میں نے بہت کم ایسے مزاح نگار دیکھے ہیں جن کے وجود سے خوشی اور قہقہے پھوٹتے ہوں۔ نوخیز سراپا خوشی سے بھرپور ہے۔ آپ کو اس کی تحریر اور اس کے مزاج میں کمال کی ہم آہنگی نظر آئے گی۔جتنے قہقہے وہ اپنی تحریر سے برآمد کرتاہے اس سے کہیں زیادہ اُس کی محفل میں پھوٹتے رہتے ہیں۔گزشتہ تیس سال سے وہ مجھے اُستاد محترم کہتا ہے اور ہمیشہ عقیدت سے پیش آتا ہے۔
آپ اس سے محبت سے پیش آئیں، یہ جواب میں چار گنا محبت سے پیش آئے گا۔ اس کا یہ ملتانی پن اس کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اُسے ملتان سے محبت اور لاہور سے عشق ہے۔حال ہی میں اس کی دسویں کتاب’نسخہ ہائے مزاح‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اِس بار اِس کتاب کو لانے میں اُس نے آٹھ سال لگا دیے۔وجہ شاید یہ بھی تھی کہ اُس نے کتاب کو مزاح کے کڑے معیار سے گزارا اور سلیکشن پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔نوخیز کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ ہمیشہ ایک منفرد مگر عام سے موضوع کو منتخب کرتاہے اور پھر اپنے قلم کی جولانی سے اسے ایک بھرپور اور طاقتور میسج میں تبدیل کردیتاہے۔ یہ میسج کسی لیکچر یا نصیحت کی شکل میں قاری تک نہیں پہنچتابلکہ اسے پڑھتے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ تیرتی رہتی ہے اورکوئی بوجھل پن محسوس نہیں ہوتا۔نوخیز کو میں اپنے بیٹوں کی طرح پیار کرتا ہوں۔مجھے سب پتا ہے کہ اس نے زندگی میں کس قدر مشکلات دیکھی ہیں اوراذیت کے کن لمحات سے گزرا ہے۔ لاہور میں اس کا طویل عرصہ مغل پورہ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں اکیلے گزرا۔جون جولائی کی راتوں کوجب اُسے گرمی اور حبس کی وجہ سے نیند نہیں آتی تھی تو وہ اٹھ کر ریلوے لائن پر جابیٹھتا تھا۔وہ خود کہتا ہے کہ ایک وقت تھا جب میں سمجھتا تھا کہ وہ انسان دنیا کا خوش نصیب ترین انسان ہے جسے دوپہر کا کھانا مل جائے۔مجھے یہ بھی پتا ہے کہ اس نے ایک دن بھی ہار نہیں مانی اوراپنے قلم کو زنگ آلود نہیں ہونے دیا۔ آج وہ جس مقام پر ہے اس کے پیچھے آگ اور خون کی ایک سرنگ ہے جس میں سے وہ کامیابی سے گزر آیا ہے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اُس نے کبھی اپنا ماضی نہیں چھپایابلکہ ہمیشہ قہقہے لگاتے ہوئے بتاتا ہے کہ زندگی کی دوڑ میں شامل رہنے کے لئے اُس نے کیا کیا پاپڑ بیلے۔میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ خصوصاً ادب کی کسی صنف میں اپنا نام بنانے کے لئے کم ازکم بیس سال کا معیاری کام بہت ضروری ہے۔ لوگوں کے دلوں میں اترنا پڑتاہے، سامنے آئے بغیر اپنی تحریر سے قاری کو چونکانا ہوتاہے۔جو لوگ اس مشقت میں کامیاب ہوتے ہیں وہ کسی سہارے کے بغیر اپنا مقام پیدا کرلیتے ہیں۔آج گل نوخیزاختر اردو مزاح کا ایک معتبر نام ہے۔اُس کی تحریریں واٹس ایپ پر شیئر ہوتی ہیں، یوٹیوب اس کی وڈیوز سے بھری ہوئی ہے۔مختلف محافل مزاح میں پڑھے گئے اس کے بعض مضامین کورونا کے بعد سب سے زیادہ وائر ل ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ٹی وی چینلز والے اُس کے آگے پیچھے پھرتے نظر آتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود آج بھی آپ کو اُس کی ذات میں ایک عاجزی، انکساری اور رواداری نظر آئے گی۔خدا نے اسے وہ سب کچھ دیا جس کی اسے تمنا تھی، اس کے باوجود اس کے اندر تکبر کی ایک چنگاری تک نہیں بھڑکی۔وہ آج بھی ایک ہزار کا پٹرول خرچ کرکے اُسی حجام سے سو روپے میں بال کٹوانے جاتا ہے جس کے پاس پچیس سال پہلے جاتا تھا۔اُس کے دوستوں میں آج بھی وہ لوگ سرفہرست ہیں جو نہ شاعر ہیں، نہ ادیب، نہ صحافی اور نہ میڈیا سے کوئی واسطہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اُس کے مشکل وقت کے دوست ہیں۔
آخری اطلاعات آنے تک اُس کی کتاب ’نسخہ ہائے مزاح‘ کا پہلا ایڈیشن ایک ہفتے کے قلیل عرصے میں فروخت ہوچکا ہے۔قارئین کی جانب سے نوخیز اور مزاح کی اس پذیرائی پر اگر کوئی بہت زیادہ خوش ہے تو وہ میں ہوں۔اگر آپ نے یہ کتاب نہیں پڑھی تو ضرور پڑھئے۔نہ صرف یہ ڈپریشن کا بہترین علاج ہے بلکہ آپ کو لگے گا کہ آپ ایک دم سے ہلکے پھلکے ہوگئے ہیں۔میرا بہت دل تھا کہ کتاب سے کچھ اقتباسات بھی پیش کروں لیکن اس سے کتاب کا سارا مزا کرکرا ہوجائے گا۔ کتاب سے محبت کرنے والے جب اسے شروع کریں گے تو مجھے یقین ہے پھر اسی کے سحر میں گرفتار ہوکر رہ جائیں گے۔کتاب کا ٹائٹل البتہ میرے مزاج سے مختلف ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پر کیری کیچر نہ ہوتا تو بہتر تھا۔میں کوشش کرتا ہوں کہ کتابوں پر کالم نہ لکھوں کیونکہ اتنی کتابیں موصول ہوتی ہیں کہ اگر یہ سلسلہ جاری رکھوں تو پورا سال صرف کتابوں پر ہی کالم لکھنے پڑیں۔لیکن معاملہ مزاح کی معیاری کتاب کا ہو تو مجھے خود کو روکنا مشکل ہوجاتاہے۔نوخیز کو مزاح کے ساتھ ساتھ قاری کے مزاج کا بھی بخوبی اندازہ ہے لہٰذا اس کی تحریر کو سمجھنے کے لئے آپ کو ڈکشنری کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔ وہ عام، سہل اور رواں نثر لکھتاہے۔بنیادی طور پر وہ ایک کہانی کار ہے۔ اس کے بعض سنجیدہ کالم بلا کے شاندار ہیں۔ پنچ لائن کیا ہوتی ہے یہ آپ کو اس کے کالموں سے اندازہ ہوگیا ہوگا۔اُس کی ذات میں منافقت نہیں۔ خوشامد اُس کا مزاج نہیں،شدید محنت اور اپنی فیملی سے محبت اُس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔