کورونا ویکسین میں پوشیدہ طاغوتی سازش

ہمارے ہاں اِن دنوں ایک نئی عالمی سازش کا سراغ لگایا گیا ہے۔ یہود و ہنود جو مسلمانوں سے خوف زدہ ہیں اور اُنہیں نقصان پہنچانے کے لئے انواع و اقسام کے مہلک منصوبے تیار کرتے رہتے ہیں، اُنہوں نے کورونا کی ویکسین کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کو غلام بنانے کے لئے ایک خطرناک سازش رچائی ہے۔ ویکسین کی تیاری میں جینیاتی مواد استعمال کیا گیا ہے۔ کورونا سے بچائو کی آڑ میں اِس ویکسین کو لازمی قرار دیا جائے گا۔

ہر شخص کو یہ ویکسین لگاتے وقت اُس کے جسم میں ایک مائیکروچپ داخل کردی جائے گی جس سے نہ صرف اُس کا جینیاتی کوڈ یعنی ڈی این اے تبدیل ہو جائے گا بلکہ اُسے روبوٹ کی طرح اشاروں پر نچایا جا سکے گا۔

پہلے مرحلے پر ضبطِ تولید کے تحت بچوں کی پیدائش روکی جائے گی تاکہ مسلمانوں کی تعداد کم ہو سکے۔ اُس کے بعد سب کے رہن سہن، طرزِ بودو باش، انداز و اطوار اور فکر و عمل کو کنٹرول کرکے دجالی نظام نافذ کیا جائے گا۔ مائیکرو سوفٹ کے بانی بل گیٹس اِس منصوبے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ پہلے تو ویکسین فروخت کرکے زرِ مبادلہ کمایا جائے گا اور پھر جس طرح پولیو کی ویکسین کے لئے باقاعدہ حکومتوں کو امداد دی جاتی ہے اور مہم چلا کر زبردستی پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں، اِسی طرح کورونا کی ویکسین بھی ہر انسان کو زبردستی لگائی جائے گی تاکہ پوری دنیا کو غلامی کے شکنجے میں جکڑا جا سکے۔

یہ اِس قدر خوفناک منصوبہ ہے کہ ہر شخص مُٹھی بھر یہودیوں کے حکم کا غلام بن جائے گا کیونکہ مائیکرو چپ نصب ہونے کے بعد نہ صرف اُس کی حرکات و سکنات اور گفتگو کی نگرانی کی جا سکے گی بلکہ ڈی این اے تبدیل کرکے اُسے ایک نئے انداز میں سوچنے پر بھی مجبور کیا جا سکے گا۔

حالیہ عالمی سازش کا پردہ چاک کرنے سے پہلے بھی جذبہ ایمانی سے سرشار ہمارے مجاہدین کئی طاغوتی منصوبوں کی حقیقت طشت ازبام کر چکے ہیں۔

جب کورونا کے عام ہونے کی خبریں زیر گردش تھیں تو چند ہی روز میں ہمارے محققین اِس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ یہ کوئی قدرتی وائرس نہیں بلکہ حیاتیاتی حملہ ہے اور اِس کے پس پردہ صہیونیوں کے مذموم مقاصد کارفرما ہیں۔ ہمارے باخبر مجاہدین نے اِس سازش سے آگاہ کرنے کے بعد مفت مشوروں کا مورچہ سنبھال لیا اور سب اب یہ کو بتانے لگے ہیں کہ کورونا جو ہے ہی نہیں، اُس سے نجات کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟ گرم پانی، پیاز، لہسن، ادرک اور جانے کیا کیا دیسی ٹوٹکے متعارف کروائے گئے۔

چونکہ ہمیں ایمان کی حد تک یقین تھا کہ کورونا عالمی سازش ہے اِس لئے ہم تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے مگر کافروں نے نئی حکمت عملی کے تحت کورونا کی ویکسین اور علاج دریافت کرنے کے منصوبے پر کام شروع کردیا۔ جب کورونا کی ویکسین بنانے کا دعویٰ کیا گیا تو ہمارے پاس آپشن بہت محدود تھے۔

اُن کافروں کے دانت کھٹے کرنے کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ ہم اِس ویکسین کا کریڈٹ اُن سے چھین لیتے۔ مثال کے طور ہم کہتے کہ اُن ترقی یافتہ ممالک نے آج جو علاج دریافت کیا ہے، وہ تو ہمیں پہلے ہی کھجور اور زیتون کی شکل میں ودیعت کردیا گیا تھا۔ یا پھر یہ موقف اختیار کرتے کہ کافروں نے ویکسین کی تیاری کے لئے جو حیاتیاتی فارمولا اختیار کیا ہے، وہ مسلم دنیا کے عظیم ماہر طب الفارابی نے 800سال پہلے قرطبہ میں بیان کیا تھا۔

بعد ازاں ایک سازش کے تحت اُن یہودیوں نے وہ علم ہم سے چُرالیا اور خود مالک بن بیٹھے لیکن اِس طرح کی ہومیو پیتھک باتوں سے کوئی خاص فائدہ نہ ہوتا اور صورتحال جوں کی توں رہتی۔

کچھ افلا طونوں نے یہ درمیانی راستہ بھی اختیار کیا کہ جرمنی اور امریکہ کی فارما کمپنیوں کے اشتراک سے جو ویکسین بنائی گئی ہے، وہ دراصل ایک ترک نژاد مسلمان جوڑے کے تعاون سے تیار کی گئی ہے چنانچہ اِس ویکسین کی تیاری کا کریڈٹ اُمتِ مسلمہ کو جاتا ہے۔ یہ بات واقعی درست ہے کہ ویکسین کی تیاری میں ڈاکٹر اوگر شاہین اور اُن کی اہلیہ ڈاکٹر اوزلم تورجی نے بہت اہم کردار ادا کیاہے۔

اُن دونوں نے اپنی پوری زندگی تحقیق کے لئے وقف کی ہوئی ہے اور وہ اِس سے پہلے بھی ایک منصوبے پر کام کر رہے تھے جس کا مقصد کینسر کے خلاف مدافعتی نظام کو بہتر بنانا ہے لیکن بہت جلد یہ حقیقت سامنے آگئی کہ ڈاکٹر شاہین اوگر اور اُن کی بیوی انتہا پسند مذہبی نہیں ہیں اور پھر وہ اپنے وطن ترکی سے 4سال کی عمر میں ہجرت کرکے جرمنی آئے اور اِسی علم دوست معاشرے میں تعلیم حاصل کرکے اِس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

اِس تناظر میں کفار سے اِس ویکسین کی تیاری کا کریڈٹ چھیننا آسان نہ تھا چنانچہ ہمارے سقراطوں اور بقراطوں نے اِس ویکسین کو عالمی سازش قرار دیتے ہوئے اُس کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

نوع انسانی کیلئے ہماری خدمات محض ایسی سازشی تھیوریاں تراشنے اور اُنہیں پھیلانے تک محدود نہیں بلکہ مشہور شخصیات کے قبولِ اسلام کی جھوٹی خبریں پھیلانا، قابلِ ذکر افراد سے جھوٹے اور من گھڑت اقوال منسوب کرنا اور اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے دروغ گوئی پر مبنی واقعات گھڑنا بھی ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ چاند پر قدم رکھنے والا پہلا انسان نیل آرمسٹرانگ تو آپ کو یاد ہوگا۔

ہم نے جذبہ ایمانی کے تحت مشہور کردیا کہ جب وہ مصر کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھا تو اذان کی آواز سن کر پریشان ہوگیا۔

میزبانوں کے دریافت کرنے پر اُس نے بتایا کہ میں نے ایسی ہی آواز چاند پر سنی تھی، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں زمین پر ہوں یا چاند پر۔ نیل آرمسٹرانگ کے قبولِ اسلام کی جھوٹی خبر بھی پھیلائی گئی مگر آخر کار یہ دونوں باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ کورونا بیشک خطرناک ہوگا لیکن ہمارے ہاں وبائی مرض کی طرح سرایت کر جانے والا یہ مرض کہیں زیادہ مہلک ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اِس بیماری کی ویکسین ہم خود تو دریافت کریں گے نہیں، اگر کسی کافر نے کوشش کی تو ہم کوئی سازشی تھیوری گھڑ کر اُسے ناکام بنا دیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے