’’ قناعت‘‘ اللہ کی خوشنودی

قناعت ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ رب العزت نے کلام مجید میں قناعت کرنیوالوں کی تعریف کی ہے اور ان کو اپنے پسندیدہ لوگوں میں شامل کیا ہے۔ کلام مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب انسان کو کوئی اچھی چیز ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور جب تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ اِسکے علاوہ اس کے نیک بندے انکو ملی ہوئی چیزوں پر قناعت کرتے اور اللہ پاک کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہتے ہیں۔آج شیخ سعدیؒ شیرازی کے اقوال و نظریات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جن کی اس موضوع پر کتابیں خریدنے کی استعداد نہیں ہے وہ اس سے استفادہ کر سکیں۔

(1)مغرب کا رہنے والا ایک سوالی حلب کے بزازوں کے سامنے یہ کہہ رہا تھا کہ ’’اے امیر لوگو! اگر تم میں انصاف ہوتا اور ہم قناعت کرنے والے ہوتے (یعنی تھوڑی چیز پر خوش ہونے والے ہوتے) تو دنیا سے سوال کرنے (بھیک مانگنے) کی رسم اٹھ جاتی۔

ترجمۂ اشعار:اے قناعت! تو مجھے توانگر بنا دے، اسلئے کہ تیرے سوا اور کوئی نعمت؍ِ دولت نہیں ہے۔ صبر کا گوشہ اختیار کرنا حکیم لقمان کا شیوہ ہے، جس کسی میں صبر نہیں ہے، وہ حکمت و دانائی سے محروم ہے۔ (اس سلسلے میں یہ دعا بڑی عظیم ہے جو ہمیں اکثر کرتے رہنا چاہئے یااللہ! جو کچھ رزق تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس پر مجھے قناعت کی توفیق دے اور میرے لئے اس میں برکت فرما۔ آمین!)

(2)مصر میں دو امیر زادے رہتے تھے۔ ان میں سے ایک نے علم حاصل کیا اور دوسرے نے دولت کمائی۔ آخر کار وہ پہلا تو اپنے دَور کا علامہ بن گیا جبکہ دوسرا (مالدار) عزیز مصر ہو گیا۔ یہ مالدار اپنے فقیہ بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھا کرتا اور کہا کرتا کہ ’’میں نے تو سلطنت حاصل کرلی اور یہ بھائی اسی طرح مفلسی و بےنوائی میں ہے‘‘۔ وہ بھائی بولا کہ ’’اے بھائی! اس باری تعالیٰ کی نعمت کا شکر مجھ پر اسی طرح زیادہ ہے کیونکہ میں نے پیغمبروں کی میراث‘ یعنی علم‘ حاصل کیا ہے‘ جبکہ تو نے فرعون اور ہامان کی میراث یعنی مصر کی حکومت حاصل کی ہے۔

ترجمۂ اشعار: میں وہ چیونٹی ہوں جسے لوگ اپنے پائوں تلے روندتے ہیں، میں شہد کی مکھی نہیں ہوں کہ لوگ میرے ہاتھوں (میرے ڈنک سے) نالاں ہوں۔ میں بھلا اس نعمت کا شکر (پوری طرح) کیونکر ادا کرسکتا ہوں کہ مجھ میں لوگوں کو آزار پہنچانے کی طاقت نہیں ہے۔

(3)میں نے ایک درویش کے بارے میں سنا جو فاقے کی آگ میں جل رہا اور گدڑی پر گدڑی سی رہا تھا (کپڑوں کے ٹکڑے جوڑ رہا تھا) اور اپنے مسکین دل کی تسکین کی خاطر یہ کہا کرتا کہ ہم خشک روٹی اور درویشانہ لباس پر قناعت کرتے ہیں، اسلئے کہ دوسروں کے احسان کا بوجھ اٹھانے کی نسبت اپنی محنت کا بوجھ اٹھانا بہتر ہے۔

کسی نے درویش سے کہا کہ ’’تو کیا بیٹھا ہوا ہے (اٹھ کہ) اس شہر میں فلاں شخص سخی طبع اور عام سخاوت و مہربانی کرنے والا ہے۔ وہ آزاد منش لوگوں کی خدمت پر کمربستہ رہتا ہے اور دلوں کے دروازے پر بیٹھتا ہے (لوگوں کے دل لبھاتا رہتا ہے) اگر اسے تیری اس حالت کا پتا چل جائے تو وہ عزیزوں کے دل کا خیال کرنے کو خود پر احسان سمجھتا ہے‘‘۔ درویش بولا ’’خاموش (چپ ہوجا) اسلئے کہ پستی کی حالت میں مرنا‘ کسی کے آگے اپنی حاجت لیجانے سے بہتر ہے‘‘۔

ترجمۂ اشعار:رقعہ سینے اور صبر میں گوشہ نشینی کا الزام بھی بہتر ہے، کیونکہ لباس کیلئے کپڑا لتہ سینا آقائوں، مال داروں (کے مقدر میں) لکھا گیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کسی ہمسایہ کی پامردی سے بہشت میں جانا دوزخ کے عذاب کے برابر ہے یعنی دوسروں کا احسان اٹھانا کسی صورت میں بھی اچھا نہیں ہے۔ اس (احسان اٹھانے) سے انسان کی عزت و قدر جاتی رہتی ہے۔

(4) ایک عجمی (غیرعرب) بادشاہ نے ایک طبیبِ حاذق حضور اکرمﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ وہ کوئی ایک سال دیارِ عرب میں رہا۔ اس دوران کوئی بیمار اس کے پاس نہ آیا اور اس سے علاج کیلئے نہ کہا۔ وہ حضورؐ اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شکوہ کیا کہ ’’مجھے تو اصحابؓ کے علاج معالجے کیلئے بھیجا گیا ہے لیکن اس مدت میں کسی نے بھی ادھر توجہ نہیں کی کہ میں جس خدمت کیلئے آیا ہوں وہ بجا لائوں‘‘۔ رسولﷺ نے فرمایا کہ ’’ان لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ جب تک بھوک غالب نہ ہو وہ نہیں کھاتے (اور جب کھانے لگتے ہیں تو) بھوک ابھی باقی ہوتی ہے تو وہ کھانے سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں‘‘۔ طبیب بولا ’’تو یہی ان کی صحت و تندرستی کا سبب ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے زمین چومی اور چلا گیا۔

ترجمۂ اشعار:طبیب اس وقت بات (علاج) کا آغاز کرتا ہے جب یا تو کھانے پر ہاتھ دراز ہوں (کھانا بہت کھایا جائے) کہ جسکے نہ کہنے سے خلل پیدا ہوتا ہے، یا پھر نہ کھانے سے جان جاتی ہو؛ مجبوراً اسکی حکمت (محض) گفتار رہ جاتی وہی مراد ہے۔

(5) ارد شیر بابکان کی سیرت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے (ایک موقع پر) ایک عرب حکیم سے پوچھا کہ ’’روزانہ کتنا کھانا (کتنی مقدار میں) کھانا چاہئے؟‘‘ اس حکیم نے جواب میں کہا: ’’سو درم سنگ (پرندے کی ایک قسم) کافی ہے‘‘۔ ارد شیر نے کہا کہ: ’’اس قدر (تھوڑی) خوراک سے کیا طاقت حاصل ہوگی؟ حکیم نے (عربی میں جواب دیا جس کا ترجمہ ہے): اس قدر خوراک تجھے پائوں پر کھڑا رکھے گی (یعنی تو چل پھر سکے گا، تجھ میں طاقت آئے گی) اس مقدار سے تو جتنا زیادہ کھائے گا تو اس کا بوجھ تجھے اٹھانا پڑے گا (تیری صحت خراب ہوتی جائے گی)۔

ترجمۂ شعر: کھانا زندگی بسر کرنے اور (خدا تعالیٰ کا) ذکر کرنے کے لئے ہے، جبکہ تو یہ سمجھتا ہے کہ زندگی کھانا کھانے ہی کے لئے ہے۔

(بشکریہ گلستان شیخ سعدیؒ۔ ترجمہ ڈاکٹر حمید یزدانی)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے