اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں‘ وہ کفار پر بہت سخت اور ایک دوسرے پر نہایت مہربان ہیں‘‘ (الفتح:29)۔ اِس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرمﷺ کے اصحاب و رفقا کی یہ صفت اور شان بیان فرمائی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کے مقابلے میں نہایت سخت ہیں، لیکن اُن کے باہمی تعلقات، برتائو اور رویہ نہایت مشفقانہ اور ہمدردانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس بات کا واضح اعلان ہے کہ جن ہستیوں کو رسول اللہﷺ کی صحبت اور آپؐ کی رفاقت و معیت کا شرف حاصل ہوا، خواہ اُن کا تعلق براہِ راست خاندانِ نبوت سے تھا یا وہ آپ کے دیگر اصحاب و رفقا تھے، وہ سب باہم ایک دوسرے سے محبت و ہمددری رکھتے تھے، ان کے مابین عمومی طور پر کوئی دشمنی اور عداوت نہ تھی۔
صحابۂ کرامؓ کے مابین بعض مشاجَرات اور تنازعات تاریخِ اسلام کا انتہائی تلخ اور ناخوشگوار باب ہیں، کاش کہ یہ وقوع پذیر نہ ہوتے، لیکن تقدیر کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں، ان امور پر بحث اس وقت ہماری گفتگو کا موضوع نہیں ہے بلکہ قرآنِ کریم کا صحابۂ کرامؓ کے باہمی تعلقات کے حوالے سے جو صریح اور دوٹوک اعلان ہے، اسے بیان کرنا مقصودہے۔ ہمارا یہ منصب نہیں ہے کہ ہم صحابہ کرامؓ کے باہمی مناقشات کے حوالے سے عدالت لگاکر بیٹھ جائیں اور یہ کسی صاحبِ ایمان کے شایانِ شان بھی نہیں ہے، اس حوالے سے اہلسنّت و جماعت کا متفقہ موقف سب کو معلوم ہے، ہم امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حق پر سمجھتے ہیں اور ان کے مخالف موقف کو اجتہادی خطا پر محمول کرتے ہیں، ان کے معاملات اللہ تعالیٰ کی عدالت میں فیصَل ہوں گے۔ صحابہ میں سے کوئی ایمان لانے میں مقدم ہو یا مؤخر، افضل ہو یا مفضول، اللہ تعالیٰ نے سب سے حُسنِ عاقبت کا وعدہ فرمایا ہے۔ ہم صحابۂ کرامؓ کے مودَّت و محبت پر مبنی باہمی تعلقات پر گفتگو کر رہے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ‘‘ کی تصویر ہیں:
(1) ”ایک موقع پر حضرت ابوبکر صِدّیقؓ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، رسول اللہﷺ کے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے‘‘ ( بخاری:3712)، (2) ”حضرت عُقبہ بن حارث بیان کرتے ہیں: ایک دن حضرت ابوبکرؓ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی، پھر آپ چل دیے، راستے میں حضرت حسنؓ بن علی کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا توحضرت ابوبکرؓ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ شکل و شباہت میں حضرت علیؓ کے نہیں، بلکہ رسول اللہﷺ کی شبیہ (ہم شکل) ہیں، حضرت علیؓ یہ منظر دیکھ کر مسکرا رہے تھے‘‘ (بخاری: 3542)، (3) ”ایک بار حضرت عمرؓ سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے تو فرمایا: اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو نبی کریمﷺ کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم!
آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں‘‘ (المستدرک للحاکم: 4736)، (4) ”حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں: میں نے اندازِ تکلُّم میں حضرت فاطمہؓ سے بڑھ کر کسی کو رسول اللہﷺ کے مشابہ نہیں دیکھا، جب حضرت فاطمہؓ نبی کریمﷺ کے پاس تشریف لاتیں تو آپ اُنہیں بوسہ دیتے اور اُن کا ہاتھ پکڑ کر اُنہیں اپنی جگہ بٹھاتے اور جب رسول اللہﷺ اُن کے پاس جاتے تو وہ کھڑی ہو جاتیں اور آپ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتیں‘‘ (المستدرک: 4753)، (5) ”حضرت عبداللہؓ بن عباس بیان کرتے ہیں: جب حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں شہرِ مدائن فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے مسجد نبوی میں چمڑے کا بچھونا بچھواکر سارامالِ غنیمت اُس پر ڈال دیا، سب سے پہلے حضرت امام حسنؓ تشریف لائے اور فرمایا:
امیر المومنین!اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت میں جو ہمارا حق مقرر کیا ہے‘ ہمیں عطا فرمائیں، آپ نے فرمایا: ضرور ملے گا اور ایک ہزار درہم اُنہیں دے دیے، ان کے جانے کے فوراً بعد حضرت حسینؓ تشریف لائے، آپ نے اُنہیں بھی ایک ہزار درہم دیے، پھر ان کے جانے کے فوراً بعد حضرت عمرؓ کے اپنے بیٹے عبداللہ تشریف لائے تو آپ نے اُنہیں پانچ سو درہم دیے۔ اُنہوں نے کہا: امیر المومنین! میں نبی کریمﷺ کے عہدِ مبارک میں جوان تھا اور میں آپؐ کے ہمراہ جہاد میں شریک ہوا کرتا تھا، جبکہ حضراتِ حسنین کریمین اس وقت چھوٹے بچے تھے اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے، آپ نے انہیں ہزار ہزار درہم اور مجھے صرف پانچ سودرہم دیے ہیں، میرا حق اُن سے زیادہ ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میرے بیٹے پہلے وہ مقام اور فضیلت تو حاصل کرو جو حسنین کریمینؓ کو حاصل ہے اور پھر مجھ سے ہزار درہم کا مطالبہ کرنا، ان کے والدِ گرامی علی المرتضیٰؓ ہیں،ان کی والدہ فاطمۃ الزہراؓ ہیں،ان کے نانا رسولِ خدا ہیں، ان کی نانی خدیجۃ الکبریٰؓ ہیں، ان کے چچا جعفرِ طیارؓ ہیں، ان کی پھوپھی اُم ہانیؓ ہیں، ان کے ماموں ابراہیمؓ بن رسول اللہ ہیں، ان کی خالہ رقیہؓ و اُم کلثومؓ دخترانِ پیغمبر ہیں۔
یہ سن کر حضرت عبداللہؓ بن عمر خاموش ہوگئے‘‘ (اَلرِّیَاضُ النَّضْرَہْ: ج:2، ص:340)۔ (6) ”جب ابولولؤہ لعین کے قاتلانہ حملے سے حضرت عمرؓ شدید زخمی ہو گئے تو حضرت علیؓ آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے، حضرت عمرؓ رونے لگے تو حضرت علیؓ نے رونے کی وجہ پوچھی۔ فرمایا: موت کا پروانہ آ چکا ہے اور میں نہیں جانتا کہ میرا ٹھکانہ جنت میں ہوگا یا جہنم میں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: آپ کو جنت کی بشارت ہے، میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، آپﷺ نے فرمایا: ابوبکرؓ و عمرؓ اہلِ جنت کے سردار ہیں اور یہ بات میں نے نبی کریمﷺ سے اتنی مرتبہ سنی ہے کہ میں شمار نہیں کر سکتا‘‘
(مختصر تاریخِ دمشق: ج:18، ص:298)، (7) ”حضرت علیؓ کی حضرت عمرؓ کے ساتھ محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے بطن سے پیدا ہونے والی اپنی سب سے چھوٹی صاحبزادی کا نکاح حضرت عمرؓ سے کرایا اور حضرت عمر نے اُن کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے چالیس ہزار درہم اُن کا مہر مقرر کیا‘‘ (سنن بیہقی:14341)، (8) ”ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے فرمایا: عمر اہلِ جنت کے چراغ ہیں، جب حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ نے میرے بارے میں یہ کلمات ارشاد فرمائے ہیں تو فوراً آپ کے مکان پر تشریف لائے اور فرمایا: علیؓ! کیا آپ نے سنا ہے کہ نبی کریمﷺ نے مجھے اہلِ جنت کا چراغ کہا ہے؟
فرمایا: ہاں! میں نے یہ بات رسول اللہﷺ سے سنی ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: علیؓ! یہ حدیث آپ مجھے اپنے ہاتھوں سے لکھ کر دے دیں، حضرت علیؓ نے اپنے دستِ مبارک سے بسم اللہ کے بعد لکھا: یہ وہ بات ہے جس کی ضمانت علیؓ‘ عمرؓ کے لیے دیتا ہے۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپؐ نے جبریل امین سے سنا، اُنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے سناکہ عمرؓ اہلِ جنت کے چراغ ہیں۔ حضرت علیؓ کی یہ تحریر حضرت عمرؓ نے لے لی اور اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ جب میری وفات ہو جائے تو غسل وتکفین کے بعد یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا۔
جب آپ شہید ہوئے تو حسبِ وصیت وہ تحریر آپ کے کفن میں رکھ دی گئی‘‘ (اَلرِّیَاضُ النَّضْرَہ، ج:2، ص:311 تا 312)‘‘۔ (9) ”امام دارَقطنی بیان کرتے ہیں: حضرت عمرؓ نے ایک شخص کوحضرت علیؓ کی مذمت کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے فرمایا: تجھ پر افسوس ہے تُو علیؓ کو نہیں پہچانتا، وہ حضورﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں، پھر آپ نے نبی کریمﷺ کی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خدا کی قسم! تو نے اُنہیں اذیت پہنچائی جو اس قبر میں آرام فرما ہیں‘‘ (اَلصَّوَاعِقُ الْمُحْرِقَہ، ج:2، ص:517)، (10) ”حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں ایک دن حضرت حسنؓ ان کے دروازے پر تشریف لائے، دیکھا کہ اُن کے بیٹے عبداللہ کھڑے ہیں اور حاضری کی اجازت طلب کر رہے ہیں، اتفاق سے اُنہیں حاضر ہونے کی اجازت نہیں ملی، اس پر حضرت حسنؓ واپس تشریف لے گئے ،حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا کہ حضرت حسنؓ واپس چلے گئے ہیں تو آپ نے فوراً حضرت حسنؓ کو بلوایا اور فرمایا:
مجھے آپ کے آنے کی اطلاع نہیں تھی۔ حضرت حسنؓ نے فرمایا: میں اس خیال سے واپس چلا گیا کہ جب آپ نے اپنے بیٹے کو اجازت نہیں دی تو مجھے کب دیں گے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا:خدا کی قسم! آپ اجازت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں اور عمر کے سر پر یہ جو بال اُگے ہیں یہ اللہ کے بعد تمہارے سوا کس نے اُگائے ہیں؟ (یعنی مجھے یہ مقام اور مرتبہ تمہارے نانا کی برکت سے ملا ہے) اور فرمایا: آپ جب کبھی تشریف لائیں تو بغیر اجازت اندر آ جایا کریں‘‘ (اَلصَّوَاعِقُ الْمُحْرِقَہ: ج:2، ص:521)، (11) ”ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ کی حضرت حسینؓ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو آپ کے پیٹ پر بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ کو اُسی جگہ بوسہ دوں، پس حضرت حسین نے اپناکپڑا ہٹایا اور حضرت ابوہریرہ نے آپ کے پیٹ پر بوسہ دیا‘‘
(المستدرک: 4785)۔(12) ”حضرت ابو ہریرہؓ جب مرضِ وفات میں مبتلا تھے تو مروان بن حکم اُمَوی آپ کی عیادت کے لیے آیا اور کہنے لگا: جب سے ہمیں آپ کی رفاقت حاصل ہوئی ہے، مجھے آپ کی کسی بات سے ناگواری نہیں، سوائے اس سے کہ آپ حضراتِ حسنین کریمینؓ سے محبت رکھتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سمٹ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں، ہم لوگ نبی کریمﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، ایک جگہ آپ نے حضرات حسنین کریمینؓ کے رونے کی آواز سنی، حضرت فاطمہؓ بھی ساتھ تھیں، آپ تیز چل کر وہاں پہنچے اور فرمایا: ہمارے بیٹوں کو کیا ہوا ہے، حضرت فاطمہؓ نے عرض کی: یہ پیاسے ہیں، آپ نے اپنے مشکیزے میں دیکھا تو پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا، پھر آپ نے اپنے رفقائِ سفر سے پانی طلب کیا، تمام لوگ پانی کے برتن کی طرف لپکے لیکن اتفاق سے کسی کے پاس پانی موجود نہیں تھا، تو آپ نے باری باری حضرات حسنین کریمینؓ کو اپنی زبان مبارک چسائی، جب انہیں سکون ہوا، تو آپ کو اطمینان ہوا، حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا :
اسی لیے میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں‘‘ (المعجم الکبیر: 2656)، (13) ”ایک مرتبہ حضرت امیر مُعاویہؓ نے حضرت امام حسنؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ آبا و اجداد، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں‘‘ (اَلْعِقْدُ الْفَرِیْد: ج:5، ص:344)، (14) ”حضرت امیر معاویہؓ سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضرات حسنین کریمینؓ کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کیا کرتے تھے، ایک بار آپ نے پانچ ہزار دینار، ایک بار تین لاکھ درہم اور ایک بار چار لاکھ درہم دیے‘‘ (سِیَرُ اَعْلَامِ النُّبَلَاء، ج:4، ص:309)۔ان روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ گلستانِ نبوت کے گل ہائے مشک بار کے ساتھ کیسی محبت رکھتے تھے اور گلشنِ نبوت کے یہ غنچہ ہائے سدا بہار صحابہ کی کیسی تکریم فرماتے تھے۔
(13) ”ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ سے مشورہ طلب کیا کہ میں بذاتِ خود مسلمان افواج کے ہمراہ رومیوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہونا چاہتا ہوں، اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے، حضرت علیؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے صاحبانِ دین کے لیے یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ وہ اُن کے محفوظ مقامات کی حفاظت کرے گا اور جس ذات نے اُس وقت اُن کی مدد کی جب وہ قلیل تعداد میں ہونے کی وجہ سے بدلہ لینے پر قادر نہ تھے اور اپنی حفاظت کا انتظام بھی نہ کر سکتے تھے، وہ ذات حَیّ و قیّوم ہے، اس پر موت نہیں آ سکتی، لہٰذا اگر آپ بذاتِ خود دشمن سے مقابلے کے لیے جائیں گے اور ان کا سامنا کریں گے (اور اللہ نہ کرے) کسی مصیبت میں مبتلاہو گئے تو آپ کے بعد مسلمانوں کے لیے کوئی مرکزِ اُمید باقی نہیں رہے گا، جس کی طرف وہ رجوع کر سکیں۔ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ آپ کسی تجربہ کار شخص کے ہمراہ ماہرینِ حرب کو بھیجیں، اگر اللہ نے انہیںغلبہ دے دیا تو یہی آپ کی آرزو ہے اور اگر اس کے خلاف ہوگیا تو کم از کم آپ لوگوں کا سہارا اور مسلمانوں کے لیے پلٹنے کا ایک مرکز رہیں گے‘‘۔ (متن کامل نہج البلاغہ، سخنان علی، ص: 446، کلام:132، مطبوعہ: انتشاراتِ زرّین)۔
(14) ”ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے بذاتِ خود فارس کی جنگ میں شریک ہونے کے متعلق حضرت علیؓ سے مشورہ کیا، اُنہوں نے فرمایا: آپ مسلمانوں کے معاملات کے نگران و نگہبان ہیں اور ملک کے لیے نگراں کامقام ایسا ہے جیسے دھاگے میں پروئے گئے موتی، دھاگے کی لڑی کی وجہ سے ہی موتی یکجا رہتے ہیں، اگردھاگہ ٹوٹ جائے تو تمام موتی بکھر جاتے ہیں۔ آج عرب اگرچہ تعداد میں تھوڑے ہیں، لیکن اسلام کی وجہ سے زیادہ ہیں اور اپنے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے غالب آنے والے ہیں، لہٰذا آپ یہیں مرکز ہی میںرہیں اور جنگ میں شریک ہونے کی زحمت نہ کریں،کیونکہ ان عجمیوں نے اگر آپ کو میدانِ جنگ میں دیکھ لیا تو کہیں گے کہ اہلِ عرب کی جان یہی شخص ہے، اگر اس جڑ کو کاٹ دیا جائے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راحت مل جائے گی اور اس طرح اُن کے حملے شدید تر ہو جائیں گے اور وہ آپ ہی کو قتل کرنے کے زیادہ خواہش مند ہوں گے‘‘۔ (نہج البلاغہ، ص:477، کلام:144)۔ ان دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کو خلیفۂ رسول حضرت عمرؓ کی زندگی کتنی عزیز تھی، ایسے نازک موقع پر کوئی نامناسب مشورہ بڑی مصیبت کا باعث ہو سکتا تھا مگر حضرت علیؓ نے مشورے کی امانت کو مکمل دیانت داری کے ساتھ ادا کیا اور مسلمانوں کے مفاد عامہ کے مطابق مشورہ دیا۔
(15) ”حضرت علیؓ نے اپنے ایک خطبہ میں حضرت عمرؓ کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہوئے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فلاں شخص کے شہروں کو برکت دے، اُنہوں نے کجی کو سیدھا کیا اور بیماری کا علاج کیا، سنت کو قائم کیا اور فتنہ کو ختم کر دیا، دنیا سے پاک و صاف لباس اور کم عیب میں رخصت ہوئے، خلافت کی نیکی کو حاصل کیا اور اس کے شر سے اجتناب کیا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجا لائے اور اللہ سے اس طرح ڈرے جیسا کہ ڈرنے کا حق تھا‘‘۔ (نہج البلاغہ، ص:887،خطبہ :226)۔ شیخ ابن ابی الحدید کہتے ہیں: فلاں شخص سے حضرت عمرؓ بن خطاب کی ذات مراد ہے۔ (شرح نہج البلاغہ: ج:12، ص:3)۔ جناب رئیس احمد جعفری نے نہج البلاغہ کے اُردود ترجمہ میں ذکر کیا کہ یہ خطبہ حضرت عمرؓ کے متعلق ہے۔ (نہج البلاغہ، مترجم اردو، ص:541)۔
(16) مِسْوَرْ بِن مَخْرَمَہ بیان کرتے ہیں: ”جب حضرت عمرؓ زخمی ہوئے، اُنہیں تکلیف ہو رہی تھی اور وہ بے قراری کا اظہار کر رہے تھے، حضرت عبداللہؓ بن عباس نے کہا: امیر المومنین پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، آپ رسول اللہﷺکی صحبت میں رہے اور آپ نے حضورؐ کی صحبت خوب نبھائی، پھر رسول اللہﷺ آپ سے رخصت ہوئے درآں حالیکہ وہ آپ سے راضی تھے، پھر آپ حضرت ابوبکرؓ کی صحبت میں رہے اور آپ نے ان کی صحبت خوب نبھائی، وہ بھی آپ سے راضی ہوکر رخصت ہوئے، پھر آپ مسلمانوں کے ساتھ رہے اور آپ نے ان کا اچھا ساتھ نبھایا اور اب آپ اُن سے اس حال میں رخصت ہو رہے ہیں کہ وہ آپ سے راضی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: تم نے جو رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کی صحبت کا ذکر کیا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے اور جو تم میری بے قراری دیکھ رہے ہو تو بخدا!
اگر میرے پاس تمام روئے زمین کے برابر سونا ہوتا تو میں اس کو اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے دے دیتا۔ ایک روایت میں ہے: حضرت عبداللہؓ بن عباس نے فرمایا: امیر المومنین! آپ گھبراتے کیوں ہیں، بخدا! آپ کا اسلام لانا مسلمانوں کا غلبہ تھا، آپ کی حکمت مسلمانوں کی فتح تھی، آپ نے تمام روئے زمین کو عدل سے بھر دیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا: اے ابن عباسؓ! کیا تم اس کی گواہی دیتے ہو؟ حضرت ابن عباسؓ نے شہادت دینے میں توقف کیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا: کہو: ہاں! اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی دیتا ہوں۔ پھر اُنہوں نے فرمایا: ہاں! میں گواہی دیتا ہوں‘‘۔ (شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید، ج:12، ص:191تا 192)۔
(17) ایک موقع پر حضرت علیؓ نے اپنے اصحاب اور رسول اللہﷺ کے صحابہ کے درمیان تقابل اور موازنہ کرتے ہوئے اپنے اصحاب سے فرمایا: ”میں اپنی رعایا کے ظلم سے پریشان ہوں، میں نے تمہیں جہاد کے لیے آمادہ کیا مگر تم نہ اٹھے، نصیحتیں کیں، تم نے نہ سنیں، علی الاعلان اور خفیہ طریقے سے تمہیں دعوت دی، لیکن تم نے لبیک نہ کہا، تم ایسے حاضر ہو جیسے غائب اور ایسے اطاعت گزار ہو جیسے مالک، میں تمہارے لیے حکمت آمیز باتیں کرتا ہوں اور تم بیزار ہو جاتے ہو، تمہیں بہترین نصیحتیں کرتا ہوں اور تم فرار اختیار کرتے ہو،
باغیوں کے ساتھ جہاد پر آمادہ کرتا ہوں، میری بات مکمل نہیں ہوتی کہ تم سبا کی اولاد کی طرح منتشر ہو جاتے ہو اور ایک دوسرے کے دھوکے میں مبتلا ہو جاتے ہو، میں صبح کے وقت تمہیں سیدھا کرتا ہوں اور تم شام کے وقت یوں پلٹ کر آتے ہو جیسے کمان، تمہیں سیدھا کرنے والا بھی عاجز آ گیا اور تمہاری اصلاح بھی ناممکن ہوگئی، خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ مجھ سے درہم و دینار کا سودا کرلے اور تمہارے دس کے بدلے مجھے اپنا ایک دیدے، تم کان رکھنے والے بہرے ہو، زبان رکھنے والے گونگے اور آنکھ رکھنے والے اندھے ہو، تمہاری حالت یہ ہے کہ نہ میدانِ جنگ کے سچے جوانمرد ہو اور نہ مصیبتوں میں قابلِ اعتماد ساتھی، تمہارے ہاتھ خاک میں مل جائیں، تم اُن اونٹوں کی طرح ہو، جن کے چرواہے گم ہو جائیں کہ جب ایک طرف سے جمع کیے جائیں تو دوسری طرف سے منتشر ہو جائیں، قسم بخدا!
میں تمہیں اس طرح دیکھ رہا ہوں کہ اگر جنگ تیز ہو گئی اور میدانِ کارزار گرم ہوگیا تو تم فرزندِ ابوطالب سے اس بے شرمی کے ساتھ الگ ہو جائو گے جس طرح کوئی عورت بے لباس ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اصحابِ رسولﷺ کو دیکھو، اہلِ بیتِ پیغمبر پر نگاہ رکھو اور انہی کے راستے کو اختیار کرو، انہی کے نقشِ قدم پر چلتے رہو کہ وہ نہ تمہیں ہدایت سے باہر لے کر جائیں گے اور نہ ہلاکت کی طرف پلٹنے دیں گے، وہ ٹھہر جائیں تو ٹھہر جائو، وہ اٹھ کھڑے ہوں توکھڑے ہو جائو، خبردار! ان سے آگے نہ نکل جانا کہ گمراہ ہو جائو گے اور پیچھے بھی نہ رہ جانا کہ ہلاک ہو جائو گے۔
میں نے رسول اللہﷺ کے صحابہ کا دور بھی دیکھا ہے، مگر افسوس! تم میں کوئی ایک شخص بھی ان جیسا نہیں ہے، وہ صبح کے وقت اس طرح اٹھتے تھے کہ پراگندہ بال، جبیں خاک آلود،کیونکہ انہوں نے رات سجود و قیام میں گزاری ہوتی تھی، کبھی جبیں خاک آلود اور کبھی رخسار، قیامت کی یاد میں گویا انگاروں پر کھڑے رہتے تھے اور ان کی پیشانیوں پر سجدوں کی وجہ سے بکری کے گھٹنے جیسے گٹے پڑ جاتے تھے، ان کے سامنے خدا کا ذکر آتا تو آنسوئوں کا سیلِ رواں جاری ہو جاتا اور گریبان تک تر ہو جاتا، ان کا جسم عذاب کے خوف اور ثواب کی امید میں اس طرح لرزتا تھا جس طرح سخت ترین آندھی کے دن کوئی درخت‘‘۔ (نہج البلاغہ، ص:288تا 290، خطبہ نمبر:95، مُلَخَّصًا)۔
(18) ”حضرت علیؓ، حضرت امیر معاویہؓ کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: میرے ہاتھ پر اُنہی لوگوں نے بیعت کی ہے جنہوں نے ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ کی بیعت کی تھی، لہٰذا اب حاضر کے لیے بیعت کرنے میں کوئی اختیار ہے نہ غائب کو بیعت ردّ کرنے کا حق ہے، مشورہ دینے کا منصب صرف مہاجرین اور انصار کا ہے، وہ جب کسی شخص کے انتخاب پر متفق ہو جائیں اور اس کو امام قرار دے دیں تو یہ اللہ کی طرف سے رضا ہے۔ (نہج البلاغہ:ص:926، مکتوب نمبر:6)۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کی خلافت کے مستحق حضرت علیؓ تھے اور اس مکتوب میں حضرت علیؓ نے اپنی خلافت و حقانیت پر حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی خلافت سے استدلال کیا ہے، کیونکہ حضرت علیؓ کی بیعت اُنہی مہاجرین و انصار صحابہ کرام نے کی تھی جنہوں نے خلفائِ ثلاثہ کی بیعت کی تھی اور حضرت علیؓ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخصیت کی بیعت پر مہاجرین و انصار صحابہ کرام متفق ہو جائیںتو یہ اللہ کی رضامندی کی علامت ہے، یعنی خلفائے ثلاثہ کی خلافت اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی پر مبنی تھی۔
(19) حضرت عثمانؓ کی شکایت لے کر ایک وفد حضرت علیؓ کے پاس آیا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اُن سے بات کرکے اُنہیں سمجھائیںتو حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کے پاس جاکر کہا: ایک وفد میرےپاس آیاہے، اُنہوں نے مجھے اپنے اور آپ کے درمیان سفیر بنایا ہے، بخدا! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں آپ سے کیا کہوں، میں ایسی کوئی بات نہیں جانتا جس سے آپ ناواقف ہوں، نہ کسی ایسی چیز کی طرف رہنمائی کر سکتا ہوں جس کو آپ نہ جانتے ہوں، کیونکہ جو آپ جانتے ہیں وہی ہم جانتے ہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس کو ہم نے پہلے جان لیا ہو اور آپ کو اس کی خبر دیں، نہ کسی معاملے میں آپ ہم جدا ہوئے، جس کی ہم آپ کو تبلیغ کریں، جس طرح آپ نے دیکھا ہے اُسی طرح ہم نے دیکھا ہے، جس طرح آپ نے سنا ہے اِسی طرح ہم نے سنا ہے، جس طرح ہم رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہے ہیں، اِسی طرح آپ رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ حق پر عمل کرنے میں آپ سے زیادہ نہیں تھے اور ان دونوںکی بہ نسبت آپ کی رسول اللہﷺ سے قرابت داری زیادہ ہے، کیونکہ بلاشبہ آپ نے دو مرتبہ رسول اللہﷺ کی دامادی کا شرف حاصل کیا ہے۔ (نہج البلاغہ، ص:566، کلام:162) (جاری)