ترسیلات زر (remittances ) کی معیشت کا آغاز نوے کی دہائی میں ہوا – جنرل ضیاء الحق کا دور پاکستانی تاریخ میں پہلا دور ہے ، جب حکومت نے remittances کے اعداد و شمار میں بہت دلچسپی لی کیونکہ وہ فارن کرنسی میں رقم پاکستان کے بیلنس آف پیمنٹ کے لئے اہم ہوتی جا رہی تھی –
دو ہزار ایک سے پہلے ہنڈی اور حوالہ جیسے انفارمل چینل عام تھے اور زیادہ رقم انہی کے ذریعے پاکستان آتی تھی مگر نائن الیون کے بعد جب امریکہ اور عالمی مالیاتی نظام نے فارن ٹرانزیکشنز کی نگرانی سخت کی تو یہ رقم فارمل بنکنگ چینل کی طرف شفٹ ہوئی اور جنرل مشرف کے اس دور میں پاکستان نے اس پر اترانا شروع کر دیا –
ترسیلات زر میری پی ایچ ڈی ریسرچ میں ایک اہم عنصر ( variable ) ہے جس کا میں دنیا کی معیشتوں اور سیاست پر اثر سٹدی کر رہا ہوں – میرے علم میں نہیں کہ کبھی کسی ملک نے remittances کو فارن پالیسی کے ایک ہم ٹول یا ہتھیار کے طور پر لیا ہو – یہ صرف ایک بار ہوا ہے – جب سے سعودی عرب میں محمد بن سلمان اقتدار میں آیا ہے –
تقریبا دو تین سال سے سعودی عرب اور یو اے ای پاکستان کو اس بات پر دھمکاتے آ رہے ہیں کہ اگر ہم سے تعاون نہ کیا تو ان ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو یکے بعد دیگرے نکال دیا جائے گا – ابھی حال ہی میں یو اے ای نے وزٹ اور ایمپلائمنٹ ویزے پاکستان کو دینے بند کئے ہیں تو ساتھ میں یو اے ای کی ریاست شارجہ نے پاکستانیوں کو نکالنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے – سعودی عرب تو کافی عرصے سے اس پالیسی پر کاربند ہے –
اس کا کیا سبب ہے ؟ یہ کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جائیں اور پاکستان اسے تسلیم کرے – اسرائیل سے پس پردہ پاکستانی ریاست کے بہتر تعلقات ہیں جن کا آغاز جنرل مشرف کے دور میں ترکی میں ہونے والی ملاقاتوں سے شروع ہوا تھا – آفیشلی تسلیم کرنا پاکستان کے لئے بہت سارے اسباب کے سبب مشکل ہے مگر تارکین وطن کی معیشت کو بطور ایک threat کے استعمال کیا جا رہا ہے کہ اگر نہ مانے تو ملک میں غربت بھی بڑھے گی جب یہ پاکستانی واپس آ جائیں گے اور remittances جو پاکستانی بیلنس آف پیمنٹ کو سب سے زیادہ سہارہ دیتے ہیں ان میں بھی بہت زیادہ کمی آئے گی جس سے پاکستانی معیشت کو بہت نقصان ہونا ہے –
اس کی کیا وجہ ہے کہ گلف کے ممالک سوائے قطر کے اسرائیل کی محبت میں دیوانے ہوئے جا رہے ہیں ؟ نہ ان کے درمیان کوئی اہم تجارتی امکانات ہیں اور نہ ہی دنیا کی طرف اس ضمن میں ان پر دباؤ تھا – ٹرمپ نے یقینا اس سلسلے میں اپنے اثرو رسوخ کو استعمال کیا ہے مگر چوائس عرب حکمرانوں کے پاس تھی – کچھ لوگ کہہ رہے ہیں چونکہ تیل کی معیشت زوال کا شکار ہے تو عربوں کو اسرائیل سے تجارتی تعلقات کی ضرورت پڑی – ایسا ہرگز نہیں – اگر گلف ممالک اور اسرائیل کی معیشتوں کا موازنہ کیا جائے تو باہمی تجارت کے امکانات زیادہ وسیع نہیں – یہ ممالک صرف اسرائیل سے پھل اور سبزیاں خرید سکتے ہیں – تیل اور گیس تو ان کے پاس وافر ہے – ہاں گرین ٹیکنالوجی خریدی جا سکتی ہے مگر وہ بھی انٹرنیشنل مارکیٹ میں پہلے سے دستیاب ہے اور عرب امارات خصوصا دبئی یہ خرید رہا ہے – امریکہ ، برطانیہ ، چین اور جرمنی کی معیشتوں تک رسائی ہوتے ہوئے اسرائیل کی منڈی تک رسائی کی اہمیت کم ہو جاتی ہے –
پھر کیا وجہ ہے ؟ سیاسی الائنس – عرب سپرنگ میں اسرائیل نے عربوں کو بھرپور اسٹریٹجک سپورٹ مہیا کی ہے جس کے نتیجہ میں ان کے درمیان تعلقات بہت زیادہ بڑھے ہیں – عرب سپرنگ ہی ایسا ٹرننگ point ثابت ہوئی ہے جو ان ممالک کو باہم قریب لائی ہے –
جمہوریت کا مقدمہ عالمی طور پر گزشتہ دس برسوں میں populism کی لہر کے سبب کمزور ہوا ہے مگر اس وقت کسی کو ہی شک ہو گا کہ اب اقوام مغرب میں populism شکست سے دوچار ہے – اور نتیجے میں لبرل جمہوریت کا مقدمہ پھر سے مظبوط ہونے جا رہا ہے جس کا شدید ترین اثر ایک بار پھر عرب اقوام پر پڑے گا بالخصوص اس وقت میں جب تیل کی معیشتیں کمزور ہو رہی ہیں اور سوشل سروسز و جابز نہ ہونے کے سبب عرب ممالک میں سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے – اسرائیل جہاں ایک طرف ان عرب بادشاہتوں کو اسٹریٹجک سپورٹ دے سکتا ہے انٹی جنس شیئرنگ اور سراغ رسائی کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے طور پر ، تو وہیں اس کی lobbying کی پاور ان عرب حکمرانوں کو مزید استحکام دے سکتی ہے – یاد رہے کہ سراغ رسانی کی اس وقت جو جدید ترین ٹیکنالوجی گلف ممالک استعمال کر رہے ہیں اس کا غالب حصہ اسرائیل کی طرف سے انہیں سپلائی کیا گیا ہے اور ذرا تصور کریں جب یہ ٹیکنالوجی پاکستانی ریاست کے پاس بھی ہو گی تو کیا ہو گا ؟
پاکستانی معیشت کورونا بحران سے پہلے بھی زوال کا شکار تھی اور اب تو اس کا بھرتہ نکلا پڑا ہے – اگر remittances کا سہارہ بھی چلا گیا اور ان عرب حکمرانوں سے ملنے والی عارضی فنانسنگ کی facility بھی ختم ہو گئی تو اس ملک کے دیوالیہ ہونے میں دیر نہیں لگے گی – اس لئے پاکستانی مقتدرہ کا اس وقت بیک وقت سنجیدہ و پریشان ہونا سمجھ میں آتا ہے –