انڈین جاسوس کا صوفی جنرل اسٹور!

ڈاکٹر فرید پراچہ سے میری پرانی یاد ﷲ ہے، جماعت اسلامی کے رہنمائوں میں سے ہیں مگر اس کے باوجود فنونِ لطیفہ سے ان کی کوئی دشمنی نہیں ہے چنانچہ ان سے جب کبھی ملاقات ہوتی ہے ماحول مسلسل خوشگوار رہتا ہے۔ حال ہی میں ان کی آپ بیتی ’’عمرِ رواں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ فرید پراچہ کی تحریر میں ادبی چاشنی وافر مقدار میں موجود ہے چنانچہ عمرِ رواں پڑھتے ہوئے خشک موضوعات بھی ترو تازہ ہو جاتے ہیں۔ ’’انڈین جاسوس کا صوفی جنرل اسٹور‘‘ والا باب پڑھتے ہوئے جہاں میں اندر سے کانپ اٹھا وہاں مجھے اس کے اور بھی بہت سے واقعات یاد آئے مگر اس سے پہلے ہم یہ خوفناک کہانی خود فرید پراچہ کی زبان سے سنتے ہیں۔ جیل کے ایک نمبردار لمبی داڑھی، سر پر ٹوپی، پٹے دار بال، آتے جاتے بڑے احترام سے ملتے، ہم بھی ان سے عقیدت و احترام سے ملتے۔ ایک دن جیل کے ایک دوسرے نمبردار نے کہا آپ ان سے ملتے ہیں، جانتے ہیں یہ کون ہیں؟ میں نے کہا زیادہ تو نہیں جانتا لیکن لگتا ہے کہ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ کہاں کی تبلیغی جماعت، پراچہ صاحب! یہ تو ہندو ہے۔

میں نے کہا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ بولا، آپ اس سے خود ہی پوچھ لیجئے گا! اگلے دن ہم نے صوفی صاحب کو اپنی بیرک میں بلایا اور ان سے دریافت کیا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ میں واقعی ہندو ہوں اور ہندوستان سے جاسوسی کے لئے پاکستان آیا تھا اور اب جاسوسی کے جرم میں سزا بھگت رہا ہوں۔ اس نے تفصیل بتائی کہ میں نے لاہور کے ایک پوش علاقے میں ہی جنرل اسٹور بنایا تھا جو صوفی جنرل اسٹور کے نام سے معروف تھا۔ اس جنرل اسٹور پر افسروں کی بیگمات سودا خریدنے آتی تھیں۔ میں نے صرف اپنے حسنِ اخلاق اور رعایتی قیمتوں سے ہی انہیں اپنا گرویدہ نہیں بنایا بلکہ فنِ پامسٹری اور علم جوتش کی وجہ سے گھروں تک رسائی بھی حاصل کرلی پھر نہایت حکمت سے معلومات بھی حاصل کرتا رہا۔ تصویریں اور نقشے بھی حاصل کئے اور اپنا جاسوسی نیٹ ورک خاموشی اور ہوشیاری سے چلاتا رہا۔ علاقے بھر میں صوفی صاحب کے نام سے معروف تھا اور سب میری عزت کرتے تھے۔ میں کبھی بھی نہ پکڑا جاتا اگر ایک اور جاسوس تمہارے اداروں کے ٹارچر کے ہاتھوں مجبور ہو کر میرا نام نہ لیتا۔

قارئین خود سوچیں کہ ہمیں کسی کی ظاہری وضع قطع پر جانا چاہئے اور مذہبی عقیدت میں اپنے پاک وطن کو خطرے میں ڈال دینا چاہئے۔ کچھ عرصہ پیشتر ’’را‘‘ کے ایک بڑے افسر نے اپنی یاد داشتوں میں بتایا کہ وہ بھی ایک دفعہ بطور جاسوس پاکستان آیا اور لاہور میں داتا گنج بخشؒ کے دربار میں گیا جہاں ہم نے ایک جاسوس پیش کیا ہوا تھا، اس جاسوس کی شہرت بہت پہنچے ہوئے بزرگوں کی تھی، اس کی داد رسی اس کی قبا، اس کا ’’نورانی‘‘ چہرہ زائرین کو اس کے قدموں میں لا بٹھاتا تھا۔ میں اس کے قریب گیا اور اپنی شناخت ظاہر نہ کی مگر وہ اپنے پیشہ وارانہ تجربے کی بدولت کچھ ہی دیر بعد سمجھ گیا، میں کون ہوں۔ وہ مجھے اپنے ساتھ داتا دربار سے ملحقہ گلیوں میں سے ہوتا ہوا اپنے گھر لے گیا اور بتایا کہ وہ ایک طویل عرصے سے یہاں ہے اور ضعیف العقیدہ افسروں کو اپنا کوئی ’’کرشمہ‘‘ دکھا کر اپنا مرید بنا لیتا اور پھر حساس معلومات انڈیا پہنچاتا رہا۔

اس انڈین جاسوس کے گھر میں جاسوسی کا پورا نیٹ ورک موجود تھا۔ ایک بار روزنامہ ’’مشرق‘‘ میں ایک انڈین جاسوس جو اپنی ڈیوٹی کا دورانیہ پورا کرکے انڈیا واپس چلا گیا تھا، کی آب بیتی شائع ہوئی جو کسی انڈین اخبار سے کاٹی گئی تھی۔ یہ کھلے عام لاہور کے حساس علاقوں میں پھرتا رہا اور پکڑا نہ جا سکا۔ میں جب پہلی دفعہ انڈیا زائرین کے ایک گروپ کے ساتھ گیا تھا اور مقصد حضرت مجدد الف ثانیؒ کے سالانہ عرس میں شرکت تھی ہم وہاں سخت سردی میں مزار سے ملحقہ حجروں میں زمین پر سوتے تھے۔ میرے حجرے میں ایک دن باریش اور لمبے بالوں والا ایک شخص آیا اور کہا میں شاعر ہوں اور عطاء الحق قاسمی صاحب کے دیدار کے لئے آیا ہوں، اس نے بہت عقیدت سے میرے ساتھ مصافحہ کیا اور کہا حضرت کہاں آپ اور کہاں میں، مگر شعرو ادب سے شغف رکھتا ہوں اور ٹوٹے پھوٹے شعر بھی کہتا ہوں، میری خواہش ہے کہ آپ کو اپنے چند اشعار سنائوں، میں نے ’’ارشاد‘‘ کہا اور اس کے ساتھ ہی ’’صوفی صاحب‘‘ نے بلا کے ترنم کے ساتھ نہایت تھرڈ کلاس اور بےوزن غزل سنانا شروع کر دی۔ اس رات سردی کی وجہ سے میری طبیعت کچھ خراب ہوئی اور میں کھانستے ہوئے حجرے سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ میرے حجرے کے دروازے کے باہر وہی شاعر صاحب عرسوں اور میلوں پر لگنے والے تندوروں میں سے ایک تندور پر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ مجھے ان کی سمجھ آ چکی تھی، مجھے شرارت سوجھی اور انہیں کاندھے سے ہلاتے ہوئے کہا ’’حضرت جاگتے رہئے، ڈیوٹی کے دوران سونا فرائض سے غفلت کے زمرے میں آتا ہے‘‘۔

مجھے اس سفر کی بہت سی کہانیاں یاد ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم پر مسلسل نظر رکھی جاتی تھی۔ جب یہ سفرنامہ ہندوستان میں شائع ہوا اور میں نے یہ سب واقعات اس میں درج کئے تو انڈین حکومت نے مجھے چار سال کے لئے ’’پرسونا نان گریٹا‘‘ قرار دے دیا اور انڈیا کے دروازے مجھ پر بند کر دیے گئے۔ اور آخر میں یہ کہ خدا کے لئے فرقہ وارانہ تصادم، علاقائی تعصبات پر مبنی جلائو گیرائو حتیٰ کہ حضور نبی کریمﷺ کے مقدس نام کو استعمال کرکے ذہنوں کو فساد پر آمادہ کرنے والوں سے ہشیار رہیں کہ پاکستان کے دشمن اسلام کے نام ہی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں!

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے