عوام FIA پر اعتماد کیوں کریں؟

حال ہی میں لاہور سے ایک خاتون کو بلیک میل اور ہراساں کرنے کا کیس سامنے آیا جس کو میں نے ایف آئی اے سائبر کرائم کا راستہ دکھایا۔ آپ اگر یقین کرنے کو تیار ہوں تو بتاتا چلوں کہ وہ ایک سنگین کیس تھا جس کو امید کی جاتی تھی کہ بروقت سلجھا لیا جائے گا مگر وہ کیس کئی ماہ سے اب تک التوا کا شکار ہے۔ متاثرہ خاتون اس دوران ایک بار مایوس ہو کر خودکشی کا ارادہ بھی کر چکی ہیں مگر ہمارے سسٹم کی ناک پر جوں بھی تو رینگے۔ سائبر کرائم کے لاہور کے دفتر کے کئی پھیرے لگا کر اب وہ تھک ہار کر اس امید پر ہیں کہ شائید کوئی غیبی مدد آ جائے، ان اداروں سے تو کوئی امید نہیں کہ یہ ایک ہراسانی یا جنسی تشدد سے متاثرہ خاتون کو کوئی تحفظ دے سکیں۔

اسی نوعیت کا ایک کیس ایک سال قبل میرے پاس آیا تھا جس پر وکٹم کی مدد کرنے کی غرض سے ایف آئی اے سائبر کرائم کی طرف بھیجا کہ وہاں سے مدد لے۔ یاد رہے مجھے بہت سمجھایا بھی گیا کہ یہ سرکاری ادارے ہیں ان سے مدد کی امید لگانا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ میں پھر بھی نہ مانا اور متاثرہ شخص کو ایف آئی اے سائبر کرائم کے دفتر لے گیا۔ ادارے سے ہماری امیدیں اب تک وابستہ تھیں جب تک ہم کیس درج کرنے والے افسر کی میز پر بیٹھے اور اس کو اپنے کیس کی تفصیل بتا رہے تھے۔ ایک مجرم جرم کرنے کے بعد اپنی سوشل میڈیا کی پروفائل ڈیلیٹ کرسکتا ہے یہ بات تو ایک عام ذہن کو بھی سمجھ آجائے مگر ایف آئی اے کے اس افسر کو یہ سمجھانا مشکل تھا کہ یہ معاملہ ادارے کے پاس لایا ہی تب گیا ہے جب جان و مال کا خطرہ ہے اور ادارے سے تحفظ چاہیئے۔ وہ کیس آج بھی ایک سال بعد التوا کا شکار دفتر میں کسی ٹوٹے ہوئے دروازے والی خستہ حال الماری میں دھول کی نظر ہورہا ہوگا۔ ان فائلوں کے ساتھ جب نوٹ لگ جاتے تو شائید یہ بھی خود بخود چل پڑتیں۔ جی میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ ایف آئی اے بھی پاکستان کے دوسرے روایتی اداروں کی طرح عوام کا تحفظ نہیں بلکہ استحصال کرنے کے لئیے قائم ہے۔

جہاں تک آن لائن شکایات کے اندراج کی بات ہے تو وہ سسٹم تو عرصہ دراز سے فالج کا شکار ہے اور وہاں درخواست داخل کروانے کا سوچ رہے ہیں تو براہ کرم اپنی زندگی کے وہ چند منٹ ضائع نہ کریں۔

میں اگر کسی مشکل میں پھنسے شخص کو ملکی سیکیورٹی ادارے کا راستہ دکھاؤں تو کیا سوچ کر دکھاؤں گا کہ آپ کو ایک ہفتے میں انصاف مل جائے گا؟ اتنی بھی مشکل بات نہیں ہے اگر اس ملک میں کوئی ایک ادارہ بھی ڈھنگ سے چل رہا ہوتا۔ حال ہی میں آن لائن جرائم سے لڑنے اور شہریوں کے آن لائن تحفظ کو یقینی بنانے والی تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ میں کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں ہراسانی کے کیسز کی قریب دو سو فیصد بڑھتی شرح کو رپورٹ کیا تو تب بھی ایف آئی اے اپنا راگ الاپ رہی تھی کہ پاکستان میں تمام سکھ ہے۔ اور مزے کی بات یہ کہ راوی سب چین کیا لکھتا راوی اس وقت لمبی تان کر سورہا تھا۔ خواتین سے آن لائن ہراسانی کو سمجھنا بھی تو ضروری ہے۔ یہاں تو ایک متاثرہ خاتون مدد مانگنے چلی جائے تو اوپر سے نیچے تک نظریں گھما کر پہلے تو شک کیا جاتا ہے پھر کہا جاتا ہے کہ مجرم کا اتا پتہ دیں، یہ جاننے میں ہماری مدد کریں کہ ملزم اب کہاں ہوگا؟ اگر متاثرہ خاتون کو یہ پتہ ہوتا اور وہ خود کچھ کرنے کے قابل ہوتی تو ایف آئی اے سے مدد کیوں لینے پہنچتی؟

قارئین یہ صرف چند مثالیں تھیں، ایسی ہزاروں فائلیں دب کے رہ گئی ہونگی جن کا کبھی نتیجہ آنے کی امید کی بھی نہیں جا سکتی۔ ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق حل شدہ کیسز کا عدد بھی دیا گیا تھا تو میرے دل میں ایک سوال پھوٹا وہ یہ کہ یہ کیسز جو سلجھ گئے ہیں، یہ اسی دنیا کے کیسز تھے یا کہیں خلا میں رجسٹر کرائے گئے تھے؟ سوال یہ ہے کہ جو ادارہ عوام کی خدمت کے لئیے ہے اور عوام کا ملازم ہے وہ اگر عوام کو تحفظ نہیں دے رہا تو کس کو تحفظ دے رہا ہے؟ جواب ہے اشرافیہ اور حکومت۔ آج اقتدار میں بیٹھے لوگ صحافیوں کی منہ بندی چاہتے ہیں تو ان کے خلاف پرچے کروادیتے ہیں اور وہ دھر لئیے جاتے ہیں۔ ایسے تمام ایکشنز کے لئیے ان کو مہینوں انتظار نہیں کرنا پڑتا بلکہ فوری ایکشن ہوتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ فوری ایکشن کی صلاحیت بہرحال ہے مگر کرنی کس کے لیئے ہے یہ چیز اہم ہے۔

حال ہی میں علی ظفر کی درخواست پر میشا شفیع، اداکارہ عفت عمر سمیت آٹھ خواتین پر ایف آئی آر ہوئی ہے تو اس مسئلے نے پھر سر اٹھایاہے۔ مسئلہ یہاں نہیں رکتا، الزام ہے کہ میشا شفیع کیس میں شیری مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کی خاصی دلچسپی تھی اور انہوں نے ایف آئی اے پر اثر انداز ہوتے ہوئے اپنی والدہ کے ذریعے ادارے کے اسسٹنٹ ڈائیریکٹر کو عہدے سے ہٹوا دیا ہے لیکن اس پر بھی کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹویٹر پر ایک ٹرینڈ بھی دیکھنے میں آیا ہے جس میں شیری مزاری جو کہ انسانی حقوق کی وزیر ہیں ان سے ایف آئی اے کے کیس میں مداخلت پر استعفیٰ مانگا جا رہا ہے۔ بات صرف اتنی نہیں ہے، سوشل میڈیا پر خواتین کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی مچ چکا ہے۔ ایمان مزاری کا اپنی ایک ٹویٹ میں کہنا ہے کہ میں اتنی ہی طاقتور ہوتی تو سی سی پی او لاہور جس کے خلاف میں نے اتنے ٹویٹس کیئے وہ بہت پہلے جا چکا ہوتا۔

بات بھی دراصل یہی ہے۔ میرا آپ سب سے سوال ہے، کیا خواتین بطور ایک طبقہ اتنی طاقتور ہوتیں تو معاشرے کی مجال تھی کہ ان کے خلاف کسی بھی حد تک چلے جانے کی جرات بھی کرتا؟ یہاں تو عورت کو صرف ایک انسان سمجھنے پر سوچ کے جواب دیا جاتا ہے۔ عام طور پر خواتین یا عزت اور تفریح کے معنوں میں لی جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے خواتین ہی اکثر آسان نشانہ ہوتی ہیں تشدد کا بھی اور گالم گلوچ کا بھی۔ عورت مارچ کی منتظمین خواتین کو بھی تنقید کا نشانہ بنا کر کہا جاتا ہے کہ وہ اتنی اثر رسوخ والی طاقتور عورتیں ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل ان کے پیچھے ہے ان کو بھاری فنڈنگ ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اتنی طاقتور ہیں تو حقوق مانگنے ہر چند سڑکوں پر کیوں نکلنا پڑتا ہے؟ اور پھر معاشرے کی چند کامیاب خواتین کی تصویر سرکا دی جاتی ہے یہ آرگومنٹ مضبوط کرنے کے لیئے کہ یہ دیکھیں، عورت کا یہ اصل چہرہ ہے، اس معاشرے کی عورت اتنی مضبوط ہے۔ وہ خواتین بلا شبہ مضبوط خواتین ہوتی ہیں، دوسری خواتین کے لیئے آگے بڑھنے کا حوصلہ بن سکتی ہیں مگر اس بات کی ضمانت ہرگز نہیں کہ ملک میں خواتین کومکمل حقوق مل بھی رہے ہیں۔

بات رہی ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کی تو انہیں بنیادی تربیت ہی نہیں ہے کہ شہری کے کسی بھی ہراسگی کے کیس کو اہمیت کیسے دینی ہے۔ اگلے پروسیجر کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔یوں اگر کوئی صحافی اس بات پر تشویش کا اظہار کرے کہ ایف آئی اے کو صرف حکومتی مقاصد پورے کرنے اور صحافیوں، سیاستدانوں اور عام عوام کی رائے کو کنٹرول کرنے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے تو وہ غلط نہیں ہے۔ کیونکہ پاکستان کا ہر دوسرا ادارہ شروع ہی سے اور خاص طور پر اس دور حکومت میں حکومت کے ٹول کے طور پر عوام کو ڈرانے دھمکانے پر معمور رہتا ہے۔ یاد رہے یہ نقصان اداروں کو چلانے کے لیئے گوروں کے اس صدی کے طور طریقوں کواپنانے سے ہوا ہے اور مسلسل ہورہا ہے جب تک اداروں کی تعمیر نو نہیں ہوگی یا ان کی بہتری کے لیئے کوئی اقدام نہیں اٹھائے جاتے۔ اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب ادارے طاقتور کے گلے کا ڈھول نہیں ادارے عوام کے ہونگے۔

اسنانی حقوق کی وزیر شیری مزاری نے اس چیز کی وضاحت مانگی ہے کہ وہ کس طرح سے اثر انداز ہوئیں، جب کہ ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ وہ ڈان اخبار جس میں اس قیاس کے ساتھ خبر لگائی گئی کہ "ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائیریکٹر کو شیری مزاری کی کال پر گھر بھیجا گیا” کو کورٹ لیجانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ کیا اس صورتحال میں حتمی طور پر وزیر کا استعفیٰ مانگ لینا مناسب ہے؟ میرے خیال میں مرکز کی سطح پر تحقیقات ہونی چاہیئں جس کی رپورٹ ایک ہفتے میں جمع کروائی جائے اور اس کے پیش نظر فیصلے ہونے چاہیئں۔ استعفیٰ طلب کرنا قبل از وقت ہے اور اس آڑ میں خواتین کے خلاف سوشل میڈیا پر گالم گلوچ ایک ناقابل قبول عمل ہے۔ ایف آئی اے اگر حکومت کے لیئے صحافیوں کے خلاف راتوں رات ایکشن لے سکتی ہے تو سوشل میڈیا پر ایسے عناصر کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لے پاتے جو خواتین کے خلاف ٹرینڈز چلاتے ہیں اور ان کے خلاف سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی مچائے رکھتے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے