آگ سے بچاؤ اور ویزول ریپ Visual Rape

انسان نے ترقی کرنا شروع کی تو غاروں کو چھوڑ کر کچے گھروں کی بنیاد رکھنا شروع کی, پھر پکے مکان بننے لگے اور پھر محلات۔ واقعی یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی جب انسان نے پتھر کو رگڑ کر آگ پیدا کرنے کو چھوڑ کر دیا سلائی ایجاد کی۔

لوگ آگ سے اس وقت بھی جل کر مرتے تھے جب پتھر سے آگ نکال کر استعمال کی جاتی تھی، اس وقت بھی مرے جب دیا سلائی سے کسی کو جلایا گیا، اس وقت بھی جلے جب گیس کے لائیٹر کو لاپرواہی میں جلایا اور اب بھی مرتے ہیں جب بجلی کے تاروں سے آگ بڑھک اٹھتی ہے۔

آگ جلانے اور محفوظ کرنے کے بے شمار طریقے ایجاد ہو چکے ہیں، اب ہر سگریٹ نوشی کرنے والا آگ کو اپنی جیب میں لئے پھرتا ہے، مگر افسوس کو آگ بجھانے والا کوئی آلہ ابھی ایجاد نہ ہو سکا جو لائٹر کے ساتھ نصب ہو اور ہر سگریٹ نوشی کرنے والا بیک وقت دونوں آلات جیب میں لئے پھرتا۔ یعنی آگ جلانے اور بجھانے والا آلہ۔

اگر میں سائنسدان ہوتا تو کم از کم اس پراجیکٹ پر ضرور کام کرتا تاکہ قیمتی جانوں کے ساتھ ساتھ قیمتی املاک کو بھی اس لائٹر سے نصب آلے سے بچایا جا سکے۔

براعظم ایشیا ہو، آسٹریلیا، افریقہ ، یورپ ہو یا امریکہ، ہر سال آگ سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اور ساتھ ہی جنگلی حیاتیات بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہوتی ہیں اور کچھ تو صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں، اور اس کی وجہ لاپرواہی میں لگائی جانے والی آگ ہوتی ہے۔ جس کی مثال نیوزی لینڈ کی حالیہ آتشزدگی سمیت کیلیفورنیا کے جنگلوں میں پھیلی آگ سے لئ جاتی ہے۔

میں کوئی پندرہ بیس سال کا تھا جب ہمارے ایک پڑوسی محمد بشیر عرف گُلو بھائی کے گھر ظہر کے وقت آگ بڑھک اٹھی گاؤں میں چونکہ گھر ایک فاصلے پر واقع ہوتے ہیں اس لئے جب تک لوگ پہنچتے اور آگ پر قابو پاتے اس وقت تک مکان کا کافی سارا حصہ جل کر خاکستر ہو گیا۔ خیر لوگوں نے پانی اور مٹی کی مدد سے آگ جب بجھا لی تو گُلو بھائی نے اپنے بڑے بیٹے بشارت سے پوچھا کہ آگ کیسے لگی؟

بشارت اس وقت جو بمشکل آٹھ سال کا ہو گا نے بڑی معصومیت سے طوطلی زبان میں جواب دیا “ابو، ابو میں نے بس ایک دیا سلائی سلگائی تھی” اور آگ گھر کے ایک حصے میں رکھی ہوئی گھاس کو لگ گئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے گھر کے ایک بڑے حصے کو جلا کر راکھ کر دیا جہاں مویشی باندھے جاتے تھے۔

خیر بات ہو رہی تھی آگ کے استعمال کی اور اس سے بچاؤ کی۔

اب دوسری طرف رخ کرتے ہیں جہاں میں نے لفظ Visual rape کا استعمال کیا ہے تو اس سے آج کے دور میں کوئی بہت ہی کم لوگ ہیں جو بچے ہوئے ہوں گے۔

میں نے اپنی تعلیمی ریسریچ کے دوران بھی اس چیز کو متعدد بار زیر بحث لایا ہے اور چونکہ میری ڈگری سوشل میڈیا میں کلچرل تفرقات پر تھی تو میں نے اس کو اچھے سے بیان کیا ہے مکمل ثبوتوں کے ساتھ اور میں نے جو Paradigm اپنی ریسریچ کو جانچنے کے لئے استعمال کئے تھے ان کو بھی میں نے منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔

ہم لوگ بعض اوقات اپنا ردعمل اس طور پیش کرتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی ہمارا وہ ردعمل کسی طور قبول نہیں ہوتا۔ ہمارا معاشرہ ہو یا مغربی ممالک، عورت کو اگر کوئی کچھ جسمانی طور پر چھو نہیں سکتا تو الگ بات ہے مگر بصری طور پر وہ ایسے ایسی خونخوار نظروں سے” تاکتا” ہے کہ اسے الفاظ میں بیان کرنا ایک نہایت ہی مشکل عمل ہے۔

اس عمل میں ہر عمر کے مرد شامل ہوتے ہیں جو اپنی آنکھوں سے عورت کی تذلیل کرتے ہیں۔ یہاں سوال عورت کے لباس کا نہیں ہے کہ اس نے کیا زیب تن کر رکھا ہے؟

میں نے اپنی ریسریچ کے دوران سمندر کنارے بکینی پہنے ہوئے عورتوں عورتوں کو بھی شامل کیا اور مکمل حجاب میں عورتوں کو بھی ایک پلڑے پر رکھا، اور دوسرے پلڑے پر مشرقی افراد کو مغربی افراد کے ساتھ رکھا۔ میں نے اپنے مشاہدے میں دیکھا کہ مغربی لوگ سمندر پر اپنے مخصوص لباس میں اپنے آپ کو آرام دہ محسوس کرتے ہیں جبکہ مشرق سے تعلق رکھنے والے افراد اس لباس میں عورت کی ہر حرکت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔

ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ یہاں کہ لوگ ویزول ریپ (Visual Rape) نہیں کرتے مگر اس کی تعداد کوئی اشاریہ پانچ فی صد ہوگی۔ میں نے مختلف لوگوں سے جب انٹرویوز مکمل کر لئے جو ان سے Likert scaling کے تحت کئے تھے اور جب میں نے اپنے سپروائزر کو اس بابت بتایا تو انھوں نے میرے Visual rape والے عنوان کو بہت پسند کیا اور میری بیان کردہ تعریف کو سراہا۔

انسان visual rape نہ چاہتے ہوئے بھی کر بیٹھتا ہے اور اس کو انسانی آنکھ سے زیادہ کیمرے کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہ کائنات میں انسانوں میں افزائش کا عمل عورت اور مرد کے ملاپ سے ہی ہوتا ہے اور ہم لوگ اپنے گھروں میں خدا کی حسین و جمیل مخلوق کے ہوتے ہوئے بھی جب باہر دیکھتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری گھر والیاں (تمام عورتیں) بھی کسی کے visual rape کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ چونکہ حضرت انسان(مرد) ہی کو ایسی خونخوار نظروں سے بنت حوا کو دیکھتے ہوئے پایا گیا ہے، جہاں اس کو بے بس پایا دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ویزول ریپ سے دو ہاتھ آگے نکل کر physically rape کر بیٹھے۔

اس کے برعکس مشرقی و مغربی معاشرے میں عورت کو اس مخصوص ہوس کے انداز میں دیکھا گیا ہے نہ ہی کسی طرف سے کوئی مثال سامنے آتی ہے کہ عورت کسی حضرت (مرد) کو بولتی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہو۔

مجھے ایک بار یہاں اٹلی کے ایک پاکستانی شعرا کے مشاعرے میں جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں بھی میں اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں گیا تھا, سٹیج پر پاکستانی حکومتی عہدیدار بھی تھے جو ابھی ابھی یہاں تعینات ہوئے تھے، جب تعارفی سیشن ہوا تو وہ ایک جوان یورپین عورت کو ایسے ملے کہ ان کا انداز شاید میں لفظوں میں بیان نہ کر پاؤں، یا شاید اس ملاقات کے لئے میری لغت میں الفاظ نہ ہوں یا اگر ہوں تو ان کو تحریر کرنے میں میرا ہاتھ ساتھ نہ دے رہا ہو۔ (اطالوی لوگ جب کسی سے ملتے ہیں تو رخسار کے ساتھ رخسار کو لگاتے ہیں اور اس میں مرد و عورت کا کوئی فرق نہیں ہوتا)۔

یونیورسٹی کے ابتدائی دنوں میں جب مجھے بھی میرے/میری کورس میٹ ملتے تو وہ بھی ایسے ہی کرتے جو شروع میں مجھے اچھا لگتا مگر جلد ہی میں ہاتھ ملانے پر آ گیا اور ہاتھ ملانے میں مجھے کچھ برا نہیں لگتا۔

خونخوار نظروں سے عورتوں کو دیکھنے کو میں ویزول ریپ Visual Rape کہتا ہوں اور اس میں صرف حضرت مرد ہی کیوں پیش پیش ہیں ؟

یوں تو سوشل میڈیا پر آئے روز کوئی نہ کوئی تصویر گردش کر رہی ہوتی ہے مگر موجودہ تناظر میں نے ایک تصویر کا انتخاب کیا ہے جس میں مسلم لیگ ن کی مریم نواز صفدر کسی پارٹی کارکن یا مداح سے مل رہی ہیں اور رانا ثنا اللہ صاحب معلوم نہیں دونوں میں سے کس کو اتنے “غور سے “ دیکھ رہے ہیں؟

لیکن ان کو معلوم نہیں کہ ان کی ہمدردانہ نظر کو کیمرہ کی آنکھ نے کس انداز میں محفوظ کر لیا ہے !

کیونکہ Visuals Rape کو صرف کیمرہ کی آنکھ محفوظ کر پاتی ہے, یہ عام انسانی آنکھ کے بس کی بات نہیں کہ ایسے لمحات کو ساکت کر سکے۔
چین کی ایک ضرب المثل بھی ہے کہ “ ایک بہترین تصویر، ایک ہزار الفاظ سے بہتر ہوتی ہے”۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے