دامنِ کوہسار میں جلتا چراغ

کہتے ہیں چراغ سے چراغ جلتے ہیں اور خیر کی تقسیم کا عمل کبھی رکتا نہیں۔ یہ بھی ایک ایسے ہی چراغ کی کہانی ہے جو اسلام آباد کے پہلو میں پچھلی دو دہائیوں سے روشنی بکھیر رہا ہے۔ میری محرومی تھی کہ میں ایک طویل عرصے تک اس کی موجودگی سے بے خبررہا۔ پھر ایک اتفاق نے مجھے اس کے سامنے لاکھڑا کیا۔ آپ کو یاد ہوگا انہی صفحات میں میں نے لکھنؤ کے ندوہ کی کہانی لکھی تھی‘ جس کا قیام 1894ء میں عمل میں آیا تھا اور جو دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ کی خوبیوں کا امتزاج تھا۔ وہی ندوہ جس نے مدرسے کے روایتی مفہوم کو بدل کر اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا تھا‘ جس کے رسالے ‘الندوہ‘ نے تحقیق کے نئے در کھولے تھے‘ جہاں کے فارغ التحصیل طلبا کلاسیکی علوم کے ساتھ ساتھ جدید مہارتوں سے بھی لیس تھے۔ میری تحریر کی اشاعت کے بعد مجھے کچھ قارئین کا پیغام ملا کہ آپ نے لکھنؤکے قدیم اور معروف مدرسے الندوہ کا ذکر تو کیا‘ اسلام آباد کے پہلو میں بھی ایک ندوہ ہے‘ کیا آپ نے اسے دیکھا ہے؟ مجھے اپنی کم علمی اور کوتاہی کا اعتراف ہے۔ سوچا اس سلسلے میں کون رہنمائی کرسکتا ہے؟ تو برادرِ محترم خورشید ندیم کا نام ذہن میں آیا کہ شاید وہ اسلام آباد کے ندوہ کے بارے میں جانتے ہوں۔ انہوں نے مدرسے کے مہتممِ اعلیٰ مفتی محمد سعید خان کا ٹیلی فون نمبر دیا اور مفتی صاحب کو میرے بارے میں بتایا۔ وہ ہفتے کا دن تھا۔ اسلام آباد کا ایک خوبصورت اور روشن دن‘ جب میں اسلام آباد کے پہلو میں واقع اس مدرسے کی طرف جا رہا تھا۔

ندوہ کا یہ اسلامک سنٹر اسلام آباد اور مری کے درمیان واقع ہے۔ اسلام آباد سے اس کا فاصلہ 35 کلومیٹر ہے۔ اگر آپ چھتر پارک گئے ہوں تو پارک سے ذرا آگے دائیں طرف آپ کو سُرخ پتھروں سے بنی ایک خوبصورت عمارت نظر آئے گی‘ جس کا سُرخ رنگ سپین کے الحمرا کی یاد دلاتا ہے۔ اسلام آباد سے ندوہ تقریباً چالیس منٹ کا رستہ ہے۔ میں بلندی سے سیڑھیاں اُترتے ہوئے جوں جوں اس کے مختلف بلاکس دیکھ رہا تھا‘ مجھے ایک مسرت کا احساس ہو رہا تھاکہ ہمارے ہاں ایسے علمی مراکز بھی ہیں جہاں جدید ترین سہولتیں میسر ہیں۔ ندوہ کے مہتممِ اعلیٰ مفتی سعید خان صاحب اسی وقت درس سے فارغ ہوئے تھے‘ گرمجوشی سے ملے۔ میں نے کہا: مجھے ندوہ کو جاننے کا اشتیاق یہاں لے آیا ہے‘ آپ اس سنٹر اور لائبریری کے بارے میں کچھ بتائیں۔ اس پر مفتی صاحب کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی اور مجھے کہنے لگے: چلیے میں آپ کو ندوہ کے مختلف حصے دکھاؤں، میرے بتانے سے زیادہ آپ کا اپنا مشاہدہ معتبر ہو گا‘ لائبریری سے آغاز کرتے ہیں۔ کتابوں سے میری دلچسپی ہے‘ لہٰذا میں نے خوشی خوشی ہاں کر دی لیکن مجھے معلوم نہیں تھاکہ مجھے لائبریری کے چار مختلف ہالز دیکھنے کے لیے اتنا چلنا پڑے گا۔ رومی ہال میں تاریخ ، ادب، سوانح پر کتابیں ہیں۔ ان میں سے کچھ کتابیں شاید کسی اور لائبریری میں نہ ملیں۔ میں ایک ریک کے سامنے ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا‘ میرے سامنے 48 جلدوں میں صلیبی جنگوں کی تاریخ تھی میں نے مفتی صاحب سے پوچھا: ایسی نادر کتاب یہاں کیسے پہنچی؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: میں ایک بار شام گیا‘ وہاں ایک جگہ یہ کتاب نظر آئی تو میں نے سوچا یہ ندوہ کی لائبریری میں ہونی چاہیے۔

لائبریری کا ایک سیکشن قرآنیات کہلاتا ہے۔ یہاں قرآنیات کے حوالے سے تقریباً 2000 کتابیں ہیں۔ اسی طرح سیرت کے سیکشن میں ہزاروں کتابیں ہیں۔ رومی ہال کے اوپر اسی سائز کا ایک اور ہال ہے جس میں فقہ کی کتابیں رکھی ہیں۔ ان میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور فقۂ جعفریہ پر نادر کتابیں موجود ہیں۔ ایک اور سیکشن فتاویٰ کا ہے۔ اس سے آگے عقیدہ کا سیکشن ہے۔ یہاں مختلف فرقوں اور مذاہب کے عقیدوں کے حوالے سے بھی کتابیں ہیں۔ چار ہالز جو لائبریری کے لیے مختص کیے گئے ہیں‘ ان میں روشنی اور ہوا کا خاص اہتمام ہے۔ ایک پُرسکون ماحول ہے جہاں لوگ بیٹھ کر کتابیں پڑھتے ہیں۔ لائبریری میں بیٹھے کچھ طالب علموں سے میری ملاقات ہوئی۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی اور خوشی بھی کہ اس لائبریری کے دروازے ہر ایک کیلئے کھلے ہیں۔ وہاں بیٹھے ایک طالب علم نے بتایا کہ وہ قائداعظم یونیورسٹی میں پڑھتا ہے اور پُرسکون ماحول کی وجہ سے یہاں آتا ہے۔ ایک اور طالبِ علم نے بتایاکہ وہ خیبر پختونخوا سے آیا ہے اور سی ایس ایس کی تیاری کر رہا ہے۔ لائبریری میں آنے والے ان وزیٹرز کیلئے کھانا لنگر سے فراہم کیا جاتا ہے‘ اور اگر آپ دور دراز سے ندوہ کی لائبریری میں گئے ہیں تو آپ کی رہائش کا بھی مفت انتظام ہے۔ لائبریری میں کتابوں، مخطوطات، رسائل، سی ڈیز اور مائیکروفلمز کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہوگی۔ ہر ہال میں علیحدہ سے کیبن بنے ہیں جہاں فوٹو کاپی کا انتظام ہے۔

ندوہ کا آغاز آج سے دو دہائیاں پہلے ہوا۔ یہ ایک پہاڑ تھا جس کو کاٹ کر خوب صورت طرزِ تعمیر کی یہ عمارتیں بنائی گئیں۔ مدرسے میں حفظ کی تین کلاسز ہوتی ہیں۔ درسِ نظامی اس کے علاوہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی میٹرک تک عام تعلیم کا بھی انتظام ہے۔ اس وقت مدرسے میں 200 بچے ہیں جن کی تعلیم اور طعام وقیام مفت ہے۔ رہائش کیلئے 8 منزلہ عمارت بنائی گئی ہے۔ ان میں کچھ فلیٹس گیسٹ رومز کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں‘ جہاں سکالرز ٹھہرتے ہیں۔ ہر روز سینکڑوں لوگوں کیلئے مفت کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے‘ جن میں طالب علموں کے علاوہ وزیٹرز اور مدرسے کے قرب و جوار میں محنت مزدوری کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہاں کی مسجد بھی خوبصورت طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے۔ گنبد کا اندرونی حصہ ترکی کی مساجدکی یاد دلاتا ہے۔ طالب علموں کی جسمانی نشوونما کے لیے ایک جدید طرز کا جمنیزیم ہے۔ میں نے دیکھا‘ یہاں ہر طرح کی مشینیں موجود ہیں‘ طلبا کی ٹریننگ کیلئے باقاعدہ ایک انسٹرکٹر ہے جو اپنی نگرانی میں طلبا کو ٹریننگ کراتا ہے۔ ایک اور فلور پر ایک Stitching Room ہے جہاں طلبا کی یونیفارم تیار کی جاتی ہے۔ ہر طالب علم کو کپڑوں کے سات جوڑے دیے جاتے ہیں۔ ان میں جم کیلئے ٹریک سوٹ کے دو جوڑے بھی ہوتے ہیں‘ جن میں شرٹ اور ٹراؤزرز شامل ہیں۔ یوں فزیکل ایکٹیوٹی کے اعتبار سے ندوہ کسی بھی اعلیٰ پائے کے تعلیمی ادارے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ندوہ کا اپنا ایک سٹوڈیو ہے‘ جہاں ریکارڈنگ اور ایڈیٹنگ کے جدید انتظامات ہیں۔ اسی طرح اپنا پرنٹنگ پریس ہے‘ جس میں ندوہ کا اپنا لٹریچر طبع ہوتا ہے۔ ندوہ کا تحقیقی رسالہ الندوہ کے نام سے شائع ہوتا ہے۔

اس منفرد مدرسے کی چہاردیواری کو چھوتا ہوا پہاڑی چشموں کا صاف، شفاف اور ٹھنڈا پانی گزرتا ہے۔ ندوہ صرف اپنے مدرسے تک محدود نہیں بلکہ یہ معاشرے کے مختلف طبقوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ ہر مہینے تقریباً 250 خاندانوں کی کفالت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سو خاندانوں کو راشن پہنچا نے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ندوہ کے زیرِ اہتمام مختلف علاقوں میں پانی کی فراہمی کے لیے کنوئیں کھدوائے اور ٹیوب ویلز لگائے جاتے ہیں۔ یوں ندوہ معاشرے کی سطح پر ویلفیئرکے کاموں میں بھی مصروف ہے۔ ندوہ میں 200 طالب علموں کے علاوہ 55 کے قریب ملازمین ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں کا یومیہ خرچ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے۔ یہ سب مخیر حضرات کی اعانت سے ممکن ہے۔ ان میں سے بہت سے تو اپنے نام کے اخفا پر زور دیتے ہیں۔ مفتی سعید صاحب کا اگلا خواب ایک یونیورسٹی کا ہے جو روایت اور جدت کا سنگم ہو اس کے لیے مزید زمین کی ضرورت ہے لیکن اس کی خریداری کے لیے ندوہ کے پاس مالی وسائل نہیں۔ مفتی سعید مایوس نہیں۔ انہیں پورا یقین ہے کہ ایک دن ان کا یہ خواب بھی پورا ہوگا۔ ان کا ایمان ہے‘ چراغ سے چراغ جلتے ہیں اور خیر کی تقسیم کا عمل کبھی رکتا نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے