یادداشت بخیر!محض پانچ سال اور کچھ ماہ قبل کی بات ہے۔ گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کو دوتہائی اکثریت ملی تھی۔ حافظ حفیظ الرحمن کی تاج پوشی بطور وزیراعلیٰ ہوچکی تھی، حافظ حفیظ الرحمن اب تک کے وزرائے اعلیٰ میں اس حوالے سے ضرور ممتاز رہیںگے کہ انہیں اسمبلی اور پارٹی سے غیر متزلزل حمایت حاصل رہی یہ الگ بات ہے کہ اس کو کس حد تک سیاسی طور پر ڈھالا گیا۔ 2015 کے جون سے مسلم لیگ ن کا سورج ابھرنا شروع ہوا ۔ یکم نومبر کو رسمی طور پر چنارباغ گلگت میں یادگار شہداءمیں حاضری دی۔ اس وقت عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما کامریڈ باباجان بے سمت قید تنہائی اور اسیری کی زندگی گزار رہے تھے، یادگار شہداءمیں ان قوم پرستوں کی اسیری کے سوال پر حافظ حفیظ الرحمن نے قوم پرستی کی ہی نفی کردی اور کہا کہ سب سے بڑا قوم پرست میں ہوں۔ پھر تو وقت کی بات ہے جو کسی کا نہیں رہتا ہے ۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان نے جب یہ کہا کہ قوم پرستوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹاجائیگا اور بھرپور سبق سکھائیںگے، تب حافظ حفیظ الرحمن کا وہ منظر دوبارہ گھوم کر سامنے آگیا۔ پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ قوم پرست کون ہیں؟ کیا وہی قوم پرست ہے جو علاقائی جماعت بناکر چند امور پر گفت و شنید تک محدود رہتاہے؟ اگر یہی تعریف ہے تو چند ہی نوجوان ہوںگے جنہیں سبق سکھانا آسان ہے اورماضی میں شاید سکھایا بھی گیا ہو مگر ان کا کیا قصور کہ حاکم وقت ان چند کو للکارتا ہو؟ اگر علاقائی جماعت بناکر سیاسی سرگرمیاں کرنا قوم پرستی ہے اور قابل جرم قوم پرستی ہے تو ان کا سرکردہ نواز خان ناجی اسمبلی میں ہے، ڈپٹی سپیکر نذیر احمد چند برس قبل تک قوم پرست تھے شاید اب نہ ہوں، غلام شہزاد آغا اب بھی سڑکوں پر چلتی عوام کو جمع کرکے خطاب کرتا ہے۔اگر قوم پرستی کی ایک اور متوقع تعریف دیکھیں تو یہی بنتی ہے کہ جو گلگت بلتستان کے لئے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ حقوق معاشی، سیاسی ، قانونی ، آئینی سمیت کسی بھی شکل میں ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ تعریف ہے تو ،بقول ترجمان وزیراعلیٰ امتیاز علی تاج ،خالد خورشید اپنی ٹیم کے ہمراہ اسلام آباد میں گلگت بلتستان کے لئے ایک تاریخی ترقی کے پیکج کا مقدمہ لڑرہے ہیں۔اس الجھن میں نجانے کیوں پھنسایا گیا کہ قوم پرستوں کو سبق سکھانا ہے۔ اگر روایتی سیاسی انتقام کے طور پر سابق وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کے لئے یہ الفاظ کہے گئے ہیں تو کم از کم سمجھ تو آئیگا۔
15 نومبر کو ہونے والے انتخابات سے لیکر آج دو ماہ کے بعد تک آہستہ آہستہ محسوس ہورہا ہے کہ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف نامی جماعت کو اقتدار مل چکا ہے۔ ہوتا تو یہ ہے کہ نئی حکومت آتی ہے تو اپنی ترجیحات سامنے رکھتی ہے ۔ طویل المدتی اور قلیل المدتی اقدامات اور منصوبوں کی پالیسی بناتی ہے ۔ ہر نئے شمارے میں ایسی کسی خبر کی تلاش ہوتی رہی مگر ایسا ہوا نہیں۔ اب تک بھی حکومت کی کسی حد تک اگر پالیسی سامنے آئی ہے تو وہ خالد خورشید کی اسمبلی میں کی گئی پہلی تقریر ہے مگر اس تقریر سے شاید جوڈیشل کمیشن کے الفاظ ہذف کردئے گئے ہیں ۔ انتخابات میں علاقائی مسائل کو سر پر لیکر ماضی کی حکومتوں پر تنقید کے نشتر برسانا تو اب بھی کوئی بڑی بات نہیں مگر عوام کے مشکلات کا احساس کرنا حکومت کے سر پر ایک زمہ داری ہے ۔ گلگت بلتستان کے عوام کو 18 گھنٹوں سے زائد لوڈشیڈنگ کے حوالے کرکے جس طرح پوری حکومت اسلام آباد میں جاکر مقیم ہوگئی ہے اس سے تو صاف ظاہر ہورہا ہے کہ احساس زمہ داری اب تک نہیں آئی ہے مگر کرسی ہے تو شاید کچھ مہینوں میں آہی جائے۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ اسلام آباد کے دفاتر میں پھنسی فائلوں کی یاد صرف نومبر سے لیکر فروری تک ہی آتی ہے۔ یہ بات انہونی اس لئے نہیں ہے کہ چیف سیکریٹری کے دفتر میں ایک حکومتی وزیر پیپلزپارٹی کے ایک رکن کا ہاتھ تھام کر دفتر میں داخل ہوتے ہوئے نظر آگئے تھے اور واپسی پر بھی ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔
گلگت بلتستان کے 24حلقوں کی عوام نے کن بنیادوں پر کس امیدوار کوو وٹ دیا ہے اور کس کو جتوایا ہے اس کے لئے ایک مفصل مضمون کی ضرورت ہے مگر یہ بات حتمی ہے کہ اکثریتی حلقوں میں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف ووٹ دیا گیا ہے اور ایسے حلقوں کی بھی تعداد کم نہیں ہے جہاں سے تحریک انصاف کو مایوس کردیا گیا ہے مگر ’مونچھوں ‘ پر تاﺅ لگانا لازمی تھا جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کے انتخاب میں حکومت سازی کے دوران تبدیلی کردی گئی ۔ یوں مسترد شدہ حلقوں میں بھی تحریک انصاف کی نمائندگی ہوگئی جسے عام الفاظ میں آزاد امیدوار کہتے ہیں جن کا انتخاب ا ب بھی ایک معمہ بناہوا ہے ۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے 2020 کے انتخابات پر 36 صفحات پر مبنی وائٹ پیپرجاری کردیا ہے ۔ ان 36 صفحات میں سے ابتدائی 7 صفحات پر کچھ اہم امور کی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر ہے ۔ مثلاً دوران انتخابات گندم کی تقسیم، حلقہ نمبر2 گلگت میں پوسٹل بیلٹ پیپرز کے گھپلے، الیکٹورل لسٹوں میں ردوبدل، ن لیگ کے حکومت کے اختیارات کو منجمد کرنے جیسے اہم امور کا زکر کیا گیا ہے اور ساتھ میں نگران حکومت کی تشکیل اور مسلم لیگ ن میں توڑ پھوڑ ، اور چیف الیکشن کمشنر پر عدم اعتماد جیسے امور کو بھی شامل کرکے صفحات میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ حافظ حفیظ الرحمن بھی اپنی پالیسی بطور وزیراعلیٰ گزشتہ سال کے شروع میں ہی دے چکے تھے کہ مہدی شاہ کی طرح وزیراعلیٰ رہنے کی بجائے استعفیٰ دیکر گھر چلاجاﺅںگا اور اپنے اختیارات میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کروںگا ۔مگر حافظ صاحب استعفیٰ نہیں دے سکے اور آخری دن تک دیکھتے رہے کہ کب ہمیں منصوبوں پر کام کی اجازت مل جائے اور۔۔ وائٹ پیپرکا اگلاحصہ شمس میر کے پریس ریلیزیعنی اخباری بیانات کے فوٹوکاپیز پر مشتمل ہے اور کم از کم 9 صفحات یعنی ایک چوتھائی حصہ بیانات کے فوٹوکاپیز پر مشتمل ہے جن میں سوائے اصلاحاتی تجاویز کے علاوہ کوئی قابل زکر شے نہیں ہے۔ حفیظ صاحب بھی اسی عطار کے لونڈے سے اب بھی دوا لیتے ہیں۔وائٹ پیپر کو کالا کرنے میں ایک حافظ حفیظ الرحمن کا خط اور ایک سابق وزیر قانون اورنگزیب ایڈوکیٹ کا خط بھی موجود ہے ۔
خالد خورشید اور اس کی ٹیم کی سستی یا اب تک کی عدم فعالیت سے قطع نظر اکثریتی حلقوں میں انتخابی دھاندلی نہیں ہوسکی ہے تاہم بے ضابطگیاں بہت ہوئی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان صاحب نے جب 2013سے چار حلقوں کا شوشہ چھوڑا تو اس کے نتائج بھی بے ضابطگیوں کی شکل میں آئے تھے ۔ گلگت بلتستان کے انتخابات میں بے ضابطگیوں کی سب سے بڑی مثال وزراء، وزیراعظم کے معاونین اور مشیروں کی انتخابی مہم میں حصہ لینا اور طرح طرح کے اعلانات کرنا ہے۔دھاندلی کے اعتبار سے شاید اب تک حلقہ 2گلگت کے علاوہ چند ایک حلقے ہی ہوںگے جہاں سے کمیشن بنانے کا مطالبہ یا پھر ٹریبونل کی جانب پیش قدمی کی جارہی ہے ۔ مگر اس عنصر پر حکومت کی خاموشی اور سست روی سوالات اٹھارہی ہے ۔اور اب تک واضح ہوچکا ہے کہ وفاق کی طرح گلگت بلتستان میں بھی اخباری بیانات اور دیگر چیزوں کے زریعے ہی حکومت حاصل کی گئی ہے ، گراﺅنڈ پر کوئی تیاری نظر نہیں آئی ہے ۔