سفیر اسلام عبدالغفار عزیز

عبدالغفار عزیز کو مرحوم لکھتے ہوئے دل کٹتا ہے۔ابھی تک دل ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔اتنی بڑی دنیا انھوں نے سوگوار چھوڑی ہے کہ سمجھ نہیں آتی کس سے تعزیت کی جائے۔

یہ یاد نہیں کہ ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی پر ایسا معلوم ہوتا کہ ان سے ازل سے دوستی تھی۔اور بڑی گہری دوستی تھی۔یہ معاملہ ان کے ہر جاننے والے کا ہے۔وہ ہر ایک سے بڑی محبت اور عقیدت سے ملتے تھے۔اور اتنی وارفتگی اور محبت سے پیش آتے تھے کہ ان سے الگ ہونے کا دل نہیں کرتا تھا۔

اسلامی جمعیت طلبہ کے زمانے سے ان سے تعارف ہوا اور پھر تادم آخر یہ تعلق برقرار رہا۔

عرب و عجم میں جس طرح ان کی موت کا سوگ منایا گیا وہ ان سے لگاو اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

بیک وقت کئی زبانوں پر عبور ہونا اور ہر زبان کا حق ادا کرنا کسی کسی کا نصیب ہے۔بڑے بڑے اجتماعات میں بیرونی مہمانوں کی عربی تقاریر کا ایسے روانی سے لائیو ترجمہ کرتے تھے جیسے کوئی دہلی والا ہو، نہایت شستہ اور رواں زباں، ہر لفظ اپنی اپنی جگہ پر ایسے بولتے جیسے کہ موتی نگینے میں جڑا ہوا ہو۔اور ایسا لگتا کہ یہ جملہ یہیں ہی بولنے والا تھا۔اور پھر ان کو عرب میں بھی بولتے سنا۔ایسی پیاری اور خوب صورت عربی بولتے کہ اہل زباں بھی سنتے اور سر دھنتے۔خطابت کے جوہر ان میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔اللہ نے ان کو لحن داودی عطا کیا ۔

وہ جتنے مقبول یہاں تھے اس سے زیادہ ملک سے باہر ان کے چاہنے والے تھے۔ہر ایک کی تمنا ہوتی تھی کہ وہ ان کے ملک تشریف لے جائیں۔

2016 میں لاہور میں وزارت مذھبی امور کی عالمی سیرت کانفرنس تھی۔باہر سے آنے والے مہمانوں کے امور کی ذمہ داری میری تھی۔مراکش، ترکی ، عمان ، شیشان سمیت دیگر ممالک سے بڑے علماء اور ذمہ داران تھے۔میں نے عبدالغفار عزیز بھائی کو فون کیا اور گزارش کی کہ آپ پی سی ہوٹل تشریف لے آئیں تا کہ مہمانوں سے مل سکیں ۔وہ آئے تو کسی تعارف کی ضرورت بھی پیش نہ آئی اور سب بیرونی مہمانوں میں یوں گھل مل گئے کہ جیسے برسوں کا تعلق ہو۔ترکی کے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر مہمت گورمیز، مراکش کے پروفیسر طلابی اور دیگر تھے۔ڈاکٹر مہمت گورمیز کی محترم لیاقت بلوچ صاحب اور محترمہ سمیعہ راحیل قاضی صاحبہ سے بھی ملاقات کروائی۔

عبد الغفار عزیز مرحوم

مراکش کے پروفیسر طلابی تو ایسے گرویدہ ہوئے کہ کانفرنس سے اگلے دن عبدالغفار عزیز کی دعوت پر منصورہ گئے ۔وہاں خاصا وقت گزارا اور ذمہ داران سے ملاقاتیں بھی کیں۔

2017 میں سعودی عرب کے وزیر مذھبی امور شیخ صالح آل الشیخ مختصر وقت کے لیے پشاور تشریف لائے۔میری خواہش تھی کہ جماعت کا وفد بھی ان سے ملے۔وقت کا احساس ہی نہیں ہوا اور میں نے رات کو دو بجے میں نے عبدالغفار عزیز بھائی کو فون کیا۔اور انھوں نے بھی مجھے یہ احساس نہیں دلایا کہ یہ رات کا پچھلا پہر ہے۔اسی طرح خوشگوار اور جاندار آواز میں بات کی اور پھر ان کی کوششوں سے اگلے روز صبح پروفیسر محمد ابراہیم خان ، عنایت اللہ خان اور شبیر احمد خان ملاقات کے لیے تشریف لائے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا ۔اور تجاویز بھی دیں۔

مختلف عالمی کانفرنسوں میں ہم اکھٹے شریک رہے۔عبدالغفار عزیز بھائی ہر وقت متحرک رہتے۔مختلف ممالک سے آئے وفود سے ملتے۔امیر جماعت کو ملواتے۔پاکستان میں تحریک کی صورت حال، درپیش مسائل ، کشمیر کا مسئلہ، فلسطین کا مسئلہ ، غرض امت کے مسائل پر اپنا درد رکھتے۔امت کے حکمرانوں کی زبوں حالی پر بات ہوتی اور اسلامی تحاریک کے فعال کردار پر بھی زور دیا جاتا۔عبدالغفار عزیز ہر اجتماع کی ڈارلنگ ہوتے۔

اسلام آباد میں مرکز جماعت کی طرف سے شعبہ اطلاعات کی ذمہ داری کے دوران ان سے زیادہ قربت کا تعلق رہا۔اور تواتر سے رہا۔حالات کی سردی و گرمی کے باوجود میں نے ان کے ماتھے پر کبھی شکن نہیں دیکھی۔چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی۔لہجے کی حلاوت اور نرمی کی کیا بات ہے۔اسلامی ممالک کے اکثر سفیروں سے ان کی ذاتی دوستی اور تعلق تھا۔مختلف مواقع پر جب کبھی میں کسی مصروفیت میں ہوتا تو مجھے خبر بھی تیار مل جاتی اور مجھے ذرہ برابر تردود نہ کرنا پڑتا۔کمال یہ ہے کہ خبر ایسی ہوتی جس میں ایک بھی لفظ کے نہ ہی اضافے اور نہ ہی کمی کی گنجائش ہوتی۔سفارتی آداب کا بھی خیال ہوتا اور زبان و بیان کا بھی۔

امام کعبہ کے ایک دفعہ پاکستان آمد پر ایک دو روز میں مخلتف تقریبات میں جب میں نے انھیں خوش آمدید کہا تو امیر صاحب کو کہنے لگے کہ ماشاء اللہ سجاد بھا ئی تو ہر جگہ میزبان ہیں۔

ہم جب طالب علم تھے تب وہ اسلام کے عالمی سفیر تھے۔لیکن انھوں نے اس بات کو کبھی اس عامی کو محسوس نہیں ہونے دیا۔ہر جگہ چھوٹے بھائیوں کی طرح پیش آتے اور بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ۔بھائی سے یاد آیا کہ ان کے بھائی حبیب الرحمن عاصم بھی کمال کے آدمی ہیں۔دونوں بھائی بیک وقت ایک جیسی خوبیوں کے مالک ہوں۔ایسا کم ہی ہوتا ہے۔حبیب الرحمن عاصم بھی اردو، عربی کے نامور عالم ، زبان دان، خطیب ،مقرر اور لکھاری ہیں۔ان کی خوبصورت آواز میں قرآن مجید کا اردو ترجمہ ریڈیو پاکستان سے کئی دفعہ نشر ہو چکا۔بندہ جب ایک دفعہ سننا شروع کرے تو دل کرتا ہے سنتا ہی چلا جائے۔ہر دل عزیز استاد ہیں،شاگردوں کے دل میں رہتے ہیں ۔

عبدالغفار عزیز بھائی بے شمار صلاحیتوں کے مالک تھے۔دین اسلام کے داعی اور تڑپ رکھنے والے مجاہد ان تھک تھے۔پوری زندگی اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے مصروف عمل رہے۔دیکھتے ہی دیکھتے بیمار ہوئے اور رخصت ہ گئے۔اے نفس مطمئن، چل اپنے رب کی طرف ، اس کی جنتوں میں داخل ہو جا ، اس حال میں کہ تو اس سے اور وہ تم سے راضی ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ انھوں نے ایک صاف ستھری زندگی گزاری۔اور پھر اپنے رب کی جنتوں کی طرف روانہ ہو گئے۔

وہ چلے گئے ۔لیکن پوری دنیا میں انھوں نے جو جدوجہد کی اس کی روشنی قیامت تک جاری رہے گی اور اس راہ کے مسافر فیض یاب ہوتے رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے