انتخابات 2020: حلقہ نمبر3گلگت

حلقہ نمبر3گلگت میں تیسری مرتبہ شیڈول جاری کردیا گیا جس کے نتیجے میں آج (کالم چھپنے تک) انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ حلقہ نمبر3گلگت میں پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر سید جعفرشاہ پارٹی ٹکٹ لیکر میدان میں اترے تھے اور سیاسی حلقوں کے توجہ کے مرکز بنے ہوئے تھے ، سید جعفرشاہ نہ صرف اپنے حلقے بلکہ جی بی کے تمام حلقوں میں پارٹی امور کی نگرانی کررہے تھے ۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ 11اکتوبر 2020کو سید جعفرشاہ صاحب اسلام آباد میں دار فانی سے کوچ کرگئے ۔ مرحوم کو کرونا وائرس نے جکڑ رکھا تھا جس کی وجہ سے وہ راہی عدم ہوگئے۔

حلقہ نمبر3گلگت جی بی کا ایک اہم حلقہ ہے ۔ یہ حلقہ تین اطراف سے دریا سے گھرا ہوا ہے ۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے قریب دریا ئے ہنزہ اور ددریائے گلگت کا سنگم ہے اور ان دونوں کے بیچ سے یہ حلقہ گلگت کے حلقہ 2سے جدا ہوتا ہے جبکہ دریائے ہنزہ اس حلقہ کو گلگت کے حلقہ 1سے الگ کردیتا ہے۔ حراموش کے مقام پر دریائے سکردو بھی اس علاقے کی حد بندی کردیتا ہے ۔ سکردو کے ساتھ روندو کے زریعے یہ علاقہ جڑجاتا ہے۔ اس حلقہ کا ایک کونہ گوروجگلوٹ کے قریب نگر سے جڑتا ہے۔ حلقہ 3 دنیور کی مرکزی شاہراہ مکمل طور پر سی پیک روٹ کا حصہ ہے یا پھر قدیم سلک روٹ اور جدید شاہراہ قراقرم پر مشتمل ہے ۔ اس حلقے میں شاہراہ قراقرم کے ساتھ ہی ان چینی مزدوروں کے قبرستان ہیں جو شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے دوران جاں بحق ہوگئے ہیں جسے چائینہ یادگار کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

گلگت اور دنیور کو ملانے والی پل کو برانو پل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جسے 1950کے قریب ٹھیکیدار برانو نے روایتی طرز تعمیر کی مدد سے بنوایا اور تقریباً 60سالوں تک یہ پل آمد و رفت کے لئے استعمال ہوتی رہی ، موجودہ وقت میں مذکورہ پل کو ایک پارک کی حیثیت دیدی گئی ہے ۔برانو پل کے دوسرے حصہ میں شاہ سلطان علی عارف نامی بزرگ کا مزار واقع ہے ۔جس سے آج بھی لوگوں کی عقیدتیں وابستہ ہیں۔

2009 میں دنیور اور شاہراہ قراقرم کو ملانے والی پل ٹوٹ گئی اور اس کا بڑا حصہ دریا کی نذر ہوگیا جس کی وجہ سے دنیور کا رابطہ شاہراہ قراقرم سے کٹ کررہ گیا تھا تاہم 2016میں نئی پل مکمل ہوگئی اور سفری سہولیات میسر ہوگئے۔
حلقہ 3گلگت دنیور سیاحتی اعتبار سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔

سیاحوں کے لئے کشش کا سامان بننے والا راکا پوشی عقب سے اس حلقے کے بگروٹ و دیگر علاقوں تک پھیلا ہوا ہے جہاں سے گرمیوں میں لوگ برف نکال کر شہر میں فروخت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وادی کوٹوا ل حراموش جیسے معروف سیاحتی علاقے اس حلقے کی اہمیت کو چار چاند لگادیتے ہیں۔
لسانی اعتبار سے یہ حلقہ سب سے زیادہ تنوع کا حامل ہے۔ اس حلقے میں بیک وقت شینا، بروشسکی، کھوار، وخی، بلتی ، گوجری سمیت متعدد زبانیں بولنے والے افراد ملیںگے۔ اس حلقے میں وادی ہنزہ ، وادی نگر سمیت دیگر علاقوں سے ہجرت کرکے یا کسی بھی وجہ سے یہاں منتقل ہوکر آباد ہونے والے افراد کی کثیر تعداد موجود ہے۔ اوشکھنداس کے قریب ایسے افراد بھی بستے ہیں جنہیں میر آف ہنزہ نے مذکورہ اراضی گفٹ کردی تھی اور آج وہ وہی پر قیام پذیر ہیں۔
انتظامی اعتبار سے دنیور ضلع گلگت کا سب ڈویژن ہے ۔جو وسیع آبادی اور رقبے پر پھیلا ہوا ہے ۔ 1994تک ضلع گلگت دو حلقوں پر مشتمل تھا ۔ یہ حلقہ بھی حلقہ 2 گلگت کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ 1970میں پہلی مشاورتی کونسل قائم کی گئی تو غلام مصطفیٰ (ایم اے ایل ایل بی) کو اس حلقے سے نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا ۔ 1975کے ناردرن ایریاز کونسل کے انتخابات میں اس حلقے سے نمائندگی کا اعزاز جگلوٹ سے تعلق رکھنے والے رسول میر کو حاصل ہوا۔ 1979کے انتخابات میں اس حلقے سے دیدار علی نے انٹری دیدی ۔ 1983 کے انتخابات میں سید جعفرشاہ کی شکل میں ایک نیا چہرہ سامنے آگیا ۔ سید جعفرشاہ نے 1987کے انتخابات میں بھی میدان مارلیا۔ 1991میں ہونے والے انتخابات میں گلگت بلتستان بھر میں اہل تشیع برادری نے بائیکاٹ کا فیصلہ کرلیا جس کی وجہ سے انہوں نے انتخابات میں امیدوار نہیں اتارے ۔

1991 میں حلقہ 2گلگت سے چھموگڑھ سے تعلق رکھنے والے مولانا سید محمد کو کامیابی ملی، سید محمد صاحب جامع مسجد جگلوٹ کے خطیب ہیں۔
1994کے انتخابات میں نئی حلقہ بندی کی گئی اور دنیور کو ایک الگ حلقے کی حیثیت دیدی گئی ۔ 1994کے انتخابات میں اس حلقے میں اسلامی تحریک (تحریک جعفریہ)کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹر محمد اقبال اور سید جعفرشاہ کا سامنا ہوا جس میں ڈاکٹر محمد اقبال جعفرشاہ کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔ 1999کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سید جعفرشاہ نے اسلامی تحریک کے امیدوار ڈاکٹر محمد اقبال سے اپنا بدلہ لے لیا اوار اسے شکست فاش دیدی۔ مذکورہ انتخابات میں سید جعفرشاہ پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر تھے جس کے بعد انہوں نے حلقے کی سیاست کی بجائے تنظیمی سیاست کو ترجیح دیدی جبکہ ڈاکٹر محمد اقبال بھی روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک روانہ ہوگئے۔

2004میں پرویز مشرف دور کے انتخابات میں ڈاکٹر محمد اقبال اور سید جعفرشاہ کی عدم موجودگی میں مظفر علی جیت گئے تاہم بعد میں وہ منصف کے عہدے پر فائز ہوگئے اور پیپلزپارٹی کے آفتاب حیدر حلقے سے فاتح قرار پائے۔ آفتاب حیدر نے 2009کے انتخابات میں بھی اپنی فتح برقرار رکھی وہ مہدی شاہ کابینہ میں مشیر جنگلات بن گئے
2015کے انتخابات میں اس حلقے سے کل 11امیدوار میدان میں اترے ۔

پیپلزپارٹی نے آفتاب حیدر، مجلس وحدت المسلمین نے شیخ نیئر، مسلم لیگ ن نے ڈاکٹر محمد اقبال، اسلامی تحریک نے محمد شفیع خان، پی ٹی آئی نے شیرغازی ، ایم کیو ایم نے ہادی حسین اور جمعیت علماءاسلام نے سعید الرحمن کو ٹکٹ جاری کیا جبکہ چار امیدوار آزاد حیثیت میں اترے۔ انتخابی دنگل میں پی ٹی آئی کو 618،جمعیت علماءاسلام کو 839، مجلس وحدت المسلمین کو 3656، پیپلزپارٹی کو 4207، اسلامی تحریک کو 4555 ووٹ مل گئے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار کو 7852 ووٹ پڑگئے۔ ڈاکٹر محمد اقبال حفیظ کابینہ میں وزیر تعمیرات کے زمہ داریوں پر فائز رہے اور قریب ساڑھے چار سال تک حفیظ الرحمن کے قریبی وزراءمیں شمار کئے جاتے رہے۔ کرونا وائرس کے ایس او پیز کے متعلق بنائی گئی ایک کمیٹی کی چیئرمین شپ ڈاکٹر اقبال کو دیدی گئی جس کے سفارشات نظر انداز ہونے ، ہوم سیکریٹری کے ساتھ جھگڑا ہونے اور حفیظ الرحمن کی جانب سے مبینہ طور پر غلط گائیڈ کئے جانے پر کابینہ سے استعفیٰ دیدیا۔ لیکن حکومتی نشستوں پر ہی براجمان رہے ۔ ڈاکٹر اقبال خود کو سیف الرحمن مرحوم کے ساتھی گردانتے تھے مگر حکومتی مدت پوری ہونے کے ساتھ ہی انہوں نے عملاً مسلم لیگ سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے ن لیگ کے ٹکٹ پر لڑنے سے انکار کردیا۔

بعد ازاں سید جعفرشاہ کی رحلت کے تیسرے روز انہوں نے اسلام آباد جاکر سیف اللہ نیازی سے پی ٹی آئی کا مفلر پہن کر خود کو کھلاڑی قرار دیا لیکن تحریک انصاف نے انہیں ٹکٹ دینے کی بجائے مرحوم سید جعفرشاہ کے بیٹے سید سہیل عباس شاہ کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا۔اس کے علاوہ حلقہ نمبر 3گلگت سے پیپلزپارٹی نے سابق مشیر آفتاب حیدر، مسلم لیگ ن نے ذوالفقار علی تتو، مسلم لیگ ق نے سابق قائد حزب اختلاف محمد شفیع خان،عوامی مسلم لیگ ن نے ثمر عباس قذافی، سابق وزیر تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال آزاد ، ایڈوکیٹ سنان احمدسمیت مجموعی طور پر 15امیدوار میدان میں اترے ہیں۔ حلقہ نمبر3دنیور میں کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 41360ہے جو ووٹروں کے اعتبار سے گلگت بلتستان کا تیسرا بڑا حلقہ ہے ۔ حلقے میں کل 18141 خواتین اور 22967مرد ووٹر رجسٹرڈ ہیں جوا پنے حق رائے دہی کا استعمال کریںگے۔ حلقے میں سیکیورٹی کی صورتحال کے لئے 1254پولیس اہلکار اور سول آرمڈ فورس کے 500اہلکار تعینات کردی گئی ہے ۔ حلقہ تین گلگت کے 77پولنگ سٹیشنوں میں سے 15 انتہائی حساس ، 30حساس اور 30پولنگ سٹیشنوں کو نارمل قرار دیا گیا ہے۔

حلقے کی صورتحال کے مطابق پیپلزپارٹی، تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن ، مسلم لیگ ق اور آزاد امیدوار ڈاکٹر محمد اقبال کے درمیان ٹاکرے کا مقابلہ ہوسکتا ہے ۔ حلقہ 3دنیور میں سید جعفرشاہ کا گھرانہ 1999 کے انتخابات کے بعد پہلی مرتبہ اترا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے