گلگت بلتستان انتخابات2020: حلقہ 6 ہنزہ

قدرتی حسن سے مالامال، سیاحوں کی اولین ترجیح وادی ہنزہ ایک سب ڈویژن گوجال اور شیناکی تحصیل کے ساتھ ایک ضلع ہے جوکہ گلگت ڈویژن کا حصہ ہے۔ وادی ہنزہ بھی نگر کی طرح 2007تک ضلع گلگت کا سب ڈویژن تھا جسے 2007میں پرویز مشرف نے اپنے دور میں گلگت سے الگ کرکے ہنزہ نگر ضلع بنادیا۔ 2015کے انتخابات کے بعد نوازشریف حکومت نے ہنزہ کو الگ ضلع بنادیا۔پاکستان کا سب سے اہم درہ، درہ خنجراب بھی ضلع ہنزہ یعنی حلقہ 6جی بی کے حدود میں آتا ہے۔ بعض ماہرین ارضیات، مورخین اور محققین کے مطابق ضلع ہنزہ اس وقت رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے جس میں چپورسن اور شمشال جیسے دور دراز علاقے شامل ہیں۔

گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں ضلع ہنزہ کو جہاں سیاحت، شرح تعلیم، صنفی مساوات جیسے معاملات پر ممتاز مقام حاصل ہے وہی پر 1947 کی جدوجہد آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق میں بھی امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ 1947میں ڈوگرہ راج کے خلاف مقامی یورش میں واحد شہادت ہنزہ کے جوان کو ہی نصیب ہوئی ہے۔ بعد ازاں موجودہ جی بی سے الحاق پاکستان کے لئے واحد دستاویز بھی میر آف ہنزہ کے دستخطوں سے بھیجا گیا خط ہی ملتا ہے۔

حلقہ نمبر6کی سیاست اعدادو شمار کے مطابق میر آف ہنزہ میر غضنفر علی خان کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اس حلقے سے سب سے زیادہ نمائندگی کرنے کے علاوہ میر غضنفر علی خان کو ڈپٹی چیف ایگزیکٹو، چیف ایگزیکٹو(اپ گریڈ ہوکر)، گورنر گلگت بلتستان کے علاوہ متعدد بار نمائندگی کرنے کا اعزا ز حاصل ہے۔ میر غضنفر علی خان 1979میں ضلع ہنزہ سے بلامقابلہ جیت کر رکن اسمبلی بنے۔ بعد میں 1983، 1987، 1991، 2004، اور 2015کے انتخابات میں وہ ضلع ہنزہ سے جیت کر رکن اسمبلی بن گئے۔ اس کے علاوہ 1975میں ہونے والے انتخابات میں ضلع ہنزہ سے اعزازی لیفٹننٹ کرنل ایش خان نے نمائندگی کی، 1994میں نذیر احمد صابر، 1999اور 2009 میں وزیر بیگ نے نمائندگی کی۔

ضلع ہنزہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1991میں پہلی مرتبہ خواتین نشستوں کا اعلان ہوا تو ہنزہ سے رانی عتیقہ غضنفر دو خواتین اسمبلی میں ایک تھی۔ اس کے علاوہ رانی عتیقہ غضنفر 2004اور 2015کے انتخابات میں بھی خواتین کے لئے مختص نشستوں میں رکن اسمبلی بن گئیں۔

ضلع ہنزہ میں 2009کے انتخابات میں 34060ووٹ رجسٹرڈ ہوئے جس میں سے 16462خواتین اور 17598مرد تھے۔ انتخابی میدان میں 16امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں میر غضنفر علی خان نے حصہ نہیں لیا البتہ ان کے صاحبزادے پرنس شہریار خان نے حصہ لیا۔ انتخابات میں 7امیدواروں نے دستبرداری حاصل کی جبکہ چار امیدوار 1ہزار کے ہندسے تک نہیں پہنچ پائے۔ آزاد امیدوار عارف حسین نے 1098، پرنس شہریار خان نے 1341، ہنزہ قومی اتحاد کے متفقہ امیدوار نور محمد نے 3669، متحدہ قومی موومنٹ کے کامل جان نے 4101ووٹ لئے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار وزیر بیگ 5270ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر آگئے اور بعد میں سپیکر بن گئے جو فداناشاد سے حلف لینے کے بعد سبکدوش ہوگئے۔انتخابات میں کل 17468ووٹ کاسٹ ہوگئے جو کہ مجموعی ووٹ کا 51.3فیصد تھا۔

2015کے انتخابات میں اس حلقے سے 36417ووٹ رجسٹرڈ ہوئے جو کہ سب سے زیادہ تھے، جس میں سے 18931خواتین ووٹر اور 17486مرد ووٹر شامل تھیں۔انتخابات میں لالک جان سٹیڈیم گلگت میں نوازشریف کا وہ جلسہ بھرپور اثر انداز رہا جس میں نوازشریف نے ہنزہ کو الگ ضلع بنانے کے بعد میر غضنفر کو مخاطب کرکے پوچھااور کیا چاہئے؟ انتخابات میں کل 11امیدوار سامنے آگئے جن میں میرغضنفر کے علاوہ اکثر بالکل نئے چہرے تھے۔ 11میں سے پانچ امیدواروں نے دستبرداری لے لی اور ایک امیدوار ہزار کا ہندسہ پار نہیں کرسکا۔ انتخابات میں مجلس وحدت المسلمین کے ٹکٹ پر شیخ موسیٰ کریمی نے 1041ووٹ، پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے اظہار ہنزائی نے 2291ووٹ، پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر سابق ایم ڈی نیٹکو ظفر اقبال نے 3501ووٹ لے لیا۔

اصل مقابلہ جیل سے لڑنے والے عوامی ورکرز پارٹی کے باباجان اور پاکستان مسلم لیگ ن کے میرغضنفر کے درمیان ہوا۔ جس میں عوامی ورکرز پارٹی کے باباجان کو 4641ووٹ مل گئے اور میرغضنفر علی خان 8242ووٹ حاصل کرکے فاتح ہنزہ ٹھہرے۔ عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما کامریڈ باباجان تاحال جیل میں ہیں جن پر سانحہ عطاء آباد میں تھانہ جلانے کا الزام ہے جس کی پاداش میں سخت اور طویل سزا سے گزررہے ہیں۔ میر غضنفر علی خان 2015کے انتخابات جیتنے کے بعد کچھ مہینوں تک رکن اسمبلی رہے اور 20نومبر 2015کواسمبلی کی رکنیت استعفیٰ دیکر گورنر بن گئے۔انتخابات میں کل 20013 ووٹ کاسٹ ہوئے جو کہ مجموعی ووٹ کا 55فیصد تھا۔

میر غضنفر کے استعفیٰ کے بعد 10ستمبر 2016کو نئے انتخابات ہوگئے جس میں میر غضنفر کے بیٹے پرنس سلیم نے حصہ لیاجبکہ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہ ملنے پر کرنل(ر) عبید اللہ بیگ نے آزاد حیثیت میں حصہ لیا۔جس میں میر سلیم خان کو 4679ووٹ مل گئے اور کرنل(ر) عبید اللہ بیگ کو 4025 ووٹ مل گئے۔انتخابات میں پیپلزپارٹی کے وزیر بیگ، نیک نام کریم، عزیز احمد، اسیر سیاسی رہنما باباجان کے بھائی اخون بائے نے بھی حصہ لیا۔ ستمبر 2016میں جیتنے والے میر سلیم خان ستمبر2017کو بنک ڈیفالٹر کیس میں دوبارہ نااہل ہوگئے جس کے بعد ہنزہ میں انتخابات نہیں ہوسکے۔

آمدہ انتخابات کے لئے ہنزہ سے 43603ووٹ رجسٹرڈ ہوئے ہیں جس میں 22328مرد اور 21275خواتین ہیں۔ جس کے لئے 90پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں 45مردوں اور45خواتین کے ہیں اور 161پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ہیں۔15نومبر کو ہونے والے انتخابات میں ضلع ہنزہ سے 15امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ حیران کن طور پر میر غضنفر اور گھرانے نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ انتخابی میدان میں واحد خاتون مہناز ولی بھی حصہ لے رہی ہے جس کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے ہے۔ 8امیدواروں نے آزاد حیثیت میں کاغذات جمع کرائے اور انتخابی نشان حاصل کرلیا ہے۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے ریحان شاہ، ق لیگ کی جانب سے سکندر احمد، پیپلزپارٹی کی جانب سے ظہور کریم ایڈوکیٹ، تحریک انصاف کی جانب سے کرنل (ر) عبید اللہ بیگ، اور برابری پارٹی پاکستان نے حیدر علی کو میدان میں اتارا ہے۔ ہنزہ کے انتخابی معرکے میں پیپلزپارٹی کے ظہور کریم ایڈوکیٹ نے پانچ سالوں تک بھرپور محنت کی ہے اور حلقے کے مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہے ہیں تاہم باباجان کیس کا داغ پیپلزپارٹی کے دامن سے صاف کرنے کا چیلنج ہے۔ عبید اللہ بیگ کو 2017کے انتخابات اور وفاقی حکومت کا بونس ہے لیکن تین سالوں تک حلقے سے غائب رہے ہیں۔آزاد امیدوار کامل جان اور نور محمد اور احسان ایڈوکیٹ بھی ماضی میں بھاری ووٹ سنبھال چکے ہیں۔ہنزہ سے انتخابات میں حصہ لینے والے اکثرامیدوار پڑھے لکھے اور یونیورسٹی درجہ کے ہیں۔

انتخابی معرکہ میں اسیر رہنما باباجان کی رہائی، ہنزہ کے لئے الگ حلقہ اور پانی و بجلی جیسے بنیادی حقوق نعروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ رواں ماہ کے پہلے عشرے میں باباجان سمیت 14اسیران ہنزہ کی رہائی کے لئے ضلعی ہیڈکوارٹر علی آباد میں دھرنا دیکر سی پیک روٹ کو بند کردیا گیا تھا جو کہ بعد میں ایک معاہدہ کی صورت میں اختتام پذیر ہوگیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے