میری 2060 کی پلاننگ اور نرسنگ ہوم کے دو ماہ ۔
میرا پہلا ایکسیڈنٹ 10 ستمبر 2002 کو ہوا تھا تقریباً کم و بیش چودہ ماہ بستر پر رہا اور اس کا بھی بیشتر حصہ سو کر گزارا تھا ( چونکہ ہیڈ انجری کی وجہ سے کافی کچھ بھولنے کے ساتھ ساتھ دماغ میں عجیب و غریب حرکات و سکنات کرتا رہتا تھا)
محلے کی سیانی ماسیاں اور پڑوسی تو مجھے پاگل ہی کہتے تھے کہ دماغ پر گہری چوٹیں آنے کی وجہ سے ممتاز اپنا توازن کھو بیٹھا ہے، لہذا کوئی بھی کو مجھے دیکھنے کے لئے قریب آتا تو دن کو اکثر یہ “سیانے” لوگ انہیں کہتے کہ دور رہ کر بات کرنا یہ نہ ہو کہ ممتاز آپ کو پکڑ لے۔ وہ مخصوص انداز میں اپنی انگلیوں کو اپنے سر کے گرد گھما کر اشارہ کرتیں کہ اس کا دماغ کام نہیں کرتا۔
معلوم نہیں کب سے یہ “سیانے” ہر آنے والے کو میرے بارے ایسے بتاتے رہے، مگر آہستہ آہستہ مجھے جب ہوش آنا شروع ہوا تو میں نے ان افراد کو اپنے انداز میں منع کرنا شروع کیا اور اس انداز میں بتاتا کہ آپ نے کس رنگ کے کپڑے پہن رکھے ہیں یا چادر اوڑھ رکھی ہے۔ تب جاکر انہیں یقین آنا شروع ہوا کہ اسے ہوش آ رہا ہے!
کچھ افراد کو جب میں نہ پہچان سکتا تو ان کی طرف سے ایسا ردعمل سامنے آتا کہ یہی نیورو سرجن ہیں، اس کو دوبارہ نہ پہچاننے والا دورہ پڑا ہے، کچھ ایسی کہانیاں شروع کرتیں کہ ہماری بھاوج کے بھائی کا بھی موٹرسائیکل سے ایکسیڈنٹ ہوا تھا، کچھ دن تک وہ بھی ممتاز کی طرح خاموش رہا ، پھر کھانے پینے لگ پڑا، اچانک ایک دن وہ دوپہر کا کھانا کھا کر سویا اور پھر “نہیں اٹھا”…
میں ہر روز کی ان کہانیوں سے تنگ آ چکا تھا اور درد واقعی میرے سر میں تو تھا ہی کیونکہ ہیڈانجری تو تھی ہی اور اگر اس دوران تنگ آ کر میں کوئی سخت الفاظ کہہ ہی دیتا تو اس کا مجھے یہ فائدہ ہوتا کہ کوئی مجھ سے ناراض اس لئے نہ ہوتا کہ میرا “دماغ کام نہیں کرتا”۔
میری امی میرے سر کی مالش دودھ میں کچھ شامل کر کہ کرتیں اور اس طرح مجھے رات کو نیند آنے لگ جاتی اللہ میری پیاری امی جی کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے میں نے جوانی میں بھی ماں کی گود میں سر رکھ کر سکون حاصل کیا۔
اب کی بار ایکسیڈنٹ اس شدت اور نوعیت کا تو نہیں تھا مگر اب کی بار فریکچرز زیادہ ہوئے (پانچ فریکچر اور وہ بھی پہلے والی ٹانگ میں)۔ بیس دن ہسپتال میں رہنے کے بعد جب انھوں نے مجھے ڈسچارج کرنا تھا تو پہلے انھوں نے مجھ سے گھر کا ایڈریس مانگا، جب انہیں معلوم پڑا کہ میں سیکنڈ فلور پر رہتا ہوں اور چونکہ ہر گھر کا نقشہ لوکل گورنمنٹ کے پاس ہوتا ہے تو ہسپتال والوں نے مجھے وہاں نہ بھیجا اور اس کی دو وجوہات مجھے بتائیں:-
1:- کہ میرا اپارٹمنٹ چھوٹا ہے اور اس میں مریض کے لئے بیت الخلا نہیں ہے اور میرے اپارٹمنٹ میں لفٹ/ ایکسیویٹر تو ہے مگر میرے کمرے سے تھوڑی دور ہے۔
2:- تم شادی شدہ ہو، نہ ہی دوسرے خاندان کے افراد کے ساتھ رہتے ہو، لہذا جب تک ایکسٹرنل فیکسیٹر اتر نہیں جاتا تمہیں چوبیس گھنٹے مکمل کسی ایسے فرد کی ضرورت رہے گی جو تمہیں مدد کرے گا/گی۔
حسین ہم تمہیں نرسنگ ہوم منتقل کر رہے ہیں جہاں ہر وقت عملہ آپ کی دیکھ بھال کے لئے موجود ہو گا۔
نرسنگ ہوم کا تو میں نے سن رکھا تھا کہ یہاں ایسے بوڑھے افراد رہتے ہیں جو بہت بوڑھے ہو جاتے ہیں اور ان کی اولاد ان کو یہاں بھیج دیتی ہے، مگر میں جب یہاں آیا تو مجھے معلوم پڑا کہ یہاں تو ایسے افراد بھی رہتے ہیں جو جوان ہیں اور وہ مختلف انواع کی بیماریوں کا شکار ہیں، کچھ تو ایسے افراد بھی دیکھے جن کے پاس روپیہ پیسہ اتنا ہے کہ اسکا شمار ان کے پاس نہیں ہے۔
یہاں ایسے افراد بھی دیکھے کہ ان کی بولی صرف یہ ڈاکٹرز سمجھتے ہیں، ان کی اولاد بھی نہیں سمجھ پاتی کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ ایسے افراد کو مختلف کمروں میں رکھا گیا ہے اور ان کی من پسند غذا ان کو دی جاتی ہے۔
اگر ان افراد کی کسی ادارے یا ڈیپارٹمنٹ میں کوئی اپائنٹمنٹ ہو تو ان کے لئے ادارے کی گاڑی موجود رہتی ہے جو ان کو وہاں تک لے کر جاتی ہے۔ اگر گاڑی موجود نہ ہو یا کسی دوسرے مریض یا یہاں رہنے والے شخص کو لے کر باہر گئی ہو تو ضرورت پڑنے پر کسی بھی دوسرے فرد کے لئے پرائیویٹ ٹیکسی چوبیس گھنٹے دستیاب رہتی ہے۔ یہاں رہنے والے شخص کی ہر ضرورت پوری کرنا اس ادارے کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور کسی بھی فرد کو ذاتی حیثیت میں کچھ خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
یہاں اطالوی شہریوں کے ساتھ ساتھ برازیل، پیرو، مراکو، چین ، روس، اور افریقن ممالک کے وہ افراد بھی رہتے ہیں جو عمر رسیدہ ہیں اور وہ اس ملک میں اکیلے ہیں۔
میری ملاقات چین سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے فرد سے ہوئی جو نہایت خوش طبع، اور مزاحیہ انداز گفتگو کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔
“وانگ شی شی” چین کے کسی مشرقی حصے سے تعلق رکھتا ہے اور وہ یہاں اٹلی میں پچھلے بائیس سال سے رہائش پذیر ہے۔ اس کے بقول وہ پچھلے پانچ سال سے یہاں رہ رہا ہے لیکن ان بائیس سالوں میں وہ ایک بھی بار پلٹ کر چین نہیں گیا۔ اس نے یہاں آکر مختلف کاروبار کئے اور اب وہ پینسٹھ سال کا ہے۔ اب وہ کچھ بھی نہیں کرتا سوائے لوگوں کو ہنسانے اور سیگریٹ نوشی کے۔ اس کی خوراک میں ایک آدھا جگ گرم پانی کا شامل ہوتا ہے اور اس کے بغیر وہ کھانا نہیں کھاتا۔
کچھ ایسے بھی افراد یہاں دیکھنے کو ملے ہیں کہ ان کی طبعیت سے ایسا لگتا ہے کہ اس نرسنگ ہوم کی انتظامیہ نے ان کو دعوت دے کر یہاں بلایا ہوا ہے۔
اس نرسنگ ہوم میں مختلف عمر کی عورتوں کی بھی ایک مناسب تعداد ہے اور ان میں اکثر جوان بھی ہیں، اور یورپ کے انداز میں انتہائی مختصر لباس بھی زیب تن ہوتا ہے مگر کسی فرد میں اتنی جرات نہیں کہ ان کو چھو بھی سکے اور ہمارے ہاں مسجد، مدرسہ، سکول و کالج، قبرستان اور سڑک پر کھڑی گاڑی میں مجبور عورت بھی محفوظ نہیں تو سوچیں کہ ہوس مشرق میں ہے یا مغرب میں؟؟؟
ایک وقت تک میں گھر والوں کو کہتا رہا کہ میں یورپ میں ہوں، اور اگر میں رشتہ ازواج میں منسلک نہ بھی ہوا تو میں اپنی بوڑھاپے کی زندگی نرسنگ ہوم میں گزار لوں گا یہاں وہ سب سہولتیں میسر ہوتی ہیں شاید جو ایک عام آدمی کو باہر میسر نہ آ سکیں۔
میں نے جوانی میں ہی اس نرسنگ ہوم کا دورہ کر لیا ہے جہاں بیس پچیس سال بعد جانے کا سوچا تھا۔ ان دو ماہ میں میں نے بہت سے مشاہدات کئے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میری سوچ بالکل بھی درست نہ تھی۔ کم از کم نرسنگ ہوم میرے لئے نہیں ہے کیونکہ مجھ سے جتنا بھی ہو سکا میں نے اپنے والدین کی بھرپور انداز میں خدمت کی ہے اور اس کا صلہ کم از کم یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ میں اپنی زندگی اس انداز میں گزاروں جس کا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا اور مجھے امید ہے کہ ان شا اللہ یہ تنہائی کے بھی بہت تھوڑے دن ہیں۔
میں کیلنڈر سے تاریخ کا ورق پلٹ سکتا ہوں مگر وقت کو آگے کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔ جب تک زندہ ہوں ایک ایک سیکنڈ جی کر گزارنا ہے ان شا اللہ۔
موت سے پہلے کا ایک بھی سیکنڈ زندگی سے کم نہ ہوگا۔ آج اگر میں اکیلا نہ ہوتا یہاں تو کم از کم مجھے یہ مشاہدات کیسے ہوتے کہ نرسنگ ہومز کی زندگی کیسی ہوتی ہے ؟ یہاں مہنگی ترین زندگی مفت میں گزار کر بھی لوگ کیوں خوش دیکھائی نہیں دیتے؟ ہر فرد ایک یہاں منفرد لائف سٹائل میں جی رہا ہے۔ میں الحمداللہ صحت مند ہوں مگر ایکسٹرنل فیکسیٹر کے چِلّے نے مجھے بستر پر جھکڑ کر رکھا ہوا ہے۔
ہو سکتا ہے رب تعالی نے میری برین واشنگ کے لئے نرسنگ ہوم کا دورہ کروایا کہ ابھی وقت ہے اپنی روش کو بدلو ! تنہا زندگی گزارنا ایک مشکل ترین عمل ہے۔ اس نرسنگ ہوم میں مزید رہا تو میرا دم گھٹ گھٹ کر نکل جائے گا۔ انسان مشاہدات سے بھی سیکھتا ہے بس شرط یہ ہے کہ انسان ہوش و حواس قائم رکھ کر زندگی کے وہ دن گزارے جو اسے رب نے ہوش میں گزارنے کی توفیق دی ہے۔