڑے ہی حیا والے اور بدن کو ڈھانکنے والے تھے، ان کی حیا کی وجہ سے اُن کے بدن کا کوئی بھی حصہ نہیں دیکھا جا سکتا تھا‘‘ ( بخاری:3404)۔ (3): تمام انبیائے کرام و رسلِ عظام میں سب سے بڑھ کر شرم و حیا کی صفت خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہﷺ میں پائی جاتی تھی، چنانچہ ”حضرت ابوسعیدؓ خدری بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ ایک پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیادار اور شرمیلے تھے، جب کسی چیز کو ناپسند فرماتے (تو زبان سے کچھ نہ فرماتے) اُس کے آثار رخِ انور پر نمایاں ہوجاتے تھے‘‘ (بخاری:6102)۔

(4): ”حضرت عائشہؓ آپﷺ کی صفتِ حیا کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتی ہیں: نبی کریمﷺ نہ کوئی فحش بات اپنی زبان پر لاتے، نہ بازاروں میں شور مچاتے تھے بلکہ آپﷺ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کے بجائے عفو و درگزر سے کام لیتے تھے‘‘ (شمائل ترمذی:330)۔ (5): ”حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں: جب بارگاہِ رسالت میں کسی شخص کی کوئی شکایت کی جاتی تو نبی کریمﷺ یہ نہ فرماتے کہ فلاں شخص کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ یہ بات کرتا یا کہتا ہے، بلکہ ایسے موقع پر آپﷺ کا اندازِ تکلّم یہ ہوتا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ وہ یہ بات کرتے یا کہتے ہیں، یعنی اُس شخص کا نام نہ لیتے تاکہ اُس کی عزتِ نفس قائم رہے اور اُسے ناپسندیدہ کام سے بھی روک دیتے‘‘ (ابوداود:4788)۔ (6): ”قاضی عیاض مالکی بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ اپنے طبعی شرم و حیا اور کریم النفس ہونے کے باعث کسی کے منہ پر ایسی بات نہ کہتے جواُسے ناپسند ہوتی‘‘، (7): یہ بھی روایت ہے کہ شدتِ حیا کی وجہ سے آپﷺ کسی کے چہرے پر نظریں جما کر نہیں دیکھتے تھے اور کسی کی ناپسندیدہ حرکت کو دیکھ کر آپﷺ کی طبیعت میں ملال آ جاتا، لیکن اس کے باجود آپﷺ اشاروں سے ہی اُس کاتذکرہ کرتے تھے‘‘ (اَلشِّفَاء بِتَعْرِیْفِ حُقُوْقِ الْمُصْطَفٰی، ج:1، ص:242)۔

حیا کی صفت بے باکی اور بزدلی کی ایک درمیانی کیفیت ہے، جو شخص بے باک اور جری ہوتا ہے، وہ دلیری کے ساتھ انجام کی پروا کیے بغیر ہر کام کرگزرتا ہے، خواہ وہ کام قابلِ مذمت اور معیوب ہی کیوں نہ ہو، اس کے برعکس بزدل انسان مطلقاً کوئی کام نہیں کر سکتا، خواہ وہ اچھا ہو یا بُرا، جبکہ حیادار انسان ہر اچھا کام پورے اطمینانِ نفس اور قوتِ ایمانی کے ساتھ کرتا ہے اور ہر برے کام سے ہر صورت میں اجتناب کرتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے