شہباز شریف اور سیاست کا سراب

شہباز شریف سراب کو دریا سمجھتے ہیں۔ سال ڈیڑھ پہلے اسی کالم میں توجہ دلائی تھی کہ جس نظام میں نواز شریف کے لیے کوئی جگہ نہیں، اس میں شہباز شریف کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں۔ الا یہ کہ وہ کھلی بغاوت پر اتر آئیں۔ عرفِ عام میں ‘ن‘ سے ‘ش‘ نکل آئے۔

برسوں کی روایت کے برخلاف، قومی اسمبلی میں وہ تقریر نہیں کر سکے۔ آج تک وہ اُس احترام سے محروم ہیں جو قائدِ حزبِ اختلاف کا آئینی حق ہے۔ بات تو درکنار، ملک کا وزیر اعظم انہیں خط لکھتا ہے تو نام لکھنا گوارا نہیں کرتا۔ ایئرپورٹ پر وہ روک لیے گئے، باوجود اس کے کہ عدالت کا حکم ان کی پشت پر تھا۔ اب ایف آئی اے نے بھی طلب کر لیا۔ کیا اس کے بعد بھی دلِ خوش فہم کی امید باقی ہے؟ کیا اب بھی وہ نہیں جانتے کہ ایک پیج پھٹا نہیں، ابھی تک سلامت ہے۔

اقبال نے کہا تھا ‘حکومت کا کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی‘۔ مفکر کا تناظر مگر تاریخ ہے، روزوشب کی تقویم نہیں۔ اقتدار کی مچھلی سیاست کے رواں پانی میں تیرتی ہے۔ سیاست دان لمحہ موجود میں جیتا ہے الا یہ کہ کوئی سیاستدان سے لیڈر بن جائے۔ لیڈر تو وہ کرے گا جو اقبال ہی نے بتا رکھا ہے کہ حاضر و موجود سے بے زار کر دے ‘ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق‘۔ ہم مگر سیاست دانوں کے ہم عصر ہیں جو پانچ سال کے عرصے میں قید ہوتے ہیں۔ تاریخ میں جینا مرنا ان کا مسئلہ نہیں ہے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا قومی اسمبلی میں وہی کچھ ہوتا جو تین دن سے ہو رہا ہے؟ زبان پر کسی کی گرفت ہے نہ ہاتھوں پر۔ جس نے اس کلچر کی بنا ڈالی، اس کے اعمال میں لکھا جاتا رہے گا جب تک اس کا فیض جاری ہے۔ یہ مگروہی سوچتا ہے جوتاریخ میں جینے پر یقین رکھتا ہے۔ بصورتِ دیگر ایسے لوگوں کے اعمال کا رجسٹراس دنیا کے ‘منکر نکیر‘ کی پاس ہوتاہے جو آنے والی نسلوں کے لیے، اسے مرتب کر دیتے ہیں۔ ہم انہیں مورخ کہتے ہیں۔

اپویشن کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ رواں سیاست کی حرکیات سے بے خبر رہی۔ وہ عمران خان صاحب کی شخصیت کا کوئی تجزیہ کر سکی نہ مقتدر حلقے کی سوچ ہی کو پا سکی۔

حکومت کو قانون سازی میں کوئی مشکل پیش آئی نہ امورِ مملکت چلانے میں۔ اپوزیشن نے نازک ترین مراحل پر بلا مانگے دستِ توازن دراز کیا۔ اس دریا دلی کا کوئی اثر کسی مقتدر حلقے پرنہیں ہوا۔ اس تعاون کا تو یہ عالم رہا کہ فیٹف کے مطالبات پر قانون سازی ہوتی رہے اور حکومت نون لیگ کی کرپشن کو اس کا ذمہ دار بھی ٹھہراتی رہی۔ سیاستدان نہ ہوئے، صوفی ہو گئے۔ شخصی عزت ذلت سے بے نیاز۔

سیاست اب سائنس بن چکی۔ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے استعمال سے حقائق نما تراشے جاتے ہیں اور انہیں عوامی نفسیات کا اس طرح حصہ بنا دیا جاتا ہے کہ لوگ ان پر ایمان لے آتے ہیں۔ وہی جسے اب ‘پوسٹ ٹُرتھ‘ کہا جاتا ہے۔ بھارت میں بی جے پی اور امریکہ میں ٹرمپ نے اس کی مدد سے کامیابی حاصل کی۔ پاکستان میں بھی اس سے مدد لی گئی۔ یہی نہیں، مخالفین کا نفسیاتی تجزیہ کیا جاتا اور ان کی کمزوریوں کا ادراک کرتے ہوئے، ان کیخلاف مہم چلائی جاتی ہے۔

اپویشن اس طرح کی سائنسی سوچ نہیں رکھتی۔ مثال کے طور پر جب نوازشریف صاحب نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیا تو اس کا درست تجزیہ نہ کرسکے کہ اس راستے کی طوالت کیا ہے اوراس کے لیے ان کے پاس زادِ راہ کتنا ہے؟ انہوں نے اس سوال پر غور نہیں کیا کہ ایک منظم سیاسی جماعت کی غیر موجودگی میں، یہ سفرکیسے طے کیاجا سکے گا؟ شہبازشریف صاحب بھی مقتدرہ کی سوچ پڑھنے میں ناکام رہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

اس وقت ہم اقتدار کا جو بے رحمانہ کھیل دیکھ رہے ہیں، اس کے تمام کھلاڑی سیاست دان ہیں اور شخصی و ادارہ جاتی مفادات کے اسیر ہیں۔ کوئی لیڈر نہیں۔ ان کا ذہنی افق زیادہ وسیع نہیں ہے۔ ان کو کسی تاریخی کردار سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کوئی تین سال تک سوچتا ہے اور کوئی پانچ سال تک۔ نوازشریف صاحب نے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اصل مرض کی درست تشخیص کی۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہمارے پاس وہ معالج ہی نہیں جو اس تشخیص کی بنیاد پر علاج کر سکے۔

لگتا ہے‘ عمران خان صاحب کی یہ سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے کہ ہیجان میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔ بعض مشیران میں وہ کیا صلاحیت ہے جوان کو اقتدار کا حصہ بنائے ہوئے ہے؟ یہ تاریخ کی وہ منفرد حکومت ہے جس نے دورِ اقتدار میں بھی وہی اندازِ سیاست اپنایا جو اپوزیشن سے منسوب ہے۔ صرف ہدف تبدیل ہوا ہے۔ انداز اسی طرح جارحانہ اور جنوں خیز ہے۔ مفاہمت سے اسے رتی برابر دلچسپی ہے نہ اس کی ضرورت۔ معلوم ہوتا ہے کہ پس منظر میں وہ ذہن کام کررہے ہیں جو اپوزیشن کی نفسیات کو سمجھتے ہیں اور عوامی احساسات کو بھی۔ وہ ایک طرف اپوزیشن کو یہ موقع نہیں دینا چاہتے کہ وہ مجتمع ہو اور کوئی اصولی موقف اپنا سکے۔ دوسری طرف خان صاحب کے حلقہ اثر کو بھی یہ سوچنے کا موقع نہیں دیاجاتا کہ اپوزیشن اورحکومت کے کردار میں کیا فرق ہوتا ہے اور اپوزیشن جب اقتدار میں آتی ہے تو کیسے اس سے توقعات بدل جاتی ہیں۔

اس کے دو نتائج ظاہروباہر ہیں۔ اپوزیشن کی دوبڑی جماعتوں کی باگ ان ہاتھوں میں ہے جو اس نظام کا حصہ بن جانا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ متحد بھی نہیں۔ یوں اس نظام کو کوئی حقیقی خطرہ لاحق نہیں۔ دوسری طرف خان صاحب کے حلقہ اثربدستور ان دلائل کی تلاش میں ہے جو انہیں مطمئن کر سکے۔ باوجود بیشمار مالیاتی سکینڈلز کے، سرِدست ان کی ذات سے وابستہ رومان کو کوئی بڑا دھچکا نہیں پہنچا۔

اس ماحول میں اگر اقتدار ایک جماعت سے دوسری جماعت کے پاس چلا جائے تو بھی کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوگا۔ یہی اس نظام کے خالقوں کی اصل کامیابی ہے۔ اس کے ساتھ، نون لیگ کا انحصار اگر عابد شیر علی جیسے متوالے پر ہے جو اس عالم میں بھی لندن کے پارکوں میں ورزش کرتے اور مہنگے ترین سٹورز پر پاجامے خریدتے دکھائی دیتے ہیں تواس معرکے کا انجام بھی اسے معلوم ہونا چاہیے۔

جمہوریت کے لیے آج ایک بڑی عوامی تحریک کی ضرورت ہے۔ ایسی تحریک جو اقتدار کی کشمکش سے بے نیاز سماجی سطح پر لڑی جائے۔ اس کا آغاز ظاہر ہے کہ شعوری بیداری سے ہوگا۔ آج یہ کام اتنا مشکل نہیں رہا جو روسو کے دور میں تھا۔ وقت کئی صدیوں کاسفر طے کرچکا۔ اپنی سست رفتاری کے باوجود، ہم انسان کے تہذیبی قافلے کی گردِ راہ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر سبک خرام ہوں تو درمیانی فاصلے کو کم وقت میں پاٹ سکتے ہیں۔

سیاست کو اب اسی نظر سے دیکھنا چاہیے کہ یہ سیاستدانوں کا کھیل ہے۔ ان میں کوئی لیڈر نہیں۔ شہباز شریف صاحب پر مگر ترس آتا ہے۔ وقت نے انہیں ایک ایسی جگہ لاکھڑا کیا ہے کہ وہ لمحہ موجود میں (سیاسی اعتبار سے) زندہ رہتے دکھائی دیتے ہیں نہ تاریخ میں۔ تذبذب کا یہ ناگزیر نتیجہ ہے۔ ان کے دیرینہ رفیق چوہدری نثار علی خان صاحب بھی ان کے ساتھ اسی جگہ پر کھڑے ہیں۔ سیاست دان حقیقت پسند ہوتا ہے۔ وہ اگر لیڈر بننے کا حوصلہ نہیں رکھتا توپھر اسے سراب اور دریا کے فرق کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔

مکرر عرض ہے کہ جس نظام میں نوازشریف کے لیے کوئی جگہ نہیں، اس میں شہباز شریف صاحب بھی بامراد نہیں ہوسکتے الا یہ کہ…

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے