امن مقصد ہونا چاہئے ضرورت نہیں

حضرت واصف علی واصف نے دو جنگوں کے درمیانی مسافت کو امن کا نام دیدیا ہے۔ یہ تعریف تمثیل پسندی کی روح سے شاید مکمل نہ ہو مگر موجودہ صورتحال کی عمدہ منظر کشی کی ہے۔ ملکی سطح پر بالخصوص تنازعات میں گھرے علاقوں میں ٹھنڈے ہوا کے جھونکے کو امن قرار دیا جارہا ہے۔ تکلیف کی بات تو یہ ہے کہ اس ٹھنڈے ہوا کے جھونکے کا کریڈٹ لینے کی جنگ میں کوئی بھی پیچھے نہیں ہے۔

اس وقت سوشل میڈیا ناقابل استعمال بن کررہ گیا ہے جہاں کہیں نظر پڑے فرقہ وارانہ مواد بھرا پڑا ہوتا ہے جس کا بنیادی مقصد دوسروں یا مخالفین پر لعن طعن کرنا اور ان کے جذبات کو مجروح کرنا ہے۔ اہل تشیع کے معروف عالم دین علامہ سید جواد نقوی نے اس صورتحال پر جو گفتگو کی ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ دنوں اتحاد بین المسلمین اور ہم آہنگی کے موضوع پر ملی یکجہتی کونسل جی بی کے زیر اہتمام ایک تعارفی سیشن میں نگران صوبائی وزیر جنگلات مولانا سید سرورشاہ نے جو گفتگو کی وہ سنہرے حروف میں لکھے جانے کی قابل ہے۔

مولانا سرور شاہ نے کہا کہ ہم امن کو اپنی ضرورت سمجھتے ہیں جو کہ خلاف حقیقت ہے کیونکہ امن انسانیت کا مقصد ہے۔ اگر امن ضرورت بن گئی تو صرف اور صرف مخصوص حالات میں ایسے مجالس کا اہتمام کیا جائیگا جہاں پر بظاہر خوشنما گفتگو ہوگی اور اتحاد بین المسلمین کی بات ہوگی مگر اپنے فرقوں اور خول کے اندر گھستے ہی زبان تبدیل ہوجائے گی، ضرورت کو پوری ہونے پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور مقصد سے ہمیشہ جڑا رہا جاتا ہے۔ امن و امان کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنی فطرت اور طبیعب دونوں کو خدمت انسانیت کی طرف مائل کریں جیسے پتھر کی فطرت ہے کہ وہ زمین سے جڑا رہتا ہے بے شک جتنی بھی زور سے آسمان کی طرف پھینکے وہ وہاں ٹھہرتا نہیں بلکہ واپس اپنے فطرت کی طرف مائل ہوتا ہے۔مولانا سرور شاہ نے بدامنی کی تین اہم وجوہات کو سامنے رکھا۔ پہلے نمبر پر بدامنی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے کے لئے کسی اور کو کافر قرار دینا لازمی سمجھتے ہیں۔ اختلاف رائے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ اتحاد کے لئے تب بلایا جاتا ہے کہ جب کوئی آپ کے شرائط پر چلنے کو تیار ہوجائے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امن کا کریڈٹ لینے کے لئے کوئی فرد واحد نہیں ملے گا جو اس سے پیچھے ہٹتا ہو بلکہ وہ امن کے کریڈٹ کا حقدار خود کو ہی سمجھتے ہیں، مگر یہ امن اچانک جاتا کدھر ہے؟ ایسے امن ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ کوئی امن کے لئے شرائط رکھ دے۔ امن و امان کے ثمر کے لئے قربانیاں دینی پڑیں گی، اپنے آپ میں لچک پیدا کرنا ہوگا۔ امن کے لئے اختلاف رائے کو برداشت کرنا پڑے گاجو کہ لازماً ایک حدود کے اندر ہوں۔

بدامنی کے نقصانات کا تخمینہ جی بی کے مخصوص پس منظر میں لگانا مشکل نہیں ہے، گزرے بدامنی کے حالات میں شاید ہی کوئی ایسا طبقہ اور کاروبار ہوگا جو متاثر نہیں ہوا ہو۔ ہر زی شعور اس کے نقصانات سے آگاہ ہے۔ جبکہ امن و امان کی بحالی کی رونقیں شمار کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ خوشحالی کا سفر ہی امن و امان کا ثمر ہے۔

سوشل میڈیا میں چلنے والی لاحاصل گفتگو میں ان تمام مذہبی رہنماؤں اور علماء کو کردار ادا کرنا ناگزیر ہے جو اپنے آپ کو مدعی سمجھتے ہیں۔ہر وہ منبر اس بحث کی وجہ ہے جو سمجھتا ہے کہ وہ مذہب کی ترویج کرتا ہے۔ ہر وہ سیاسی و مذہبی جماعت اس کی زمہ داری قبول کرے جو اسلامی طرز سیاست یا اسلامی طرز ریاست کی مجاہد ہے۔ آگے بڑھنے کرقیادت کرنے والوں کا یہ وطیرہ نہیں ہوتا ہے کہ جس طرف کو لشکر مڑ جائے وہ بھی اس طرف کو مڑ جائے بلکہ قیادت کا تقاضا ہی یہی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر وقت کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھ میں تھامے، بے لگام ہجوم کو لگام دیتے ہوئے گمراہوں کو سیدھا راستہ دکھائیں۔

غلط ڈگر پر چلنے والوں کا قبلہ درست کریں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ شبہ درست نکلے کہ علماء اپنے سامعین سے ڈرتے ہیں۔سامعین میں وہ قوت آچکی ہے کہ وہ منبر سے جیسا خطبہ چاہے دلوائے اور جس قسم کے فتوے کی ضرورت ہو وہ حاصل کرسکیں۔معروضی حالات میں شاید کسی کا اس میں مفاد ہوسکتا ہے مگر مجموعی طور پر اس روش نے جو تباہی مچانی ہے وہ منظر کوئی انسانی آنکھ دیکھ نہیں سکتی ہے۔امن و امان کے قیام کے لئے بھی اگر آسمان سے کسی فرشتے یا غیبی امداد کی توقع رکھتے ہیں تو انسان کا خطاب ہم سے چھن جانا چاہئے۔امن کو مقصد قرار دیکر اس کی جدوجہد کرنا ہوگا نہ کہ ضرورت قرار دیکر رومال کی طرح استعمال کرکے پھینک دیں۔

مسلکی اختلافات کو فرقوں کے بقاء سے نہ جوڑا جائے بلکہ تمام مسالک کا احترام کریں۔مسالک مجتہدین کی فکر و فہم کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں جس میں عوام کے رائے اور عمل دخل کی شاید کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ انسانی فہم کا بھی تقاضا ہے کہ ہم دوسروں کو خود سے بہتر سمجھیں۔ امن کی بات کرنے والوں بالخصوص علماء کو علاقائی حالات میں لچک دکھانی ہوگی تب جاکر وہ حقیقی معنوں میں علماء کا خطاب اپنے سر پہ سجاسکتے ہیں۔امن و امان کے مفہوم کو بطور مقصد لینا ناگزیر ہے ورنہ دو جنگوں کے درمیانی مسافت کو امن قرار دیکر پھر سے کسی جنگ کا انتظار کرنا ہوگا۔جون ایلیا نے اس سلسلے میں عجیب شعر کہا ہے کہ
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی، آدمی کو بھول گیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے