علما اور عملی سیاست

ایک عالم کو کیا کوئی سیاسی جماعت بنانی چاہیے؟

جب سے ملی امورمیں میری دلچسپی کا آغاز ہوا ہے‘یہ سوال میری نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوا۔میں نے جن مسائل پر سب سے زیادہ غور کیا‘ علما اورسیاست کا تعلق‘ ان میں سے ایک ہے۔مولانا وحید الدین خاں کے انتقال کے بعد‘ان کے بارے میں جو تعزیتی اور دوسرے مضامین لکھے گئے‘ اُن میں یہ سوال کسی نہ کسی زاویے سے زیرِ بحث رہا۔ ان میں بعض مضامین ایسے تھے‘جنہیں پڑھ کر طبیعت میں تکدر پیدا ہوا اورجن کی میں اہلِ مذہب سے توقع نہیں رکھتا تھا۔

کسی گمان سے گریز کرتے ہوئے‘ میں ان اسباب کی کھوج میں رہا جو ہمارے دلوں کو اتنا سخت کر دیتے ہیں کہ ہم بنیادی اخلاقیات کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔میں سوچتا رہا کہ دین کے نام پر ایسے ذہن کیسے پیدا ہوتے ہیں جوبظاہر حمیتِ دین میں ‘دین کے بنیادی مطالبات سے صرفِ نظر کو نہ صرف جائز بلکہ دین کا تقاضا سمجھ لیتے ہیں؟مجھے احساس ہوا کہ اس مسئلے کا تعلق اس بنیادی سوال سے ہے جو میں نے اس کالم کی ابتدا میں اٹھایا ہے۔

ایک مذہبی معاشرے میں جو کام دین کاعالم یاسکالر کر تا ہے‘وہی کام ایک غیر مذہبی سماج میں فلسفی اور سماجی علوم کا ماہرکرتا ہے۔یہ فرد اور معاشرے کی تعمیر کے لیے ایک نظامِ فکر اور راہِ عمل کاتعین کرتے ہیں۔یہ راستہ سماج کے تصورِ انسان کے تابع ہوتا ہے۔مذہب میں انسان خدا کا بندہ اور غلام ہے۔یہ غلامی تقاضا کرتی ہے کہ انسان اپنی مرضی کو اپنے پروردگار کی ماضی کے تابع کردے۔اس کا ظہور تہذیبی اور سماجی سطح پر بھی ہو۔تاہم‘مذہب ‘صرف ترغیب دلاتاہے‘ اس کا فیصلہ انسان پر چھوڑدیتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی غلامی کرناچاہتا ہے یااپنے رب کی۔

ترغیب کا یہ کام علما کرتے ہیں۔وہ انسانوں کے فکری اِشکالات کا ازالہ کرتے ہیں۔ان کی اخلاقی حس کو مخاطب کرتے ہیں۔وہ انہیں تذکیر کرتے ہیں۔خیر خواہی کے احساس کے ساتھ‘انہیں متوجہ کرتے ہیں۔علما کا مخاطب سارا سماج ہوتا ہے۔ہر طبقہ اورہرگروہ۔ہر جنس اور ہر نسل۔وہ اپنی بات کے ابلاغ میں کسی تعصب اور کسی امتیاز کو روا نہیں رکھتے۔گویا ‘علم اور دعوت‘دونوں سطحوں پر وہ تمام افراد اور معاشرے سے ہم کلام ہوتے ہیں۔

ایک سماج میں بہت سے علما ہوتے ہیں۔ان کے گرد‘ان کے متاثرین کا ایک طبقہ جمع ہوجا تا ہے۔وہ دین کے باب میں ان کو مرجعِ تقلید مان لیتا ہے۔ہماری روایت میں یہ کام فطری انداز میں ہوتا تھا۔متاثرین کے لیے کوئی تنظیم سازی ہوتی تھی نہ ارکان کے ریکارڈ کے لیے کوئی رجسٹر مرتب کیاجاتاتھا۔جس طرح استادکے گرد طالب علم جمع ہوتے ہیں‘اسی طرح ان علما کے شاگرد بھی ان کے حلقے میں شامل ہو جاتے تھے۔جو ان سے سیکھتا‘آگے بیان کرتا۔یوں فطری انداز میں ان کا حلقہ وسیع ہوتا چلا جا تا۔

علما میں اختلاف ہوتا تھا اور یہ بھی فطری ہے۔یہ بات البتہ سب پر واضح تھی کہ دوسرے حلقے کا مطلب یہ نہیں کہ بازار میں کوئی دوسری دکان کھل گئی ہے اور اب یہ گاہکوں کی تقسیم کا باعث بنے گی؛چنا نچہ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے بلکہ اپنے شاگردوں کو ان کے حلقے میں جانے کی ترغیب دیتے تھے۔ یہ ان بزرگوں کی برکت اور اخلاص کا ثمر ہے کہ ان کے نام پر مستقل مکاتبِ فکر وجود میں آنے کے باوجود‘سب کا احترام کیا جا تاہے۔لوگوں آج بھی اپنے مسلک کی ترجیح بیان کرتے ہیں مگر دوسرے آئمہ کا ذکر کرتے وقت امام ہی کا سابقہ استعمال کرتے ہیں۔

دورِ جدید میں‘ہم دیکھتے ہیں کہ بعض شخصیات اپنی غیر معمولی علمی وجاہت کے باوجود‘معاشرے میں متنازع شمار ہوتی ہیں۔ ان کے معاملے میں لوگوں میں وہ رویہ پیدا نہیں ہو تا جو مثال کے طور پرہمارے ہاں امام شافعیؒ یا امام احمد ابن حنبلؒ کے بارے میں پایا جاتا ہے‘باوجود اس لیے کہ اکثریت حنفی مسلک رکھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان علما نے سیاسی جماعتیں بنائیں جو اقتدارکی حریفانہ کشمکش میں فریق تھیں۔یوں سیاسی جماعتوں کی قیادت کی طرح‘ان علما کی حیثیت بھی متنازع ہوگئی۔

علمی اختلاف ہر صورت میں ہوگا۔اس میں لوگ افراط و تفریط کا مظاہرہ کریں گے۔کچھ کو فتویٰ بازی کی لت بھی لگی ہوتی ہے۔تاہم معاشرے کا عمومی رویہ‘ان علما کے بارے میں احترام ہی کا حامل ہو تا ہے۔یہ لازم نہیں کہ وہ ان سے اتفا ق کریں مگروہ دل سے علماکی علمی وجاہت کے معترف ہوتے ہیں۔اس کے برخلاف جن علما نے سیاسی جماعتیں بنائیں‘ان کا معاملہ یہ نہیں ہوتا۔

اس سے ایک دوسرا نقصان جو ایسے علما کو پہنچتا ہے‘وہ ان کے غالی معتقدین کی طرف سے ہوتا ہے۔وہ خیال کرتے ہیں کہ ایسے علما کے جملہ حقوق ان کی جماعت کے نام محفوظ ہیں‘لہٰذا کسی دوسرے کو کوئی حق نہیں کہ وہ ان کے ساتھ کسی قرب یا وابستگی کا اظہار کرے۔یوں ایسی شخصیات کی علمی خدمات سے معاشرہ بحیثیت مجموعی محروم رہتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی طرف سے ایسی علمی شخصیت کی کسی رائے یا موقف پر تنقید ہوتی ہے تو وہ ایسے خم ٹھونک کر میدان میں اترتے ہیں جیسے ان کی ذاتی جاگیر پر کوئی حملہ ہو گیا ہو۔ یوں ایک صحت مند علمی سرگرمی ایک تلخی میں بدل جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا یہ مقام تھا کہ وہ علمی وجاہت کے اعتبار سے صفِ اسلاف کے آدمی تھے۔ہمارا معاشرہ مگر ان کے کام سے اس طرح واقف نہ ہو سکا جس کے وہ مستحق تھے‘دنیا نے اگرچہ اس کاا عتراف کیا۔ میرے نزدیک اس کی وجہ ان کا جماعت بنانا اور سیاسی اقتدر کی کشمکش میں بطور حریف شریک ہونا ہے۔ ہم اگر ان کا موازنہ علامہ اقبال سے کریں تویہ بات زیادہ بہتر انداز میں سمجھی جا سکتی ہے۔

اقبال اس معاملے میں بالکل صحیح جگہ پر کھڑے تھے۔وہ کچھ عرصہ مسلم لیگ کی سیاست میں سرگرم ہوئے لیکن جلد ہی اس جگہ لوٹ آئے جوایک صاحبِ علم و فکر کا اصل مقام اور مسند تھی۔یوں ایک سیاسی موقف رکھنے کے باوجود‘وہ ان لوگوں میں بھی محترم شمار ہوتے تھے جو مسلم لیگ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔مولانا غلام رسول مہر سے شورش کاشمیری تک کتنے لوگ ہوں گے جو مولانا ابوالکلام آزاد سے عقیدت رکھتے تھے۔ان کے دلوں میں لیکن علامہ اقبال کے لیے بھی کم محبت نہیں تھی۔مہر صاحب تو علامہ کی مجالس میں مستقل بیٹھنے والوں میں سے تھے اور ان سے شخصی قرب رکھتے تھے۔

اسی طرح مولانا حسین احمد مدنی پرعلامہ اقبال نے تنقید کی اور مولانا مودودی نے بھی۔مولانا مدنی کے حلقے نے مولانا مودودی کی تنقید پر جس ردِ عمل کا اظہار کیا‘وہ علامہ صاحب کے حوالے سے نہیں ہواحالانکہ علامہ کی تنقید شدید تر تھی۔ یہی نہیں‘مولانا مدنی کے معتقد دونوں میں تطبیق پیدا کرتے نظر آئے۔اس کے برخلاف مولانا مودودی کے بارے میں یہ لوگ شمشیر برہنہ تھے اور ان کے خلاف مرتب فرد قراردادِ جرم میں وہ جریمے بھی شامل کر دیے گئے جن کا مولانا نے کبھی ارتکاب نہیں کیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں گروہ سیاسی حریف بھی تھے۔

مولانا وحید الدین خاں کی وفات پر‘چند ایسے تنقیدی مضامین سامنے آئے جن میں تلخی گھلی ہوئی تھے۔میرا احساس ہے کہ اس تلخی کی عمر زیادہ نہیں۔ عنقریب مولانا وحید الدین صرف علمی حوالے سے زیرِ بحث آئیں گے۔تائید اور تنقید کی اساس ان کی علمی آرا ہوں گی‘شخصیت نہیں۔اس کا سبب یہی ہے کہ انہوں نے کوئی سیاسی جماعت نہیں بنائی اور صرف وہی کام کیا جو ایک عالم کو کرنا چاہیے ۔یعنی انذار۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے