تخت، تختہ یا تختہ دار

تقریباً ساڑھے تین ماہ پہلے بائیں آنکھ کی سرجری ہوئی تھی۔ تین دن پہلے دائیں آنکھ کا پروسیجر بھی مکمل ہوگیا۔ دو دن آنکھ پر ’’کھوپا‘‘ چڑھائے موشے دایان بنا رہا لیکن اب تقریباً نارمل ہوں جس پر اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہوئے اِن سب گمنام مہربان انسان دوستوں کیلئے دعا گو ہوں جو ٹیکنالوجی کو یہاں تک لے آئے کہ یہ مرحلہ بہت مختصر اور آسان ہو چکا ہے ورنہ کبھی یہ سلسلہ بہت ہی طویل اور تکلیف دہ ہوا کرتا تھا۔

آدمیوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے والے ہی انسان کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ میو اسپتال کے CEOڈاکٹر اسد اسلم کا شکریہ ادا کرنا احسان فراموشی ہوگی کہ انہی کی محبت اور مہارت کی وجہ سے قلم و کتاب سے رشتہ بحال ہوا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ میری ’’تیسری آنکھ‘‘ کی روشنی میں بھی اضافہ فرمائے کیونکہ ’’تیسری آنکھ‘‘ کے بغیر دو آنکھیں ادھوری ہوتی ہیں کہ دو، دو آنکھیں تو جانوروں کو بھی عطا کر دی جاتی ہیں۔

اصولاً تو آج بھی ’’ناغہ‘‘ ہی بنتا تھا لیکن ’’اے پی سی‘‘ نے چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ سمجھ نہیں آتی کہ ان چل چکی توڑے دار بندوقوں نے گزشتہ آل پارٹیز کانفرنسوں میں کون سی توپ چلالی تھی جو اب کوئی غلیل چلا لیں گے؟ اور اس سے بھی کہیں بڑھ کر یہ کہ ان لوگوں نے اس ملک کو تقریباً مسلسل اقتدار کے باوجود قرضوں اور کسمپرسی کے علاوہ اور دیا ہی کیا ہے لیکن ڈھٹائی کی بہرحال داد بنتی ہے کہ سرے محل اور ایون فیلڈ کچی آبادیوں سے خطاب فرمائیں گے۔

بدہضمی بھوک سے مخاطب ہوگی، عرش نشین فرش نشینوں کی محرومیوں سے بات کریں گے۔ سچ کہا کہ نواز شریف کی آواز کو روک سکتے ہو تو روک لو کہ جو صحت مند نواز شریف کو نہ روک سکے وہ اس کی آواز کو کیسے روک سکیں گے؟ تماشا دلچسپ ہوگا کہ سانپ کے منہ میں چھپکلی کا سا سماں ہے۔ بڑھک تو مار چکے اب دیکھنا ہے کہ بولتے ہیں یا اچانک محاورے والی بولتی بند ہو جاتی ہے کہ دونوں کاموں کیلئے دبائو عروج پر ہوگا اور یہ فیصلہ، فیصلہ کن ہوگا کہ چھپکلی اُگلی جائے یا نگلی جائے۔ یہ آل پارٹیز کانفرنس نہیں بلکہ آل پارٹنرز کانفرنس ہے۔

’’پارٹنرز اِن کرائم‘‘ ہیں جو مدتوں سے مال مسروقہ ’’حصہ بقدر جثہ‘‘ کی روشنی میں تقسیم کرتے ہیں۔ کبھی ایک دوسرے کی انتڑیاں نکالنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے ہیں، کبھی گہری پیاس اور پانی کی طرح گلے ملتے ہیں۔ یہ سیاسی پارٹیاں نہیں، جتھے اور گینگز ہیں جو جن عوام سے پیار کا اظہار کرتے ہیں، انہی کو مار دیتے ہیں اور عوام کی ذہنی حالت کا اندازہ لگانے کیلئے صرف یہی ایک جملہ بہت کافی ہے کہ ’’کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں‘‘۔

نواز شریف سینئر ترین ’’سٹیک ہولڈر‘‘ ہے جس کی کیفیت قابلِ فہم ہے۔ اندھے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ عمران خان تیزی سے ’’ڈلیور‘‘ کرنے کی پوزیشن میں آتا جا رہا ہے سو ان کی فرسٹریشن اور ڈیسپریشن انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ ڈیسپریشن میں آدمی کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

خصوصاً نواز شریف کی حالت NOW OR NEVER جیسی اور کشتیاں جلا دینے والے طارق بن ذیاد جیسی ہے لیکن مسئلہ یہ کہ آپ طارق بن ذیاد نہیں نواز بن شریف ہیں جس نے ہمیشہ ایک آدھ کشتی نکرے لگائی ہوتی ہے۔ ساتھی جائیں بھاڑ میں خود سرور پیلس جدہ میں بیٹھ کر سرور لیں گے جب تک موسم سازگار نہیں ہو جاتا لیکن اس بار مقابل ایک منتخب ہے جو ’’ڈلیور‘‘ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو ان مجرموں ملزموں کا بنے گا کیا؟ یہی خوف انہیں جینے نہیں دے رہا۔

جو وزیراعظم اپنی اور صدر کی مراعات کم کرنے کا بل لانے کی منظوری دیدے وہ بہت ’’خطرناک‘‘ ثابت ہو سکتا ہے سو سردھڑ کی بازی لگانا تو بنتا ہے، اسی لئے عرض کیا کہ تماشا بہت دلچسپ ہوگا۔

تخت، تختہ یا تختہ دار کا کھیل تقریباً آخری مراحل میں داخل ہونے والا ہے جس کا اگلا مرحلہ بھی دور نہیں جو دلیری سے زیادہ دانش مندی کا متقاضی ہوگا مثلاً مجھے تو نواز شریف کی تقریر پر کارروائی بھی بےتکی محسوس ہو رہی ہے۔

سراج الحق، حق کا ساتھ دیں نہ دیں کہ ان کی اپنی دنیا ہے لیکن یہ کہتے ہوئے باطل کا ساتھ دینے سے انکاری ہیں کہ ’’اے پی سی کا ایجنڈا کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات کے گرد گھوم رہا ہے۔ ملک کی تباہی کے ذمہ داروں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے‘‘۔

یاد رہے جن مونہوں کو مسلسل اقتدار کا خون لگ چکا ہو، اقتدار سے مستقل محرومی ان کیلئے تختہ دار سے کم نہیں ہوتی اور یہ بھی یاد رہے کہ موجودہ میچ سیاسی جماعتوں کیلئے نہیں پاکستان کیلئے فیصلہ کن ہوگا۔

کیوں ڈبوتے جا رہے ہو کشتیوں پہ کشتیاں

دور ہے ساحل تو پھر ساحل بدل کر دیکھ لو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے