پیمرا، اوگرا اور پیپرا کا قیام
آج کل ملک میں سرکاری اداروں کی نجکاری اور انکی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے اصلاحات کے حوالے سے اقتدار کے ایوانوں میں بحث جاری ہے. بدقسمتی سے ملک میں ابھی بھی وہی تہہ تر تہہ گورننس کا نظام ہے . فائل دفتروں میں سفر کرتی رہتی ہے لیکن ایک فیصلہ لینے میں عرصہ بیت جاتا ہے .2002 -2001 میں حکومت نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کہنے پر ریگولیشن اور دیگر شعبوں پر نظر رکھنے کے لیے پیمرا، اوگرا اور پیپرا جیسے ادارے بنائے . ان میں سب سے اہم پیپرا کا ادارہ تھا جس کا مقصد شفافیت اور کرپشن سے بچاؤ تھا. لیکن لگتا ہے انکو بنانے والے برے بھولے لوگ تھے کیونکہ پیپرا کے کاروبار کی بنیاد تین کوٹیشن پر مشتمل ہے. اس طریقہ کار کو اختیار کر کے ایک تو وقت کو ضائع کیا گیا جبکہ دوسرا اس تہہ در تہہ عمل سے کرپشن کے امکانات بھی بڑھ گئے. وفاقی وزیر اسد عمر کے خیال میں پیپرا کے نظام میں کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں. سمارٹ ریگولیشن کے ذریعے کام کی راہ میں رکاوٹوں کو روکنا ہے نہ کہ کام کرنے والوں کو.
1995 ارب روپےکا خسارہ کیسے ہو ا؟
سال 20-2019 کے دوران 461 سرکاری اداروں اور کارپوریشنز کا قرضہ اور خسارہ 1995 ارب روپے ہے. صرف گزشتہ ایک سال کے دوران ان اداروں کے ملازمین اور افسران کی مراعات کے لیے 601 ارب روپے کا قرضہ لیا گیا جس میں سے 325 ارب روپے کا قرضہ ملکی زرائع سے جبکہ 276 ارب روپے بیرونی زرائع سے لیے گیے. ان اداروں کارکردگی ہمارے سامنے ہے، وہی افسر شاہی اور فیصلہ سازی میں سست روی تو جیسے کہ سرکاری اداروں کی پہچان بن چکی ہے. اب تک جتنا پیسا صرف ان ملازمین کی تنخواہوں میں جھونکا جاچکا ہے اتنی رقم سے عوام کی فلاح کے کئی منصوبے شروع کیے جاسکتے تھے.
بجٹ خسارے کی وجوہات
وزارت خزانہ کے مطابق بجٹ خسارے کی وجوہات میں ٹیکس وصولیوں میں کمی، معاشی ترقی کی کم شرح اور سرکاری اداروں کا مسلسل نقصان میں رہنا شامل ہے. آئی ایم ایف کی طرف سے جو 7.4 ارب کا پیکج ملا اس کی شرائط میں بھی مسلسل نقصان میں رہنے والے اداروں کی نجکاری پر زور دیا گیا. شنید ہے کہ81 اداروں کی نجکاری کا بنیادی فریم ورک تیار کرلیا گیا جس پر آئندہ تین سالوں میں عملدرآمد ہوگا.
نیب تنگ کرتا ہے ؟
یہ شاید محض اتفاق ہے کہ ہم نے جب بھی سیاستدانوں سے سوال کیا کہ ملک میں سرکاری خریداریوں اور ٹینڈرز کے امور کے متعلق قوانین میں تبدیلی ضروری ہے تو تقریبا سبھی نے اسکا جواب ہاں میں دیا. ہم نے اسد عمر سے بھی یہی سوال کیا کہ انھیں سرکاری سطح پر یا اپنی جماعت اور پارلیمان میں اس نظام کی تبدیلی کی کوئی خواہش نظر آتی ہے. اس سوال کے جواب میں اسد عمر نے نیب قوانین میں ترمیم کا حوالہ دیا کہ سرکاری افسران ڈرے ہوئے تھے کہ کوئی اہم کام اور فیصلہ سازی نہیں کرنی ورنہ نیب تنگ کرے گی. ہمیں ایسے فیصلے اور اقدامات کرنے ہونگے کہ چوری پر تو سزا ہو لیکن کسی کو اس بات پر سزا نہ ہو کہ آپ نے اچھا فیصلہ کیوں کیا ورنہ افسران کام کرنے سے کترائیں گے. ہمیں ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قانون سازی کرنی ہوگی.
اسد عمر صاحب کی بڑی خواہش ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے زبردست منصوبوں کے ذریعے ملک میں اقتصادی ترقی اور کاروبار کو فروغ دیا جائے لیکن اگر کاروبار مملکت اور اس کے فیصلوں کے حوالوں کا پیمانہ مذہب یا سکیورٹی رہیں گے تو پھر اقتصادی ترقی اور کاروبار کا فروغ کیسے ممکن ہوگا؟ اسد عمر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ملک میں سیکیورٹی کا مسئلہ تو ہے لیکن ہم نے دنیا میں پاکستان کے متعلق لوگوں کی سوچ کو کافی حد تک تبدیل بھی کیا ہے.پاکستان کا گراف بہتر ہوا ہے اور حکومت نے بڑے فیصلے کرکے سیاحت کے سیکٹر کو آگے بڑھایا ہے. ان کے خیال میں ہمیں کاروبار کو innovation کے لیے تیار کرنا ہوگا.
حکومت پیپرا کا نظام ٹھیک کرے
ابھی حکومت کے پاس موقع ہے کہ وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیکر پیپرا کا نظام ٹھیک کرے کیونکہ اگر پیپرا کا نظام ٹھیک ہوتا تو گزشتہ چند سال میں کرپشن بڑھنے کی بجائے کم ہوتا. فیصلہ سازی تیز ہونی چاہیے اور ترقی یافتہ ممالک کی طرح ایسی اصلاحات متعارف کی جائیں کہ کام کرنے میں آسانیاں پیدا ہوں. اگر ایسا نظام ہو جس میں فیصلہ سازی اور عملدرآمد جلد ممکن ہو تو اس سے قوم کے قیمتی وسائل مزید ضائع ہونے سے بچ جائیں گے.
افسران اور اداروں کی مایوس کن کارکردگی
سرکاری اداروں میں خسارے اور نقصانات کے ساتھ ساتھ افسران اور ملازمین کی کارکردگی بھی مایوس کن ہے. سوال یہ ہے کہ اگر پکی نوکریوں میں تحفظ حاصل ہے تو پھر سرکاری ادارے جمود کا شکار کیوں ہیں؟ اسی حوالے سے ہم نے حال ہی میں وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے ایک انٹرویو میں بھی سرکاری اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے چند سوالات کیے. ہم نے اسد عمر سے پوچھا کہ بطور پلاننگ منسٹر انکی سب سے بڑی تشویش کیا ہے جب وہ اپنے آس پاس اپنی وزارت اور دوسری وزارتوں پر نظر دوڑاتے ہیں.
اسد عمر کے خیال میں ہمارے ملک میں ابھی تک اہل لوگوں اور مہارت کی کمی ہے جس کے اوپر بہت کام کی ضرورت ہے. اور اب اس دور میں سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم اپنی اہلیت بڑھا سکیں ابھی تک ہم وہ پرانے 1960 اور 70 والے طریقوں سے کام کررہے ہیں اور ہمارے اداروں میں ابھی تک وہ جدت نہیں آئی جو کہ آنی چاہیے تھی. محترم وزیر کی اس بات سے کسی کو اعتراض نہیں ہے کیونکہ اب 2020 ہے اور اب اختیارات سنٹریلائزڈ نہیں ہیں . صوبے خودمختار ہیں . ایک اچھی حکمت عملی کے ذریعے کاروبار کرنے میں مزید آسانیاں پیدا کرنا ہونگی جنہیں پرائیویٹ سیکٹر کا اعتماد حاصل ہو.