سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا خفیہ طور پر ریفرنس کے بارے میں بتانے کا مقصد میرا استعفیٰ لینا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فُل کورٹ آرڈر اور تفصیلی فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل میں 31 صفحات پر مُشتمل اضافی دلائل جمع کروائے ہیں۔ اِس نئی دستاویز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بڑے بڑے اِنکشافات کرتے ہوئے جہاں اپنے خلاف دائر ہونے والے ریفرنس کے مُحرکات سامنے لائے ہیں وہیں سُپریم کورٹ کی راہداریوں میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی گفتگو کو بھی پہلی بار ریکارڈ پر لے آئے ہیں۔ مُستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور سُپریم جوڈیشل کمیشن کے کنڈکٹ کو غیر شفاف، جانبدار اور بدنیتی پر مبنی لِکھا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی پیٹیشن میں لِکھتے ہیں کہ ایف بی آر کے ٹیکس کمشنر ذوالفقار احمد جو اُنکی اہلیہ سرینا عیسیٰ سے تحقیقات کررہے تھے دراصل وہی شخص تھے جنہوں نے صدارتی ریفرنس دائر ہونے سے قبل اُنکے (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مسز سرینا عیسیٰ) کے ٹیکس ریکارڈز کی بغیر کسی قانونی اجازت کے تحقیقات کرکے اُنکے خلاف رائے دی تھی جو صدارتی ریفرنس کا باعث بنی تھی تو ایک ایسا کمشنر جو پہلے ہی اُنکے خلاف رائے دے چُکا ہو وہ نئی تحقیقات کے لیے اہل نہیں تھا اور ذوالفقار احمد کا تحقیقات کے لیے انتخاب میں واضح بدنیتی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مزید لِکھتے ہیں کہ میری اہلیہ اِس کیس میں کبھی بھی فریق نہیں رہیں اور سُپریم کورٹ قرار دے چُکے کہ عدالت کسی بھی ایسے شخص کو سزا نہیں دے سکتی جو اُس مُقدمہ میں فریق نہ ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ مُختصر حُکمنامہ اور تفصیلی فیصلہ سے اُنکی اہلیہ تکلیف دہ عمل سے گُزریں اور شاید مُستقبل میں تکلیف دہ اثرات اُن (جسٹس عیسیٰ) کے لیے بھی ہوں اِس لیے عدالت نظرِ ثانی کرے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کو ایف بی آر بھیجنے کے حُکمنامہ میں ایک تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے لِکھتے ہیں کہ ایف بی آر کمشنر کو حُکم دیا گیا کہ وہ تحقیقات کرکے رپورٹ سُپریم جوڈیشل کمیشن کے سامنے جمع کروا دیں جبکہ سُپریم جوڈیشل کونسل ججز کے احتساب کا فورم ہے، ایف بی آر کے سامنے میں فریق نہیں ہوں اور سُپریم جوڈیشل کمیشن کے سامنے میری اہلیہ فریق نہیں ہیں تو عدالت کے حُکم میں ربط نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایف بی آر نے نوٹس بِجھوانے کا افسانوی طریقہ اختیار کیا اور اُنکے گھر کے دروازے پر نوٹس چِسپاں کیا گیا جیسے کہ وہ کوئی اشتاری مُلزم ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دُکھ کا اظہار کیا کہ اِس عمل سے ایف بی آر نے اُنکی (جسٹس عیسیٰ) اُنکے ڈرائیور، مالی، گارڈ، خانصامے اور ججز کالونی میں ہر آنے جانے والے کے سامنے توہین کی اور یہ بدسلوکی جاری ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایف بی آر کے چیئرمینوں کو بار بار مُدت پوری کرنے سے قبل ہٹا دینے اور مُختصر مُدت کے لیے عارضی چئیرمین لگانے کے عمل کو سُپریم کورٹ کے انیتا تُراب کیس فیصلہ کی خلاف ورزی قرار دیا جِس میں سرکاری مُلازمین کو عہدے کی معیاد پوری کرنے کی ضمانت دی گئی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لِکھتے ہیں کہ غیر قانونی طور پر بار بار چئیرمین ایف بی آر تبدیل کرنے سے ادارے کی خودمختاری سے کام کرنے کی ساکھ پر اعتماد ختم چُکا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی پیٹیشن میں لِکھا ہے کہ جاوید غنی کی مُختصر مُدت کے لیے تعیناتی دراصل خواہش پر مبنی نتائج کے لیے تھی اور کیونکہ فُل کورٹ کے تفصیلی فیصلہ پچھلے ایف بی آر چئیرمین کی بدنیتی پر اُنکا احتساب نہیں تو کوئی شک نہیں فیصلہ کرتے ہوئے یہ احساس نہیں رکھا جاسکا کہ یہ اُنکو (پسِ پردہ قوتوں) کو مزید طاقتور کردے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم اور اے آر یو کے چئیرمین شہزاد اکبر نے نہ صرف اُنکا ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طور پر حاصل کیا بلکہ ایف بی آر کو اُنکے خلاف رائے دینے پر مجبور بھی کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اُنکی اہلیہ نے انتہائی بہادری سے اپنے آپ کو عوامی جانچ پڑتال کے لیے سُپریم کورٹ کے دس ججز کے سامنے پیش کیا اور اُس وقت کمرہِ عدالت میں نااہل فروغ نسیم اور شہزاد اکبر بھی موجود تھے کو ستم ظریفی دیکھیے اپنے سے مُتعلقہ کُچھ ظاہر نہیں کرتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لِکھتے ہیں کہ میری اہلیہ سرینا عیسیٰ کی رپورٹ مُہیا کرنے کی درخواست تو چئیرمین ایف بی آر مُسترد کر دیتے ہیں لیکن یہ رپورٹ میڈیا کو لیک کردی جاتی ہے اور یہ عمل بالکل ویسے ہی دُہرایا جاتا ہے جب اُنہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو صدارتی ریفرنس کی کاپی صدر مُہیا نہیں کرتے لیکن اُنکی کردار کُشی کے لیے میڈیا کو صدارتی ریفرنس کی کاپی لیک کر دی جاتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی درخواست میں ایک انتہائی اہم نُکتہ اُٹھاتے ہیں کہ اُنکی اہلیہ کو سزا سُنا کر دراصل اُنکا (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کا بطور جج سُپریم کورٹ رُتبہ گھٹا کر میرے مُسقتبل کو ایف بی آر کے ایک ایسے افسر کے فیصلہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جو پوری طرح ایگزیکٹو کے کنٹرول میں تھا اور ایک ایسا ایگزیکٹو جو اُنہیں ہٹانے کے در پہ ہے۔ جسٹس عیسیٰ کہتے ہیں کہ عدلیہ کی خودمُختاری کو ایگزیکٹو کو بااختیار بنانے کے لیے داؤ پر لگا دیا گیا۔ درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آذادی کی ضمانت آئینِ پاکستان دیتا ہے اور اُسکو یوں سرنگوں نہیں کرنا چاہئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فُل کورٹ کے فیصلہ کو عدلیہ کی آذادی کے اصول کی نفی قرار دیتے ہوئے عدلیہ کی خودمُختاری کے تابوت میں آخری کیل قرار دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ فُل کورٹ ایک طرف ریفرنس کو مُسترد کررہی ہے تو دوسری طرف وہ ایف بی آر کو رپورٹ سُپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کروانے کا بھی کہہ رہی ہے جِس کے چئیرمین کے پاس اُس رپورٹ کو سوموٹو ریفرنس میں بدلنے کا اختیار ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزام لگایا کہ سُپریم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل سے خُفیہ مُلاقات کی جِس میں اٹارنی جنرل سُپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان کو مجبور کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ مُجھ سے افسانوی اصطلاحوں منی ٹریل اور فنڈز کے ذرائع پر جواب طلب کریں جبکہ اِن اصطلاحوں کا قانون میں کوئی وجود نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لِکھتے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان آئین کے تحت قانون کے مُطابق ذمہٰ داریاں ادا کرنے کا حلف لیتا ہے اور قانون میں سیکشن ایک سو سولہ موجود ہے جِس کی انہوں (جسٹس عیسیٰ) نے کبھی خلاف ورزی نہیں کی تھی کیونکہ اُنکی اہلیہ سرینا عیسیٰ اُنکے زیرِ کفالت نہیں تھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمجھتے ہیں کہ صدارتی ریفرنس سُپریم جوڈیشل کونسل کی ابتدائی سماعت میں ہی خارج ہو جانا چاہئے تھا لیکن اِس ریفرنس کو افسانوی اصطلاحوں منی ٹریل اور فنڈز کے ذرائع کے سوال پر مصنوعی طور پر زندہ رکھا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ شاید سُپریم جوڈیشل کونسل کو یہ نظر نہیں آیا کہ اُنکا کردار فیصلہ دینے والے فورم کا ہے اور استغاثہ کا نہیں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ اُنہیں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے فیض آباد دھرنہ کیس کے فیصلہ کی وجہ سے نشانہ بنایا جو بدنیتی پر مبنی اقدام ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے دعویٰ کے سپورٹ میں حکومتی جماعت پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی فیض آباد دھرنہ فیصلہ کے خلاف دائر ابتدائی نظرِ ثانی اپیل کے مُسودہ کا ذکر کرتے ہیں جِس میں اُنہیں مِس کنڈکٹ کا مُرتکب قرار دیا گیا تھا بعد ازاں رجسٹرار سُپریم کورٹ کے اپیل میں استعمال کی گئی زُبان پر اعتراض کے بعد اُس مُسودہ کو واپس لے کر نظرِ ثانی کی ترمیم شُدہ اپیل دائر کی گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی درخواست میں بتاتے ہیں کہ سُپریم جوڈیشل کونسل 14 جون 2019 کے اپنے حُکم میں قرار دیتی ہے کہ وہ اٹارنی جنرل کے جوابات سے مُطمعن ہیں لیکن کہیں بھی اُن جوابات کا ذکر نہیں کرتی کہ آخر وہ کیا جوابات تھے جِن سے سُپریم جوڈیشل کمیشن کے ارکان مُطمعن ہوئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ سُپریم جوڈیشل کمیشن نے اُنکا (جسٹس عیسیٰ) موقف کبھی سُننے کی زحمت نہیں کی اور اُنکو سُنے بغیر تاریکی میں رکھ کر سُپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی چلائی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اُنکی پیٹھ پیچھے چلنے والی سُپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی جانبدار، غیر شفاف، انصاف کے بُنیادی اصولوں کے مُنافی اور بدنیتی پر مبنی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سُپریم کورٹ کی چُھٹیوں کے دوران جبکہ سُپریم جوڈیشل کونسل کے ایک ممبر (جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ) کی ریٹائرمنٹ سے صرف چھ روز قبل سُپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس اور ریفرنس پر فیصلہ کو انصاف کا قتل قرار دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اُس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے کنڈکٹ کو موضوع بناتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے 19 اگست 2019 کو اپنی ذات کو مُطمعن کرنے کے لیے اور اپنے عمل کو جواز فراہم کرنے کے لیے بطور چئیرمین سُپریم جوڈیشل کونسل ایک فیصلہ لکھا کہ انہوں (جسٹس کھوسہ) نے مُجھے ریفرنس کی کاپی اِس لیے مُہیا نہیں کی کیونکہ وہ صرف سُپریم جوڈیشل کمیشن کے لیے تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر واقعی ایسا تھا تو پِھر مُجھے بُلا کر ریفرنس کی کاپی دِکھانے کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سوال اُٹھاتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس نے اپنے فیصلہ میں لِکھا کہ اُنہوں نے مُجھے اپنے چیمبر میں نجی مُلاقات کے لیے بُلا کر نجی گفتگو کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پوچھتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیا سوچ کر یہ بات لِکھی کہ چیف جسٹس کے چیمبر میں دفتری اوقات میں ہوئی مُلاقات نجی قرار دی جاسکتا ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اِس موقع پر اُس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے اُنکے چیمبر میں ہونے والی مُلاقات کے پسِ منظر سے پردہ اُٹھاتے ہوئے اہم انکشاف کرتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ مُلاقات سے قبل اُنہیں سُپریم کورٹ کی عمارت میں واقع چہل قدمی کے ٹریک پر لے جاکر رازداری سے بتا چُکے تھے کہ اُن (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کے خلاف ایک ریفرینس آیا ہے اور آصف سعید کھوسہ کی جانب سے یہ بتانے کا مقصد مجھ سے استعفیٰ لینا تھا ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تردید کرتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس کھوسہ نے لِکھا کہ میں نے ریفرنس کے نکات نوٹ کرنے کے لئے قلم اور کاغذ مانگا لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ ایسا بالکل نہیں ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ طنز کرتے ہیں کہ سُپریم جوڈیشل کونسل نے اُنکے بارے میں یوں فیصلہ دیا جیسے مُجھے سُنے بغیر اُنہیں میرا ذہن پڑھنے کی صلاحیت ہو اور وہ کوئی تربیت یافتہ ماہرِ نفسیات ہوں جبکہ حقیقت میں سُپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان میں سے کوئی بھی ماہرِ نفسیات نہیں تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لِکھتے ہیں سُپریم جوڈیشل کمیشن نے لِکھا کہ میں نے غیر ضروری طور پر وزیراعظم اور اُنکے اہلخانہ کے اثاثوں کا سوال اُٹھایا اور یوں بالواسطہ طور پر یہ قرار دے دیا کہ وزیراعظم اور اُنکے بچے اپنے اثاثوں کے بارے میں جوابدہ نہیں لیکن میں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) اور میرے بیوی بچے جوابدہ ہیں۔ یعنی وزیراعظم عمران خان اور میرے لئے سُپریم جوڈیشل کونسل نے مُختلف معیار اپنائے اور غیر معمولی طور پر تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سُپریم جوڈیشل کونسل نے ایک ریفرنس مُسترد کرنے کا فیصلہ اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لِکھا ہے کہ بدقسمتی سے ایسا لگ رہا تھا فیصلہ دیتے ہوئے سُپریم جوڈیشل کونسل وزیراعظم عمران خان اور عبدالوحید ڈوگر کا دفاع کررہی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم کو وفاق کا وکیل بننے کی اجازت دینے پر بھی اعتراض اُٹھایا ہے اور لِکھا ہے کہ بینچ کے دس ججز میں سے رُکن جسٹس مُنیب اختر نے فروغ نسیم کو مُقدمہ میں وفاق کی نمائندگی کی اجازت دے دی اور قرار دیا کہ اُنہیں اٹارنی جنرل سے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حیرت کا اظہار کیا کہ ہمارے اعتراضات کو فروغ نسیم نے چیلنج نہیں کیا اور نہ اُنکے خلاف کوئی دلائل دئیے لیکن پھر بھی اُنکو وفاق کی بطورِ وکیل نمائندگی کی اجازت جسٹس مُنیب اختر نے دے دی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مزید لِکھتے ہیں کہ فُل کورٹ نے میری اہلیہ سرینا عیسیٰ کو سُنا اور اُنکے جواب پر مُکمل اطمینان کا اظہار کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں اور میری اہلیہ مئی 2019 سے ذہنی اذیت کا شکار ہیں اور فُل کورٹ کے فیصلہ نے ریفرنس تو ختم کردیا لیکن اُس ذہنی اذیت کو جاری رکھا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اے آر یو کے سربراہ شہزاد اکبر پر بھی سوال اُٹھایا کہ وہ کِس قانون اور اختیار کے ساتھ اتنے حکومتی محکمے اور ادارے بشمول ایف بی آر، نادرا، ایف آئی اے، نیب وغیرہ چلا رہے ہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ وہ بیرونِ مُلک کوئی جائیداد نہیں رکھتے لیکن پھر بھی وزیراعظم عمران خان کو اُنکے بچوں کی نام پر جائیدادیں پتہ تھیں اور وہ صدر کو ریفرنس دائر کرنے کی تجویز بھجوا رہے تھے لیکن یہی عمران خان بیرونِ مُلک اپنی سابقہ بیوی اور بچوں کے نام پر اثاثوں کو پاکستان میں ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہیں کرتے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مزید لِکھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے ارکان فیصل واوڈا، جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ، ذُلفی بُخاری، عُثمان ڈار، ندیم بابر، شہباز گِل اور شہزاد اکبر بھی بیرونِ مُلک جائیدادوں کے مالک ہیں مگر معلوم نہیں انہوں نے یہ ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کر رکھی ہیں یا نہیں۔

آخر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تمام بار کونسلز کا حمایت پر شُکریہ ادا کرتے ہوئے مزید دلائل سماعت کے وقت دینے کا کہتے ہوئے عدالت سے استدعا کی ہے کہ اُنکی نظرِثانی کی درخواست کی سماعت کی کاروائی براہِ راست نشر کرنے کا حُکم دیا جائے تاکہ اُنکے خلاف منفی اور جھوٹے پروپیگنڈہ کا تدارک ہوسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے