مفادات کا کھیل

ہمارے قدیم فلاسفہ نے سیاست کی تین قسمیں بتائی ہیں: ایک ”تہذیبِ نفس‘‘ یعنی اپنی شخصیت کو نکھارنا، منفی پہلوئوں سے تطہیر اور مُثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنا، تصوّف میں اِسے تخلیہ اور تجلیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس فکری ریاضت کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے سے نفس اور شخصیت کی تہذیب ہوتی ہے، گویا انسانی شخصیت کے اندر جو خیر و شر کی کشمکش بپا رہتی ہے‘ بشری استطاعت کے مطابق نفسِ انسانی میں شر کو مغلوب اور خیر کو غالب کرنا بھی سیاست کا ایک شعبہ ہے۔ دوسری قسم ”تدبیرِ منزل‘‘ ہے، یعنی ایک گھر یا ایک خاندان‘ جو افراد کا مجموعہ ہوتا ہے‘ کے نظم کو اپنی بشری استطاعت کے مطابق عدل و انصاف کے ساتھ متوازن رکھنا۔ تیسری قسم ”سیاستِ مُدَن‘‘ ہے، یعنی کسی ریاست یا حکومت کے اجتماعی نظم کو توازن اور حکمت و تدبیر کے ساتھ قائم رکھنا کہ جس میں ہر حق دار کو اس کا جائز حق ملے، کسی کی حق تلفی نہ ہو، حفظِ مراتب کا پاس ہو، اسی بات کو ایک حدیث پاک میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

”حضرت عبداللہؓ بن عمر بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کی طرف سے جوابدہ ہے، حاکمِ وقت نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کی طرف سے جوابدہ ہے، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور وہ اُن کی طرف سے جوابدہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور وہ اپنے ماتحت لوگوں کی طرف سے جوابدہ ہے، نوکر اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور وہ اپنے زیرِ تصرف چیزوں کی طرف سے جوابدہ ہے اور میرا گمان ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: اور ایک شخص اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے اور وہ اپنے زیرِ تصرف چیزوں کی طرف سے جوابدہ ہے اور تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اُس سے اس کے ماتحت لوگوں کے متعلق سوال کیا جائے گا‘‘ (صحیح البخاری:2409)۔

الغرض ہر ایک سے اس کے دائرۂ اختیار کی بابت سوال ہو گا اور وہ اس کے لیے جوابدہ ہوگا کہ آیا اُس نے اپنے ماتحت لوگوں کی صلاح و فلاح، اُن کے حقوق کے تحفظ، عدل و انصاف کے قیام اور کفالت کی ذمہ داریاں درست طریقے سے انجام دی ہیں، اسی طرح مالی معاملات میں بھی اپنے دائرۂ اختیار کے اندر جوابدہ ہو گا۔ رعیت کسی ملک کی حدود میں رہنے والے باشندوں کو کہتے ہیں، لیکن حدیث پاک میں اسے عمومی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس معنی میں سیاست فریضۂ نبوت قرار پایا؛ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کے نظمِ اجتماعی کی تدبیر (اورصلاح و فلاح کے امور) انبیائے کرام انجام دیتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہو جاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ آکر یہ فریضہ انجام دیتا، یقینا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، سو (یہ فریضۂ نبوت انجام دینے کے لیے) خلفاء ہوں گے‘‘ (صحیح البخاری:3455)۔ الغرض سیاست شِعارِ نبوت بھی ہے، عبادت بھی ہے اور خَلقِ خدا کی خدمت بھی۔

لیکن دورِ حاضر میں سیاست کو مفادات سمیٹنے اور دَجل وفریب کے ہم معنی بنا دیا گیا ہے، اس کی روح کو صلب کر لیا گیا ہے، مادیت غالب آ گئی ہے اور دل و دماغ خدا خوفی کے جذبے سے عاری ہو گئے ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد اکیسویں صدی میں امریکا کو وحدانی سپر پاور کا درجہ حاصل ہو گیا، یہ درجہ کسی اخلاقی برتری کی وجہ سے حاصل نہیں ہوا، بلکہ فوجی اور مادّی طاقت کے غلبے کی وجہ سے حاصل ہوا ہے، مگر ٹرمپ کے دورِ صدارت میں امریکا عالمی قیادت کا اخلاقی جواز کھو بیٹھا ہے، کیونکہ اُس نے دنیا کے ساتھ مل کر چلنے کا شعار ترک کر دیا ہے، صرف اپنی شرائط بزورِ قوت نافذ کرنے کے عمل کو اختیار کر لیا ہے، پہلے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک ایسی پالیسیوں سے متاثر ہوتے تھے،

مگر اب امریکا اپنے حلیف یورپی اور مغربی ممالک کو بھی نظر انداز کر رہا ہے۔ عالمی ماحولیاتی ادارے، عالمی تجارتی تنظیم اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہو گیا ہے، اس صورتحال سے امریکا کے اہلِ فکر و نظر خود پریشانی میں مبتلا ہیں، مگر اُن کے دستور اور قوانین میں اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ امریکی اہلِ فکر و نظر اور دانشور ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ ایک مغلوب الغضب انسان ہیں، وہ ذہنی اعتبار سے متوازن فکر کے حامل نہیں، وہ امریکی کانگریس اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں، وہ انسانی تکریم کے قائل نہیں ہیں، نسلی عصبیت کے جذبات اُن پر حاوی ہیں اور وہ اپنے مخالفین کی تذلیل و تحقیر کر کے اپنے نفس کو تسکین پہنچاتے رہتے ہیں۔ پس اسی سبب عالمی سیاست عدمِ توازن کا شکار ہے۔

ایک طرف اہلِ مغرب مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتے رہے ہیں کہ حکومتی نظام میں مذہب کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، خود وہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ساری سرحدوں کو عبور کر چکے ہیں، مثلاً حال ہی میں فرانسیسی صدر ایمانول میکرون نے کہا ہے: ”مذہب کے نام پر بچیوں اور خواتین پر قدغنیں لگانے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی، پردے اور سکارف پر پابندی کو سخت کرنے کے لیے نئے قانون میں سرکاری سکولوں، یونیورسٹیوں، دفاتر، ساحلِ سمندر، پارک اور تفریحی مقامات کے ساتھ نجی اداروں میں بھی سر ڈھانپنے پر پابندی ہوگی‘‘۔

الغرض سماج میں رنگ و نسل، تہذیب و ثقافت کے تنوُّع، تکثیریت (Plurality) اور تکثیر پسندی (Pluralism) کے سارے کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ سیاست میں مذہب کا استعمال نہیں ہونا چاہیے، لیکن خود اہلِ مغرب نے مذہبی بنیادوں پر مسیحی مذہب کے حامل ایسٹ تیمور کو انڈونیشیا سے، جنوبی سوڈان کو جمہوریہ سوڈان سے الگ کیا، سرزمینِ فلسطین سے اس کے اصل باشندوں فلسطینیوں کو بے دخل کر کے اسرائیلی ریاست قائم کی، لبنان میں مذہبی بنیادوں پر ریاستی مناسب تقسیم ہوئے اورصدر کا مسیحی، وزیر اعظم کا سنّی اور سپیکر کا شیعہ ہونا لازمی قرار پایا، یہ سب کچھ اُن کے نزدیک قابلِ قبول ہے۔ لیکن اگر مسلمان اپنے مذہب اور مذہبی اقدار کے تحفظ کی بات کریں تو اسے حقوقِ انسانی، انسانی اقدار اور آزادیٔ اظہار کے منافی قرار دیا جاتا ہے، شاعر نے درست کہا ہے:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی

تازہ المیہ آذربائیجان کے ایک علاقے ”نکورنوکاراباخ‘‘ اور اس کے مضافات کا ہے، 1990ء میں سوویت یونین کے سقوط کے بعد آرمینیا نے فوجی قوت کے بل پر 1993ء میں اس پر قبضہ کر لیا، اقوامِ عالم نے اسے ایک متنازع علاقہ تسلیم کیا، مگر اس پر آذر بائیجان کی حاکمیت بحال کرنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ آخرکار آذربائیجان کی حکومت نے نکورنو کاراباخ کے علاقے کو واپس لینے کے لیے جنگ شروع کی اور بعض علاقے واپس بھی لے لیے، مگر روس اور یورپی ممالک نے آذربائیجان کی مخالفت کی اور آرمینیا کا ساتھ دیا۔ مشہور محاورہ ہے: ”سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘، یعنی سیاست اقدار، اخلاقیات اور اصولوں کا نہیں‘ صرف اور صرف مفادات کا کھیل ہے۔ اگر ہم پاکستان و امریکا کے تعلقات کا تجزیہ کریں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو گا کہ طاقتور اور کمزور کی دوستی میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، صرف اور صرف مفادات ہوتے ہیں۔

اگر آپ وقتی طور پر کسی کی ضرورت یا مجبوری بن گئے ہیں تو آپ کی ناز برداری بھی کی جائے گی، کبھی دھونس‘ دھمکی اور کبھی پیار چمکار سے کام نکالا جائے گا، لیکن کام نکلتے ہی طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لی جائیں گی، سیاست میں وضع داری نام کی کوئی چیز نہیں ہے، آج کل چین کے مفادات ہم سے جڑے ہوئے ہیں اور بوجوہ یہ عارضی نہیں ہے، جغرافیائی محلِ وقوع اور ہندوستان کے ساتھ چین کا سرحدی تنازع جب تک قائم ہے، ان تعلقات کی ضرورت برقرار رہے گی، مگر کسی بھی ملک کی اصل طاقت اُس کی دفاعی قوت، داخلی استحکام اور معاشی خود کفالت ہے، جب تک ہم اس منزل کو حاصل نہیں کریں گے، دوسروں پر انحصار باقی رہے گا، خوش فہمی اور تعلّی مسائل کا دیرپا علاج نہیں ہے۔

ایران کا ایک صوبہ بھی آذربائیجان کے نام سے موسوم ہے، یہ لوگ ترکی النسل ہیں، آذربائیجان کوہِ قاف کی ریاستوں (Caucasian States) میں سے ایک ہے۔ بعض مسلم ممالک آذربائیجان کے بجائے آرمینا کے حامی ہیں حتیٰ کہ ان میں سے بعض ایک دوسرے کے حریف ہونے کے باوجود آرمینیا کے حق میں اکٹھے ہیں۔ صرف ترکی اور پاکستان نے کھل کر آذربائیجان کی حمایت کی ہے، پاکستان کی حمایت تو اخلاقی اور سیاسی حد تک ہے، لیکن ترکی مادّی اور دفاعی حمایت بھی کر رہا ہے۔

عرب ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، مصر، اردن اور قطر پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں، اب متحدہ عرب امارات اور بحرین نے پیش قدمی کی ہے، انہیں درپردہ بعض بااثر عرب ممالک کی اشیرباد بھی حاصل ہے۔ یہی صورتحال پاکستان کو درپیش ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ ناجائز ہے، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دینا لازم تھا، لیکن نہ بھارت نے اس عالمی میثاق کو پرِکاہ کے برابر اہمیت دی اور نہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں کے نفاذ کے لیے کوئی سنجیدہ سعی کی، بلکہ بھارت نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر کی امتیازی حیثیت کو ختم کر دیا اور بعض علاقوں کو اپنی یونین میں شامل کر دیا۔ اس ظلم کے خلاف ترکی کے علاوہ کوئی مسلم ملک پاکستان کی حمایت کے لیے آمادہ نہیں ہے، صرف ایران نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کی ہے اور مہاتیر محمد کے دور میں ملائیشیا نے بھی واضح موقف اختیار کیا، دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں اتنی حمایت بھی غنیمت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے