گلوکارہ میشا شفیع کو سُپریم کورٹ میں اہم کامیابی

کل دوپہر معروف گلوکارہ میشا شفیع کا ٹویٹ دیکھا کہ اُن کے کیس کی سماعت سُپریم کورٹ میں مُقرر ہوگئی ہے، تو وکیل اور خاتون سماجی کارکن ایمان زینب مزاری کو میسج کرکے پوچھا کہ کِس بینچ کے سامنے کتنے بجے سماعت مُقرر ہوئی ہے۔ انہوں نے صُبح ساڑھے نو بجے بینچ نمبر دو کا بتایا۔

آج صُبح صُبح سات پینتالیس پر جاگا اور تیار ہوکر سُپریم کورٹ نکل گیا۔ یہ مُقدمہ پاکستان کی خواتین کی طرح میرے لیے بھی اہم ہے کیونکہ یہی مُقدمہ پاکستانی خواتین کی یا تو حوصلہ افزائی کرے گا یا حوصلہ شِکنی کہ اگر اُنکو کوئی ساتھی ملازم یا سینیر یا باس یا کسی بھی عوامی مُقام پر کوئی مرد اگر کسی بھی انداز میں ہراساں کرے یا اُنکی طرف غیر معمولی پیش قدمی کرے تو اُنکے پاس اپنی عزت اور خودمُختاری کے تحفظ کے لیے فورم موجود ہیں یا اُنہیں اِس اگر مگر کا شکار ہونا چاہیے کہ یہ مُقام یا دفتر یا ہراساں کرنے کا طریقہ کار پاکستان میں موجود جنسی ہراسانی کے قانون کے دائرہ میں نہیں آتا تو وہ کس فورم سے رجوع کریں۔ یہ مُقدمہ دراصل میشا شفیع اور علی ظفر کے مابین نہیں ہے بلکہ کسی جنسی تفریق سے بالاتر ہو کر ایک پاکستانی شہری کو اُس کے حقوق بھی بتائے گا کہ وہ کیسے اپنا تحفظ کرسکتا ہے اور کِن قانونی فورمز سے رجوع کرسکتا ہے۔ میشا شفیع نے دراصل سُپریم کورٹ میں وفاقی مُحتسب کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے ،جنہوں نے تیکنیکی بُنیادوں پر میشا شفیع کے علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کے مُقدمہ کو سُننے سے انکار کردیا تھا۔

نوبجکر پندرہ منٹ پر سُپریم کورٹ پہنچا تو ایمان زینب حاضر مزاری کورٹ روم نمبر دو کے باہر کھڑی کسی کا انتظار کررہی تھیں۔ اُن سے پوچھا کہ کیا اُمید ہے تو انہوں نے جواب دیا اتنا اپنے کیس کے لیے پریشان نہیں ہوتی جتنا آج میشا شفیع کے کیس کو لے کر خود پر دباؤ محسوس کررہی ہوں۔ بہرحال موبائل فونز اور اپنے یوٹیوب چینل اسد طور ان سنسرڈ کی ریکارڈنگ کے دیگر آلات کورٹ روم نمبر ٹو کے باہر پولیس اہلکاروں کو جمع کرواتے ہوئے کمرہِ عدالت میں داخل ہوا تو نو بجکر بیس منٹ ہورہے تھے۔

دوسرے صحافی دور بھی آہستہ آہستہ کمرہِ عدالت پہنچنے لگے۔ اے آر وائے کے صحافی حسن ایوب نے کمر تھپکی اور قریب ہی نشست پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں مطیع اللہ جان اور مُحسن اعجاز بھی آگئے۔ نوبجکر تینتیس منٹ پر کورٹ آگئی کی آواز لگی تو تینوں ججز کمرہِ عدالت میں داخل ہوئے اور بینچ کے سربراہ جسٹس مُشیر عالم پہلے درمیان میں جبکہ سنیارٹی کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر موجود جسٹس سردار طارق مسعود دائیں اور سنیارٹی میں سب سے آخری نمبر پر موجود جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بایں طرف بیٹھ گئے۔ دو کیسز کی مُختصر سماعت کے بعد نو بجکر سینتیس منٹ پر میشا شفیع کے مُقدمہ کی باری آئی تو میشا شفیع کے وکیل خواجہ احمد حُسین وُکلا کے لیے مُختص روسٹرم پر آگئے۔

انہوں نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے جیسے ہی کہا کہ ہم خواتین کی ہراسمنٹ سے متعلقہ قانون پر ایک قانونی سوال پر دلائل دینا چاہیں گے تو تین رُکنی بینچ کے سربراہ جسٹس مُشیر عالم نے اُنہیں روک کر بتایا کہ ہم نے فائل پڑھی ہے اور یہ کیس دو سوالات کا ہے ایک کام کے مُقام یعنی دفتر اور دوسرا باس اور ملازم کے تعلق کا۔ جسٹس مُشیر عالم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سوال اُٹھایا کہ آپ (میشا شفیع کے وکیل خواجہ احمد حُسین) ہمیں سمجھائیں وہ جگہ کیا دفتر تھی اور کیا علی ظفر اور میشا شفیع میں باس اور ملازم کا تعلق تھا یا کولیگ کا تعلق؟ اِس موقع پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے آبزرویشن دی کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ صرف ایک نُکتہ کے گرد گھوم رہا ہے کہ میشا شفیع علی ظفر کی مُلازم نہیں تھیں۔

میشا شفیع کے وکیل احمد حُسین نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا کہ لاہور ہائیکورٹ کی فاینڈنگ غلط تھی۔ بیرسٹر خواجہ احمد حُسین نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ملازم اور مالک کے تعلق پر ایک کتابچہ بھی تیار کیا ہے جو وہ معزز ججز کو دینا چاہتے ہیں تاکہ اُنکی بات کی وضاحت ہوسکے۔ اِس پر بینچ کے سربراہ جسٹس مُشیر عالم نے میشا شفیع کے وکیل کو ہدایت کی کہ یہ ایک دِن کے لیے قایم کیا بینچ ہے اور بہتر ہوگا وہ اپنے دلائل کو محدود رکھتے ہوئے ججز کو اِس دلیل پر آمادہ کریں کہ جہاں میشا شفیع کے ساتھ واقعہ پیش آیا وہ کیسے انسدادِ ہراسمنٹ قانون کے تحت دفتر شُمار کیا جاسکتا ہے اور علی ظفر اور میشا شفیع میں باس اور ملازم کا تعلق ثابت کیا جاسکتا ہے۔ میشا شفیع کے وکیل نے بینچ کے روبرو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ پر حیرت کا اظہار کیا کہ کیا اگر عورت اور مرد میں مالک اور ملازم کا تعلق نہیں تو کیا ہراسمنٹ کا قانون عورت کو ہراساں ہونے سے تحفظ نہیں دیتا؟

اِس کے بعد بیرسٹر احمد حُسین نےانتہائی مدلل انداز میں دفاتر میں انسدادِ جنسی ہراسانی قانون کی شقوں میں بیان کردہ اصطلاحات کی تشریح کی۔ سب سے پہلے انہوں نے شکایت کُنندہ کی تعریف پڑھ کر سُنائی کہ شکایت کُنندہ سے مُراد وہ عورت یا مرد ہے جو وفاقی محتسب کے سامنے اپنے ساتھ پیش آنے والی ہراسانی کی شکایت کرے۔ بیرسٹر خواجہ احمد حُسین کا اِس موقع پر کہنا تھا کہ یہاں پر کہیں نہیں لِکھا کہ وہ مالک اور ملازم کا ایسا تعلق ہو کہ ملازم کنٹریکٹ پر یا مُستقبل پر ہو بلکہ اگر کسی کی خدمات ایک گھنٹے کے لیے بھی درکار ہوں تو اُس کے ساتھ بھی اگر کام دینے کے بدلے کویی جنسی رشتہ قایم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جائے یا پیش قدمی کی جائے تو وہ شکایت درج کروا سکتا ہے۔ اِس کے بعد میشا شفیع کے وکیل نے آجر یعنی کے نوکری دینے والے کی تعریف بھی بیان کی اور بتایا کہ کویی بھی ایسا شخص جو انتظامی پوزیشن پر ہو یا کنٹرولنگ پوزیشن پر ہو اور احکامات دے سکتا ہو وہ باس یا مالک کہلائے گا۔ پھر میشا شفیع کے وکیل نے لفظ ہراسمنٹ کی تشریح بیان کی اور بتایا کہ اگر ایک شخص کسی کی طرف بغیر اجازت پیش قدمی کرے یا بلا اجازت چھوئے یا جسمانی تعلق قایم کرنے کی کوشش کرے یا خواہش کا اظہار کرے اور ایسی خواہش کو مسترد کرنے یا مزاحمت کرنے پر سزا دے یا دھمکائے تو وہ جنسی ہراسانی میں شُمار ہوگا۔ جبکہ لفظ دفتر کی وضاحت کرتے ہوئے میشا شفیع کا کہنا تھا کہ یہ کوئی بھی بند عمارت، کمرے یا کُھلے میدان یا آڈیٹوریم کا مُقام ہوسکتا ہے جہاں لوگ کام کے سلسلے میں جمع ہوں۔

اِس کے بعد بیرسٹر خواجہ احمد حُسین نے ججز کو ایک انتہائی اہم دلیل دی اور سوال اُٹھایا کہ تعلیمی اداروں میں عموماً اساتذہ کے خلاف طالبعلم جنسی ہراسانی کی جو شکایات درج کرواتے ہیں اُس میں طالبعلم اور اُستاد میں ملازم اور باس کا رشتہ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ شکایت سُنی جاتی ہے تو اگر یہاں بھی دو لوگ بیشک اُستاد اور طالبعلم نہ بھی ہوں تو وہ اگر ایک مُقام پر ساتھ کام کے سلسلے میں اکٹھے ہوئے تھے اور ایسا کویی واقعہ پیش آیا تو وہ بھی اِسی انسدادِ جنسی ہراسانی قانون کے تحت دیکھا جانا چاہیے۔ تین رُکنی بینچ کے سربراہ جسٹس مُشیر عالم نے آبزرویشن دی کہ وہ بھی ہراسمنٹ میں شُمار ہوگا اگر کوئی ملازمت دینے کے بدلے میں جنسی خواہش پوری کرنے کو کہے گا۔ میشا شفیع کے وکیل کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ میں طے کردہ معیار کے مُطابق تو صرف اگر آپ کا باس آپ کو جنسی خواہشات پوری نہ کرنے کے بدلے میں مُلازمت سے برطرف کرنے کی دھمکی دے یا ایسا کردے تو آپ شکایت درج کروا سکتے اور اِس کے لیے دس سے پندرہ دِن میں عدالت سے رجوع کرنا ہوگا۔

سُریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان کے بعد سنیارٹی لِسٹ میں دوسرے نمبر پر موجود جسٹس مُشیر عالم جو ایک مذہبی لیکن جدید ٹیکنالوجی کی بہترین سمجھ بوجھ رکھنے والے جج مانے جاتے ہیں، اب انہوں نے سوال پوچھا کہ اگر دو لوگوں میں باس اور ملازم کا رشتہ نہ ہو لیکن وہ کو ورکر ہوں یعنی کہ ساتھی ملازم اور اُن میں سے ایک دوسرے پر ہراسانی کا الزام لگائے تو اُس کو اِس قانون کے تحت کیسے دیکھا جائے گا؟ میشا شفیع کے وکیل نے جواب دیا کہ اُس کو دفتر کے ماحول میں شُمار کیا جائے گا کہ دفتر میں کام میں مساوات اور عزت سے کام کرنے والا ماحول نہیں۔ میشا شفیع کے وکیل کے دلائل سے ججز کو مُطمعن ہوتا دیکھ کر گلوکار علی ظفر کے وکیل نے کھڑے ہوکر سوال اُٹھایا کہ آپ اِن کے الزامات دیکھیں جو علی ظفر پر لگائے گیے اور کِس انداز میں لگائے گیے؟

علی ظفر کا وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ایک عَلمی بحث نہیں بلکہ سنگین الزامات کا مُقدمہ ہے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس مُشیر عالم اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی دونوں نے جواب دیا کہ ہم کیس کے میرٹس پر نہیں جا رہے نہ ہی الزامات کی نوعیت پر مُقدمہ کی سماعت کررہے ہیں ہم صرف ایک تکنیکی نُقطہ طے کرنے بیٹھے ہیں کہ آیا اِن الزامات کو کِس فورم پر سُنا جاسکتا ہے اور انسدادِ جنسی ہراسانی قانون کا دائرہ کار کہاں تک ہے اور اُسے کون سے مُتاثرہ فریق استعمال کرسکتے ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا اِس موقع پر علی ظفر کے وکیل کو کہنا تھا کہ ہمارے سامنے سوال ایک قانون کے استعمال اور تشریح کا ہے الزامات کا مُقدمہ نہیں ہے۔

اِس کے بعد عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آرڈر لِکھوایا کہ اب عدالت اگلی سماعتوں میں فریقین کو سُن کر تفصیلی فیصلہ دے گی کہ اِنسدادِ جنسی ہراسانی قانون کا دائرہ کار کیا ہے اور اِس کا استعمال کون کر سکتا۔

یہ میشا شفیع کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ اب وہ کم از کم پاکستان میں مُختلف شعبوں اور مُختلف پوزیشن میں کام کرنے والی خواتین چاہے وہ گاؤں میں کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین ہوں یا کسی کنٹریکٹ کے بغیر فری لانس کام کرنے والی خواتین ہوں اُن کے لیے اِس قانون کا دائرہ کار طے کروانے کی پوزیشن میں ہیں کہ اگر اُنکو کوئی ہراساں کرتا ہے تو وہ کِس فورم سے رجوع کریں اور کونسا فورم اُنہیں انصاف دینے کا پابند ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے