حقوق والدین یا حق ملکیت

اسلام میں والدین کےاحترام ، خدمت اور فرماں برداری کے حوالے سے واضح تعلیمات ہیں۔ ان سے کسی کو انکار نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ والدین نہ صرف اولاد کو دنیا میں لانے کا سبب ہیں ، بلکہ ان کی پرورش اور تربیت کے ذمہ دار بھی ہیں جسے وہ اپنی استطاعت سے بڑھ کر نبھاتے ہیں۔

یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ اکثر والدین بہت سے ایسے کام بھی کر جاتے ہیں جو ان کی ذمہ داری کی حدود سے متجاوز ہوتے ہیں۔ جس کا سبب اولاد سے ان کی بے پناہ محبت ہے۔ میرا احساس ہے کہ والدین کو رک کر اپنی ذمہ داریوں کے حدود کا جائزہ لینا چاہیے۔ اور جاننا چاہیے کہ خالق نے انھیں جو ذمہ داری دی ہے، کیا اس کا دائرہ محدود ہے یا لا محدود؟

یہاں، مجھے یہ بھی واضح کرنے کی اجازت دیں کہ خود خالق نے جو انسان کو تخلیق کیا ہے، اس کی نوعیت کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مادی اور نفسانی وجود بنایا ہے۔ جس کی مادی اور نفسانی ضرورتیں اور خواہشیں ہیں۔ اور اسی لیے اسے سوچنے سمجھنے ، تجزیہ کرنے ، تجربات کرنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت اور آزادی عطا فرمائی ہے۔ جب ہمارے ہی جیسے جیتے جاگتے انسان ، اولاد کی شکل میں ہم سے وابستہ ہوتے ہیں، تو ہم اپنے محبت کے دائرے کی وجہ سے انھیں اپنی استطاعت سے بڑھ کر فائدہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، حتیٰ کہ اسی فائدے کا دائرہ بڑھاتے ہوئے ان کےفیصلے بھی از خود کرنے لگتے ہیں۔

میرا یہ ماننا ہے کہ ایسا کرنا خدائی اسکیم کے خلاف ہے۔ خدائی اسکیم کے مطابق ہم اس دنیا میں کچھ وقت گزار کر کے واپس اللہ کے حضور پیش ہوں گے ، اور جو کچھ ہم نے اس دنیا میں کیا اس کےمطابق جزا یا سزا پائیں گے۔ ایسے میں اسکیم کا حصہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر فرد اپنے معاملے کا ذمہ دار خود ہو، نہ کہ دوسرے حتیٰ کہ اس کے والدین بھی نہیں۔ لہٰذا، اولاد کو ان کے فیصلوں میں پوری طرح آزادی ہونی چاہیے۔

اس پر کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ ایسا کہنا آسان ہےکہ والدین اولاد کو ان کی مرضی کی زندگی جینے دیں، لیکن عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ جب اولاد برے لوگوں میں بیٹھے؛ برے کام کرے؛ بے کار یا بے ہودہ نوکری یا کاروبار میں چلی جائے؛ کسی ’فراڈ‘ فرد کو پسند کر کے شادی کا ارادہ کرے؛ تو کیا والدین خاموشی سے تماشا دیکھیں ! یہ کہہ کر ایک سائیڈ پر ہو جائیں کہ ہم کیا کریں ان کی زندگی ہے ، اچھا ہو گیا تو ٹھیک ہے ورنہ خود نقصان اٹھائیں گے! ماں باپ کے لیے ایسا رویہ اختیار کرنا تو دور کی بات ہے، وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔

اس اعتراض کے باوجود میرا اصرار یہی ہے کہ والدین ایک بار رک کرخالق نے جو ذمہ داری اولاد کے حوالے سے دی ہے، اس کے دائرے کو سمجھیں۔ وہ دائرہ یہ ہے کہ والدین بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ اس وقت تک تربیت کے ذمہ دار ہیں، جب تک کہ وہ شعور کی عمر کو نہیں پہنچ جاتے۔ اسی عرصے میں والدین نے ان کی تربیت کرنی ہے۔ تربیت میں یہ شامل ہے کہ ان کو نہ صرف اچھا برا بتائیں، بلکہ اچھے اور برے کے بارے میں خود ان سے فیصلےکرائیں۔بچہ چونکہ فطرت صالحہ پر پیدا ہوتا ہے اس لیے وہ جلد اس قابل ہو جائے گا کہ سمجھ سکے، اچھا کیا ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے، اور برا کیا ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے؟

یہ بھی تربیت کا حصہ ہے کہ اسے یہ سکھائیں کہ فیصلے کن بنیادوں پر کیے جانے چاہییں۔ غلط فیصلوں کی صورت میں اپنی غلطی کا اعتراف اور اس کی اصلاح کیسے کرنی ہے، یہ بھی اسی عمر میں سیکھنے کی چیز ہے۔ اس تربیت کا ایک مزید پہلو یہ بھی ہے کہ خود والدین بھی یہ سوچ سکیں گے کہ وہ اپنے بچے کو کس طرح کا انسان بنانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایک المیہ ہے کہ اکثر والدین یہ دیکھے بغیر کہ بچہ کیا صلاحیت لے کر پیدا ہوا ہے، وہ اپنی محرومیوں یا خواہشوں کو اپنے بچوں کے ذریعے سے پورا کرنا چاہیے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے