عابد علی کیسے گرفتار ہوا؟

موٹروے کا سانحہ 9 ستمبر کی صبح تین بجے پیش آیا‘ عابد علی عرف عالی اور شفقت علی عرف بگانے خاتون کو لوٹنے کے بعد بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا‘ خاتون کو پہلے عابد علی نے ریپ کیا‘ شفقت اس دوران بچوں پر پستول تان کر کھڑا رہا‘ اس کے بعد یہ پستول تان کر کھڑا ہو گیا اور شفقت نے خاتون کو ریپ کیا‘ عابد علی دوسری مرتبہ ریپ کرنے لگا لیکن اس دوران پولیس آ گئی اور یہ دونوں بھاگ گئے‘ یہ دریائے راوی تک گئے‘ دریا پار کیا اور شیخو پورہ میں عابد علی کے گھر پہنچ گئے‘ شفقت عرف بگا دوسری صبح اوکاڑہ اپنے گھر چلا گیا‘ یہ واردات شام تک عالمی ایشو بن گئی۔

ڈی این اے سیمپل لیے گئے‘ یہ عابد علی سے میچ کر گئے‘ عابد علی کا نام اور تصویر میڈیا پر چلنے لگی‘ اس کے گھر ٹیلی ویژن نہیں تھا چنانچہ یہ صورت حال سے ناواقف رہا‘ اقبال مستری ان کا تیسرا ساتھی تھا‘ یہ اس رات موقع واردات تک نہیں پہنچ سکا تھا‘ اس نے ٹیلی ویژن پر اس کی تصویر اور نام دیکھا تو یہ سیدھا اس کے پاس پہنچ گیا اور موبائل فون پر اسے خبر چلا کر دکھائی‘ یہ الرٹ ہو گیا‘ اس دوران سی ٹی ڈی اس کے گھر تک پہنچ گئی‘ ان کے ساتھ لوکیٹر بھی تھے‘ اس نے لوکیٹر کی گاڑی دیکھی تو یہ کھیتوں میں گھس کر غائب ہو گیا۔

کھیتوں میں گھٹنے گھٹنے پانی تھا مگر یہ اس کے باوجود بھاگ گیا‘ اس کی بیوی بشریٰ پولیس کے سامنے سے چلتے ہوئے نکل گئی‘ گھر میں صرف ایک چھوٹی بچی رہ گئی‘ میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں‘ اس نے بشریٰ کو بھگا کر شادی کی تھی‘ یہ خاتون شادی شدہ تھی اور بال بچوں والی تھی‘ عابد گجرات میں کسی پولٹری فارم پر کام کرتا تھا‘ اس نے فون کے ذریعے بشریٰ سے راہ و رسم بڑھائی اور پھر یہ اسے بھگا کر شیخو پورہ لے آیا‘ خاتون اپنے باقی بچے پرانے خاوند کے پاس چھوڑ آئی تھی‘ صرف ایک بچی ساتھ لے آئی اور یہ اس دن بچی گھر میں چھوڑ کر فرار ہو گئی۔

بچی کو پولیس لاہور لے آئی اور اگلے دن دارالامان کے حوالے کر دیا‘ عابد علی کی بیوی دوسرے دن اس کے والد اکبر علی کے پاس مانگا منڈی پہنچ گئی‘ پولیس والد کے گھر میں موجود تھی‘ اس نے اسے گرفتار کر لیا‘ عابد علی شیخوپورہ سے بھاگنے کے بعد کہاں کہاں گیا؟ یہ میں آپ کو بتاؤں گا لیکن میں اس سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں‘ سی آئی اے ماڈل ٹاؤن نے عابد علی کی شناخت کے بعد اس کے خاندان کے تمام لوگوں کو گرفتار کر لیا تھا‘ والد اور والدہ مانگا منڈی لاہور میں رہتے تھے‘ یہ بھی گرفتار ہو گئے۔

دو بھائی قاسم اور آصف بھی پکڑ لیے گئے‘ اس کا سالا سرفراز اور بہنوئی بھی گرفتار ہو گیا‘ یہ تین دن پولیس کسٹڈی میں رہے‘ پولیس نے بعد ازاں انھیں چھوڑ دیا لیکن ان کے گھروں میں پولیس اہلکار بٹھا دیے گئے مگر یہ بعد کی باتیں ہیں‘ ہم عابد علی کے فرار کی طرف واپس آتے ہیں۔ یہ شیخو پورہ سے بھاگ کر مانگا منڈی میں اپنی کزن رخسانہ کے پاس پہنچ گیا‘ اس نے اس سے تین سو روپے لیے اور یہ اس کا دوپٹہ اوڑھ کر بس میں بیٹھ کر فورٹ عباس چلا گیا‘ یہ وہاں دو دن بھینس چرانے والے دو اجنبی لوگوں کے پاس رہا اور تیسرے دن قصور میں رکھاں والا گاؤں آ گیا‘ رکھاں والا میں اس کا بہنوئی جہانگیر رہتا تھا‘ اس کا بہنوئی اور اس کے دو بھائی تصور اور سیدالرحمن کسی کے فارم پر کام کرتے تھے۔

پولیس جہانگیر تک پہنچ چکی تھی‘ یہ بہنوئی کے گھر پہنچا‘ گھر میں پولیس کی گاڑی دیکھی اور بھاگ کھڑا ہوا‘ فارم ہاؤس کے ساتھ بانس کا جنگل تھا‘ یہ اس میں غائب ہو گیا‘ پولیس کو بعد ازاں نہر کے پاس اس کا جوتا اور رخسانہ کا دوپٹہ ملا‘ یہ وہاں سے سیدھا ننکانہ صاحب میں اپنی سالی رانی کے گھر پہنچ گیا‘ سالی نے ہمسائے کے ذریعے 15 پر اطلاع کر دی‘ پولیس پہنچی اور یہ وہاں سے بھی بھاگ گیا‘ وہ رات اس نے ننکانہ صاحب کے قبرستان میں گزاری‘ یہ اگلے دن لفٹ لیتا لیتا فیصل آباد پہنچ گیا‘ اڈے پر اس نے ایک عام مسافر کے ساتھ بات کی اور یہ اسے اپنے ساتھ چنیوٹ کے ایک گاؤں چکیاں لے گیا‘ وہاں اس نے عباس آسی کے ڈیرے پر بھینس کو چارہ ڈالنا شروع کر دیا۔

گیارہ اکتوبر کو اسے عباس آسی سے آٹھ سو روپے مزدوری ملی‘ اس نے یہ رقم لی اور یہ فیصل آباد کے چک 236 رب میں اپنے سالے سرفراز کے گھر پہنچ گیا‘ وہاں پولیس تھی‘ یہ چھت پر لیٹ گیا‘ اس نے وہاں سے اپنے سالے کا فون چوری کیا‘ دیواروں پر اینٹ سے عابد علی لکھا اور گھر سے نکل گیا‘ رات تین بجے اس نے سالے کے فون سے اپنے چچا خالد کو فون کیا‘ چچا کے بعد اس نے اپنے والد کو فون کر دیا‘ والد کے پاس اس وقت اے ایس آئی خلیل بیٹھا تھا‘ خلیل نے ڈی ایس پی حسنین حیدر کو اطلاع دے دی۔

یہ آپریشن ڈی ایس پی حسنین حیدر ہینڈل کر رہا تھا‘ اس نے عابد علی کے رشتے داروں کے گھروں میں 9 ٹیمیں بٹھا رکھی تھیں‘ یہ لوگ پورے مہینے سے ان لوگوں کے گھروں اور گلیوں میں بیٹھے تھے‘ ڈی ایس پی نے عابد علی کے والد اکبر علی کا فون اسپیکر پر لگوایا اور خلیل اے ایس آئی کا فون اس کے کان کے ساتھ لگوا دیا‘ والد نے ڈی ایس پی کے کہنے پر اسے گھر آنے کی دعوت دے دی لیکن اس کا کہنا تھا ’’تم سب لوگ جھوٹ بول رہے ہو‘ تم مجھے گرفتار کرانا چاہتے ہو‘ تمہارے اور چچا کے بیان نہیں مل رہے‘ میں ہرگز نہیں آؤں گا‘‘ پولیس کو فون کی لوکیشن مل گئی۔

وہ فیصل آباد سے فون کر رہا تھا‘ ڈی ایس پی حسنین حیدر ٹیم لے کر فیصل آباد نکل گیا‘ عابد علی نے اس دوران فون بند کیا‘ نہر میں پھینکا اور یہ بس پر بیٹھ کر لاہور آ گیا‘ حسنین حیدر کا خیال تھا یہ اپنے چچا یا والد کے گھر ضرور جائے گا چنانچہ اس نے دونوں جگہوں پر نفری بھجوا دی‘ والد کے گھر کے اندر لیڈی کانسٹیبل اور چار کانسٹیبل چھپا دیے گئے‘ گلی میں ریڑھی والے کے بھیس میں بھی پولیس اہلکار موجود تھا‘ یہ صبح سات بجے مانگا منڈی پہنچ گیا‘ گلی میں اسے اجنبی لوگ نظر آئے تو یہ گھر کے قریب کماد میں چھپ گیا۔

یہ سارا دن وہاں چھپا رہا‘ یہ شام کے وقت دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہو گیا‘ تھپ کی آواز آئی‘ پولیس الرٹ ہوئی اور اس نے اسے پکڑ لیا‘ گلی میں موجود پولیس اہلکار بھی اندر آ گئے اور یوں سانحہ موٹروے کا مرکزی ملزم گرفتار ہوگیا۔

عابد علی نے گرفتار ہونا ہی تھا اور یہ گرفتار ہو ہی گیا لیکن اس کہانی میں چند غیرمعمولی کردار اور چند غیر معمولی حقائق ہیں‘ ہمیں چاہیے ہم ان غیر معمولی حقائق پر ضرور توجہ دیں‘ پہلی حقیقت عابد علی کا بیک گراؤنڈ اور ریاست کی نالائقی ہے‘ اس کے خلاف 14 مقدمات ہیں‘ یہ دو مرتبہ گرفتار بھی ہوا اور جیل بھی گیا لیکن یہ اس کے باوجود ریاست کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا‘ یہ وارداتیں کرتا رہا اور ریاست اس کے وجود تک سے ناواقف رہی‘ دوسرا یہ غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ یہ لوگ مزدوری کرتے ہیں‘ دوسروں کی بھینسوں کو چارہ ڈالتے ہیں۔

یہ اس ملک میں آٹھ نو کروڑ ہیں اور ریاست ان آٹھ نو کروڑ عابد علی جیسے لوگوں کی جذباتی اور ذہنی حالت میں تبدیلی سے بھی واقف نہیں‘ ان میں سے کون کس وقت خطرناک ہو جائے ہم نہیں جانتے‘ تیسرا اس ملک میں واردات کے بعد چھپنا کتنا آسان ہے‘ یہ موسٹ وانٹیڈ ہونے کے باوجود بسوں میں سفر کرتا رہا‘ یہ پیسوں اور کپڑوں کے بغیر بھی پورا مہینہ سروائیو کر گیا‘ یہ مانگ کر کھا لیتا تھا‘ یہ مزدوری کرتا رہا‘ لفٹ لے کر شہر شہر گھومتا رہا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور چوتھا اس نے اس دوران صرف داڑھی بڑھا لی تھی اور یہ داڑھی اس کی محافظ بن گئی۔

لوگ داڑھی کے پیچھے چھپے عابد علی کو نہ پہچان سکے‘ ہماری ریاست کو ان چاروں حقائق کو دیکھ اور سمجھ کر کوئی پالیسی بنانی ہو گی‘ ہم لوگ کیوں کسی اجنبی کو لفٹ دے دیتے ہیں اور کیوں شناختی کارڈ دیکھے بغیر لوگوں کو ملازمت دے دیتے ہیں؟ ہمیں سوچنا ہو گا۔ ہم اب غیر معمولی کرداروں کی طرف آتے ہیں۔

ہمیں سی آئی اے ماڈل ٹاؤن کی ان 9 ٹیموں کے اہلکاروں کو میڈل بھی دینے چاہییں اور پروموشن بھی جو مسلسل ایک ماہ عابد علی کے رشتے داروں کے گھروں اور گلیوں میں ڈیوٹی دیتے رہے‘ وہ اہلکار اعزاز کے مستحق ہیں جو اس کے والد کے گھر کے باہر فروٹ اور چھلی کی ریڑھی لگا کر بیٹھے رہے اور وہ ڈی ایس پی حسنین حیدر بھی جو انسپکٹر ہوتے ہوئے ڈی ایس پی کی ڈیوٹی کرتا رہا‘ جو ایک ماہ تین دن عابد علی کے پیچھے بھاگتا رہا اور جس نے ملزم کو جیل پہنچانے تک آخری تین دن کھانا کھایا اور نہ نیند لی‘ یہ لوگ اصل ہیروز ہیں‘ ملک میں تالیاں ان کے لیے بجنی چاہییں‘ ایوارڈ اور نقد انعام ان کو ملنے چاہییں لیکن آپ ہمارا کمال دیکھیے‘ حکومت مبارک باد عثمان بزدار اور عمران خان کو دے رہی ہے‘ شادیانے آئی جی کے لیے بج رہے ہیں‘ ہم بھی کیا لوگ ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے