نئے رخ کی ضرورت

تحریک انصاف نے گلگت بلتستان میں حکومت سنبھالی اور آنکھیں کھولی تو بھنور میں تھی۔ کئی روز تک یہ واضح نہیں ہوا کہ ٹیم کی قیادت کون کرے گا۔ پھر جب قیادت کی نظریں خالد خورشید پر پڑی تو انہیں اس قدر بااختیار رکھا گیا کہ کابینہ کے چناؤ کا علم بھی نہیں تھا۔ غالباً حاجی گلبر خان تانگیر اور راجہ اعظم خان شگر کے علاوہ کوئی بھی ایسا رکن حکومتی ٹیم میں منتخب نہیں ہوا تھا جسے اس سے قبل اسمبلی دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ہو جس پر لامحالہ طور پر ناتجربہ کاری اور نظام کو سمجھنے کے لئے وقت کا بہانہ مل گیا۔ پھر جس طریقے سے پے درپے آفات نے گھیرنا شروع کردیا اس نے حکومت کو سنبھلنے بھی نہیں دیا۔ حکومت کے غیر منتخب اراکین کے چناؤ کے مرحلے میں بھی صورتحال ویسی ہی رہی جیسے منتخب اراکین کی رہی۔

تحریک انصاف آج اسی نظام کے تحت حکومت چلا رہی ہے جس نظام کے خلاف 2018میں زبردست احتجاج ہوا اور اس میں پاکستان تحریک انصاف بھی شانہ بشانہ تھی، بلکہ اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جی بی اسمبلی میں خطاب کے دوران تحریک انصاف کے اکلوتے رکن اسمبلی نے نہ صرف احتجاج کیا بلکہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ایک رکن کو لاٹھی بھی دے ماری، یہ بھی قدرت کا کرشمہ ہے کہ لاٹھی کھانے والے مذکورہ رکن انتخابات سے قبل تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اور اب غیر منتخب عہدوں میں سے کسی ایک کے لئے ہاٹ فیورٹ سمجھے جارہے ہیں۔ اس گھتی کا مقصد صرف اتنا ہے کہ تحریک انصاف کو اب بھی موجودہ نظام کی مکمل سمجھ نہیں ہے، آج بھی اگر ان سے صورتحال کا پوچھا جائے تو یقینا جواب نفی یا اثبات میں ہونے کی بجائے ساکن ہوگا۔ گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبے بنانے کے متعلق منظور کی گئی قرارداد اور اس منظورشدہ قرارداد کی گرد بھی اب بیٹھ چکی ہے اور کسی کونے میں بحث نہیں ہورہی ہے۔

اس ساری صورتحال میں یقینا حکومت کو وقت دینا اور ان کے اقدامات کا آغاز کرنے کا انتظار فطری تھا۔ گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران تحریک انصاف جس ایک نکاتی ایجنڈے کو لیکر چل رہی تھی وہ میگا مالیاتی پیکج تھا۔ صوبائی وزیر مالیات جاوید منوا نے میگا مالیاتی منصوبے یا پیکج کو اپنا تکیہ کلام بنالیا۔ اس صورتحال کا اثر یوں ہوا کہ بنیادی ضروریات اور سہولیات پر حکومت کی توجہ نہیں رہی۔ یوں بھی رواں مالی سال کا بجٹ تحریک انصاف کا پیش کردہ بھی نہیں اور منظور کردہ بھی نہیں ہے۔ اس دورانیہ میں گلگت بلتستان میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے چیلجز سامنے آتے رہے، امن و امان کی صورتحال بھی سر پر کھڑی رہی، احتجاجی مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔ حکومتی کابینہ میں فتح اللہ خان، جاوید منوا، مشیر قانون سہیل عباس نے ثابت کردیا کہ وہ واقعی حکومت میں ہیں اور زمہ داریوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ ڈپٹی سپیکر نذیر احمد کے علاوہ معاون خصوصی الیاس صدیقی بھی ہر لمحے سامنے رہے اور معاملات کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

گلگت بلتستان کے نظام کو سمجھنے اور معاملات کو آگے بڑھانے کے لئے 6مہینے کا عرصہ شاید بہت ہے۔ اب حکومت کے پاس مزید ناتجربہ کاری کا بہانہ نہیں ہونا چاہئے۔ امن و امان کے معاملات ان 6 مہینوں میں جس نہج پر رہے ہیں اتنے ماضی میں سخت ترین فرقہ وارانہ کشیدگی کے دوران بھی نہیں رہے، لیکن اللہ کا فضل ہوا کہ انسانی جانوں کے ضیاع کا وہ سلسلہ رک ہی گیا جو ماضی میں ہوتا تھا۔ گلگت بلتستان کے شہریوں نے سوشل میڈیا کے زریعے جس طرح فرقہ واریت کی آگے کو روکنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے یہ اب اظہر من الشمس ہے۔ اب یقینا نئے رخ کی طرف جانے کی ضرورت پیش آگئی ہے جہاں پر ماضی کے واقعات پر ہر شخص اپنے آپ سے اور مدمقابل سے معافی مانگ کر پر امن گلگت بلتستان کے لئے جدوجہد کرے۔

خالد خورشید کی سربراہی میں بننے والی حکومت نے پہلا معرکہ اس وقت مار لیا جب وزیراعظم پاکستان سے گلگت بلتستان کے لئے 370ارب روپے کا بھاری مالیاتی پیکج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ایک طرف ملک بھر میں معاشی مسائل سنگین ہیں اور بہتری کی نوید سنائی نہیں دے رہی ہے وہی پر گلگت بلتستان کے لئے 370ارب روپے کے اعلان کو سچ اور حقیقت ثابت کرنا آسان بات نہیں تھی۔ وزیراعلیٰ خالد خورشید کی قابلیت کا اعتراف ضرور ہوا کہ جب بھی کسی فورم میں کسی بھی مسئلے کو لیکر گئے جامع دلائل کے ساتھ گئے اور اپنا مدعا سنانے اور منظور کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت کے دور میں تعمیر و ترقی پر توجہ دینے کا سلسلہ شروع ہوا کیونکہ پیپلزپارٹی کی 2009میں بننے والی حکومت اس پر زیادہ توجہ نہیں دے سکی تھی جس کے متعدد اسباب ہیں جن پر گفتگو مقصود نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے دور سکردوروڈ، کینسر ہسپتال، کارڈیاک ہسپتال، سڑکوں کی تعمیر، ہسپتالوں سکولوں کی تعمیر کا نیا سلسلہ شروع ہوگیااور حکومت سنبھالنے کے بعد انہوں نے 100ارب کے پیکج کا اعلان کردیا تھا جس میں سے اکثریتی نعرے ثابت ہوگئے لیکن محض ایک سال کے اندر خالد خورشید حکومت ان کہانیوں کو عوام کے زہنوں سے نکالنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔۔ ان پانچ مہینوں کے دوران ایکنک اور سی ڈی ڈبلیو پی سے منظور ہونے والے منصوبوں کی مجموعی لاگت حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 122ارب سے زیادہ ہے۔ایکنک اور سی ڈی ڈبلیو پی سے منظور ہونے والوں بڑے منصوبوں میں ہینزل پاور پراجیکٹ، گلگت غذر روڈ، تانگیر ویلی روڈ،استور ویلی روڈ، غواڑی 30میگاواٹ پاورپراجیکٹ، شاہراہ نگر، میڈیکل اور نرسنگ کالج کا قیام،سمیت دیگر شامل ہیں جبکہ متعدد منصوبے فورمز پر پیش ہونے کے مراحل میں ہیں۔

گلگت بلتستان میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ میں بھی ریکارڈ اضافہ کردیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ کو 25ارب (غیر حتمی)تک لے جانے جبکہ غیر ترقیاتی بجٹ کو 47ارب تک لیکر جانے کو اچھا اقدام ہی نہیں بلکہ کارنامہ سمجھنا ہوگا، گزشتہ پانچ سالوں کے دوران گندم سبسڈی کی قیمت ساکن رہی اور ایک روپیہ کا اس میں اضافہ نہیں ہوسکا لیکن تحریک انصاف پہلے بجٹ سے قبل ہی دو ارب سے زائد اضافی رقم گندم سبسڈی کی مد میں لینے میں کامیاب ہوگئی ہے یوں گمان پیدا ہوتا ہے کہ رواں مالی سال میں مجموعی طور پر پیش ہونے والا بجٹ کا تخمینہ 150 ارب تک پہنچ جائے گا۔

ترقیاتی و غیر ترقیاتی بجٹ میں اضافہ، منصوبوں کی منظوری اور دیگر معاملات کو ایک طرف رکھیں تو تحریک انصاف کی حکومت جون کے بعد سے شروع ہوگی۔ اب تک تحریک انصاف کے کارکن بھی بے چینی کی زندگی گزارر ہے ہیں، غیر حکومتی اراکین کا معاملہ حکومت اور کارکنوں کے درمیان رسہ کشی کا سبب بنے گا۔ بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدامات اور اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ صرف بجٹ میں اضافہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ بجٹ کو کماحقہ خرچ کرنا، بدعنوانیوں کی نذر ہونے سے بچانا، حقدار تک پہنچانا، اور بیمار منصوبوں کے اسباب کو ختم کرنا بھی انتہائی ا ہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ نئی حکومتوں کے قیام کے ساتھ بجٹ میں اضافہ یا پیکج کا اعلان پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ 1994سے جاری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے