بواو ایشیائی فورم میں بی آرآئی کے روشن مستقبل کی گونج

بیسویں صدی کے آخر میں عالمی سطح پر یہ کہنا شروع ہوگیاتھا کہ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی ہے ۔ جیسے جیسے اکیسویں صدی آگے بڑھ رہی ہے ایشیا کی اہمیت اور افادیت میں اضافہ ہورہاہے۔ بلاشبہ ایشیا میں مضبوط ممالک جیسے جاپان ، جنوبی کوریا ، سنگاپور، خلیجی ممالک اور آبادی کے لحا ظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بھارت اور ہمارا پیارا ملک پاکستان واقع ہے ۔ لیکن بلاشبہ ترقی اور مضبوطی کے لحاظ سے چین ایشیا کا دل ہے۔

بیسویں صدی تک ایشیا کی صلاحیتیوں کو بروئے کار نہیں لایا جارہاتھا خواہ وہ انسانی وسائل ہو یا قدرتی وسائل۔ تاہم بیسویں صدی کے آخر میں ایشیا نے ٹیک آف شروع کیا اور اب یہ ٹیک آف ایک ہموار پرواز کی شکل اختیار کرچکاہے ۔ رائٹرز کی پیش گوئی کے مطابق 2030 کی دہائی کے وسط تک ، ایشیا عالمی اقتصادی سرگرمی کا نصف سے زائد حصہ لے سکتا ہے۔ ۔ ایشیاء آج دنیا کا سب سے متحرک اور مواقع کا حامل خطہ ہے۔ جو تیزی سے ترقی کررہا ہے، تکنیکی جدت طرازی اس کی ترقی کا بنیادی راستہ ہے۔ ایشیائی مارکیٹ دنیا کے معاشی نظام میں لامحدود متحرک مارکیٹ اور صارف مارکیٹ بن چکی ہے۔گزشتہ بیس برس کے دوران ایشیا کی معاشی ترقی چین کے بغیر نامکمل نطر آتی ہے، چین کی معیشت کی تیزی رفتار ترقی، ایشیا کی ترقی کا انجن بن چکی ہے۔آج کا ایشیا ماضی سے بہت مختلف ہے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں عالمی معیشت میں ایشیا کا حصہ 30 فیصد سے کم تھا جو سن 2019 میں بڑھ کر 41 فیصد ہو چکا ہے۔ اسی طرح اس دوران ، دنیا میں ایشیا کے اثر و رسوخ اور آواز میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔

خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ایشیا مل کر ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی کوشش کررہاہے مل کر آگے بڑھنے کیلئے سب سے توانا آواز چین کی ہے اور سب سے ٹھوس کوششیں بھی چین کررہاہے ۔ آسیان ، شنگھائی تعاون تنظیم، بو آو ایشیائی فورم اور بی آر آئی اس کی جاندار مثالیں ہیں۔ بواو ایشیائی فورم ایشیا کو ساتھ چلنے کا ایک اہم موقع اور قوت فراہم کرتاہے۔

بواؤ دراصل جنوبی چین کا ایک چھوٹا شہر ہے لیکن ایشیاء کے سب سے بااثر معاشی فورم کے مستقل صدر مقام کی حیثیت سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ بواو فورم کی بنیاد ۱۹۹۸ میں رکھی گئی تھی ، ۲۰۰۱ میں اس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا اس طرح اس کو بیس سا ل ہوگئے ہیں۔ ان بیس سالوں میں اس فورم نے کئی اہم سنگ میل طے کیے ہیں اور بہت کامیابیان سمیٹی ہیں ۔ اس سال فورم کا سالانہ اجلاس 18 اپریل کو شروع ہوا۔ کانفرنس میں 60 سے زائد ممالک اور خطوں کے 2،600 سے زیادہ مہمانوں نے شرکت کی۔

فورم سے چینی صدر شی جن پھنگ کا خطاب انتہائی اہم تھا جس میں ایشیا کے مستقبل کے بارے میں اہم معروضات اور لائحہ عمل پیش کیاگیا ۔صدر شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی مشترکہ تعمیر کے لئے ایک نئے وژن کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ چین صحت کے تعاون ، رابطے ، سبز ترقی ، کھلے پن اور شمولیت کے لئے قریبی شراکت قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔انہوں نے چین کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ "ایک ہی فریق کی ملکیت والے نجی راستہ” کی بجائے بی آر آئی کو "ایک عوامی روڈ” بنائیں گے جو سب کے لئے کھلا ہے۔ .

انہوں نےتمام دلچسپی رکھنے والے ممالک کا بیلٹ اینڈ روڈ میں خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ آئیے سب اس سے فائدہ اٹھائیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ تعاون دراصل ترقی کاراستہ ہے ، اس کا مقصد باہمی فوائد اور امید کا پیغام ہے۔صدر شی جن پھنگ نے وسیع مشاورت ، مشترکہ شراکتوں اور مشترکہ فوائد کے اصولوں اور کھلے ، سبز اور شفاف تعاون کے فلسفہ کی فتح کے اصولوں کے تحت اعلی معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کے لئے چین کے وژن کی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد تعاون کو اعلی معیار ی، عوام مرکوز اور پائیدار بنانا ہے۔

چینی کاروباری اداروں نے پہلے ہی بی آر آئی میں شریک ممالک ، جیسے انڈونیشیا اور برازیل میں مشترکہ طورپر کوویڈ ۔19 ویکسین کی تیاری کا آغاز کیا ہے ، چین متعدی بیماریوں پر قابو پانے ، صحت عامہ ، روایتی ادویات اور دیگر شعبوں میں لوگوں کی صحت اور جانوں کے تحفظ کی خاطر مختلف ممالک کے ساتھ تعاون کو بڑھا ئے گا۔چین قریبی شراکت قائم کرنے کیلئے مختلف ممالک کےساتھ مل کر انفراسٹرکچر میں رابطے کو فروغ دینے ، قواعد و ضوابط میں بہتر یکجہتی پیدا کرنے ، تجارت اور سرمایہ کاری کے تعاون کے لامحدود چینلز کو یقینی بنانے اور سلک روڈ ای کامرس کو فعال طور پر ترقی دینے کے لئے کام کرے گا۔
سبز ترقی کو فروغ دینے کے لئے ، شی جن پھنگ نے سبز انفراسٹرکچر ، سبز توانائی اور سبز فنانس پر تعاون کو مضبوط کرنے ، اور بی آر آئی انٹرنیشنل گرین ڈویلپمنٹ اتحاد اور بیلٹ اینڈ روڈ ڈویلپمنٹ کے لئے گرین انویسٹمنٹ اصولوں کو بہتر بنانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

صدر شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں واضح کہا کہ چین بی آر آئی کو غربت کے خاتمے کے لئے ایک راستہ اور کشادگی اور شمولیت کے جذبے کے تحت ترقی کا راستہ بنانے کے لئے تیار ہے ، انہوں نے ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2030 تک بیلٹ اور روڈ منصوبوں سے پوری دنیا میں 7.6 ملین افراد کو انتہائی غربت اور بتیس ملین افراد کو درمیانے درجے کے غربت سے نجات مل سکتی ہے۔

صدر نے چین کی ایشیا اور اس سے آگے کی تمام اقوام سے یکجہتی ، عالمی حکمرانی کو مستحکم کرنے ، اور انسانیت کے مشترکہ مستقبل کے حامل ہم نصیب معاشرے کی پیروی کرنے کی اپیل کی بھی وضاحت کی۔انہوں نے کہا ، "انسانیت کو حکمرانی کے بڑھتے ہوئے خسارے ، اعتماد کے خسارے ، ترقیاتی خسارے اور امن خسارے کا سامنا ہے۔ عالمی سلامتی اور مشترکہ ترقی کے حصول کے لئے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

تاہم ، شی جن پھنگ نے واضح کیا کہ کثیر الجہت دنیا کی طرف رجحان میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے ، معاشی عالمگیریت میں نئی لچک دکھائی دے رہی ہے اور کثیرالجہتی کو برقرار رکھنے اور مواصلات اور رابطوں کو بڑھانے کے لئے زور دیا جارہا ہے۔

انہوں نے مشترکہ فوائد کے حامل مستقبل کی تعمیر کیلئے برابری کی بنیاد پر مشاورت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی امور کو وسیع مشاورت کے ذریعہ سنبھالنا چاہئے ، اور دنیا کا مستقبل تمام ممالک کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا ، "ہمیں ایک یا چند ممالک کے طے شدہ قوانین کو دوسر ے ممالک پر مسلط ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور نہ ہی بعض ممالک کی طرف سے یکطرفہ نظام کو پوری دنیا کی رفتار طے کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔

کووڈ۔۱۹ تناظر میں معاشی بحالی کی کلید کی حیثیت سے کشادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تجارت اور سرمایہ کاری کو لبرلائز اور سہولت کاری کو فروغ دینا ، علاقائی معاشی انضمام کو گہرا کرنا سپلائی صنعتی چین کو مضبوط کرتے ہوئے ، اعداد و شمار اور انسانی وسائل کے رابطوں کو بڑھانا چاہیے۔

صدر نے ویکسینوں کی تحقیق ، ترقی ، پیداوار اور تقسیم پر مضبوط بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں ان کی رسائی اور صلاحیت کو بڑھانا چاہیے۔

انہوں نے کہا ، "کوویڈ 19 وبائی بیماری نے دنیا بھر کے لوگوں پر واضح کر دیا ہے کہ سرد جنگ اور زیرو سم ذہنیت کو ترک کرنا ہوگا اور نئی سرد جنگ اور نظریاتی تصادم کی تمام صورتوں کی مخالفت کرنا ہوگی۔”

اگر چہ اس وقت پاکستان کئی اندرونی مسائل کا شکارہے لیکن ایشیا اور بی آرآئی کی سطح پر پا کستان سمیت ایشیا کے دوسرے ممالک کیلئے اہم مواقع موجود ہیں۔ بوا و ایشیائی فورم میں ایک مرتبہ پھر صدر شی جن پھنگ نے ان مواقع کی وضاحت کرتے ہوئے ایشیائی ممالک کو مشترکہ مفاد ،باہمی احترام اور جیت جیت تعاون کے تحت مل کر ساتھ چلنے کی دعوت دی ہے ۔ امید ہے چین ایشیا کے مستقبل اور ایشیائی عوام کی خوشحالی کیلئے اسی طرح خدمات سرانجام دیتا رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے