انجینئرنگ کی تعلیم اردو میں

لاہور کے ایک ریسرچ اسکالر ساجد صدیق نظا می نے بڑا کام کیا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے شہر روڑکی میں انگریزوں کے قائم کئے ہوئے مشہور سول انجینئرنگ کالج کا پورا ماضی کھوج نکالا ہے اور بر صغیر میں پہلے پہل سڑکوں،نہروں ، ریل گاڑیوں ، تار ٹیلی فون اور بجلی کے نظام کی بنیاد رکھنے والے ہندوستانی انجینئروں کی فہرستیں تک فراہم کردی ہیں۔روڑکی ہردوار اور سہارن پور کے قریب ایک شہر ہے جو پہلے یو پی کا حصہ تھا ، اب اسے نئے صوبے اترا کھنڈ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

یہ سنہ ۷۵۔۷۴ء کی بات ہے ، میں اپنے ایک ریڈیو پروگرام کی تیاری کے سلسلے میں برطانیہ کے قومی کتب خانے میں بزرگوں کے زمانے کی اردو کتابوں کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ اُس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک ایسی کتاب میرے ہاتھ لگی جس کا موضوع انجینئرنگ تھا۔ صرف یہی نہیں، اردو میں سڑکیں اور نہریں بنانے کی یہ کتاب نہ صرف میرے شہر روڑکی میں بلکہ اس کے سول انجینئرنگ کالج کے اپنے چھاپے خانے میں چھپی تھی۔جس درس گاہ میں میرے والد کی تعلیم ہوئی اور جہاں وہ امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوکر وہیں استاد مقرر ہوئے ، میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہاں انجینئر نگ جیسا مضمون کبھی اردو میں پڑھایا جاتا تھا۔

اس تازہ تحقیق سے علم ہوا کہ اپنے قیام ۱۸۴۷ء سے لے کر تقریباً ۱۸۷۰ء تک یہاں ہندوستانی لڑکوں کو انجینئرنگ کے سارے مضمون اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔اس تحقیق سے پتہ چلا کہ آکسفورڈ او رکیمبرج جیسی انگریزوں کی قائم کی ہوئی اس درس گاہ میں اردو میں شائع ہونے والی چونتیس کتابوں کا پتہ مل جاتا ہے۔دوسرے تحقیق کرنے والے حضرات چھ سات سے زیادہ کتابوں کی فہرست ترتیب نہیںدے سکے اور بعض کی فراہم کی ہوئی معلومات کے بارے میں ساجد صدیق نظامی نے بڑے وثوق سے لکھا کہ وہ درست نہیں۔انہوں نے معلومات یک جا کرنے کے لئے کہاں کہاں ڈول نہیں ڈالا یہاں تک کہ ایک اہم دستاویز انہیں نیوزی لینڈ کی قومی لائبریری سے ملی۔

اس کتاب کی تمہید دلچسپی سے خالی نہیں۔انیسویں صدی شروع ہوتے ہی ہندوستان پر انگریزوں کی گرفت مضبوط ہونے لگی۔کون نہیں جانتا کہ ۱۸۰۳ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں نے دہلی پر قبضہ کیا جس کے ساتھ ہی مغلیہ سلطنت کا سیاسی اقتدار اپنے خاتمے کوپہنچا۔انگریز ٹھہر ے بلا کے فطین،انہوں نے بادشاہت کو پوری طرح ختم نہ کیا بلکہ لال قلعے تک محدود کردیا۔سکھوں کی حکمرانی ختم ہوئی تو ملک کے کتنے ہی علاقوں پر کسی نہ کسی شکل میں کمپنی بہادر کی حکمرانی قائم ہوگئی۔یہاں پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے تدبر نے اپنا کام دکھایا اور انگریزوں نے اپنا غلبہ برقرار رکھنے کے لئے یہاں ترقیاتی کاموں کا نظام قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے طے کیا کہ سڑکوں کا جال بچھایا جائے، نہریں کھودی جائیں ،ڈاک اور تار کا نظام قائم کیا جائے ،آب پاشی ہو، پل بنیں ،دریاؤں پر بند باندھے جائیں، بیراج بنیں، سرکاری عمارتیں تعمیر ہوں، تار گھر ، ڈاک خانے ، تھانے اورچوکیاں، غرض ترقیاتی کاموں کی بہتا ت شروع ہوئی۔مقصد یہ تھا کہ یوں اپنے اقتدار کو مستحکم کیا جائے۔مگر ان سارے کاموں کے لئے ماہر سول انجینئروں کی اچھی بھلی فوج درکار تھی۔ادھر زور کی بحث چل رہی تھی کہ ہندوستانیوں کو اردو ہندی ہی پڑھائی جائے یا انگریزی پڑھنے پر مجبور کیا جائے۔یہ طے تھا کہ کمپنی کے علاقوں میں تعمیراتی کام کرنے والے بے شمار انجینئر انگلستان سے نہیں آسکتے۔آخر انتظامیہ نے محسوس کیا کہ ملک کے اندر ہی لوگوں کو باقاعدہ تربیت دے کرسول انجینئر تیار کئے جائیں۔۱۸۴۷ء میں طے پایا کہ روڑکی میں ایسے انتظامات موجود ہیں کہ وہاں انجینئرنگ کی درس گاہ قائم ہو سکتی ہے۔

اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنرجیمز تھامسن نے کالج کے قیام کا اعلان کردیا۔شروع میں کالج کا نام ’کالج فار سول انجینئرز، روڑکی ‘ رکھا گیا۔دیکھتے دیکھتے کامیاب لڑکے میدان عمل میں آنے لگے۔ پہلے انہیں سب اسسٹنٹ سول انجینئر تعینات کیا جاتاتھا۔ان کے علاوہ یورپین فوجی افسروں اور سپاہیوں کی تربیت بھی ہونے لگی۔ایک شعبہ ان دیسی نوجوانوں کے لئے قائم کیا گیا جو سروے، زمین ہموار کرنے کا عمل یا پلان ڈرائنگ سیکھنا چاہتے ہوں۔ان لڑکوں کے لئے اردو کی تعلیم ضروری تھی۔کالج کے پرنسپل کی تنخواہ چھ سوروپئے، ہیڈ ماسٹر کی تین سو، ڈرائنگ ماسٹر کی تنخواہ دو سو مقرر کی گئی۔جونیئر دیسی ٹیچر کو پچاس روپے دئیے جاتے تھے۔

یکم جنوری ۱۸۴۸ء کوداخلے شروع ہوئے۔اسی برس عمارتیں بن گئیںاور باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا ۔ موسم سرما میں پنجاب میں سکھوں کے خلاف جنگ چھڑ گئی اور فوجی عملے اور لڑکوںکو محاذ پر جانا پڑا۔ مارچ سنہ ۴۹ ء تک پنجاب بھی انگریزوں کو مل گیااور سارے کام دوبارہ چل نکلے اور بیالیس لڑکے تعلیم پوری کرکے کام پر لگ گئے۔اسی دوران طے پایا کہ روڑکی کے گرد و نواح میں ایسے اسکول کھولے جائیں جہاں سے پڑھ کر لڑکے کالج میں داخلہ لے سکیں۔ان ہی دنوں کالج کا چھاپہ خانہ بنانے کا فیصلہ ہوا۔۱۸۵۶ء میںکالج کی شان دار مرکزی عمارت بن کر تیا ر ہوئی جو آج بھی شان و شوکت سے کھڑی ہے۔ اسی دوران شمال مغربی صوبے کے لیفٹیننٹ گورنرجیمز تھامسن بریلی میں وفات پاگئے۔کالج کے لئے ان کی خدمات کودیکھتے ہوئے کالج کا نام ’تھامسن کالج آف سول انجینئرنگ، روڑکی ‘ رکھ دیا گیا۔

پھر یہ ہوا کہ اٹھارہ سو ستاون کی بغاوت ہوئی۔ہم سنا کرتے تھے کہ روڑکی کے انگریز باشندوں نے شہر کی فاؤنڈری کے تہ خانے میں پنا ہ لی تھی۔ سر سید نے بھی ان کی حفاظت میں ہاتھ بٹایاتھا۔ اس کے بعد ایک فرق یہ ہوا کہ داخلے کے لئے انگریزی کی شد بدضروری قرار دی گئی۔تحقیق سے پتہ نہیں چلتا کہ مقامی لڑکوں کے لئے اردو ذریعہ تعلیم کب تک برقراررکھا گیاالبتہ ۱۸۶۹کے بعد وہاں کسی اردو کتاب کی اشاعت کا سراغ نہیں ملتا۔بس پھر انگریزی کا مکمل غلبہ ہوگیا۔تقسیم کے بعد ۱۹۴۹ء میں کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ نئی صدی کے پہلے برس میں اس کا نام ’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ‘ رکھ دیا گیا۔ اس وقت اس کا شمار ہندوستان میں انجینئرنگ کے بڑے اداروں میں ہوتا ہے۔ (جاری ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے