ایک ہوتی ہے شادی، ایک ہوتی ہے مرگ!

مجھے شادی بیاہ اور کسی مرگ والے گھر میں جاتے وقت بہت سی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے ، مرگ والے گھر میں ہر آنے والا پہلا سوال یہی پوچھتا ہے ، بٹ صاحب فوت کیسے ہوئے تھے؟ ابھی مرحوم کا بیٹا تفصیل بیان کر ہی رہا ہوتا ہے کہ ابا جی صبح اٹھے، حالانکہ ہمیں امید نہیں تھی کیونکہ رات کو ان کی طبیعت بہت ناساز تھی، بہرحال اٹھتے ہی انہوں نے تایا مودی سے سری پائے منگوائے اور مجھے نحیف سی آواز میں کہا کہ بیٹے شام کے کھانے کے لئے پیسہ اخبار سے وارث نہاری کی نہاری ذرا پہلےلے آنا، مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ یہ ذرا پہلے لے آنا والی بات کیوں کر رہے تھے۔ ابھی بٹ صاحب کے بیٹے کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی، موت کا منظر ابھی بہت دو ر تھاکہ ایک اور تعزیت کرنے والے آتے ہیں اور پوچھتے ہیں ’’بیٹے! بٹ صاحب کی وفات کیسے ہوئی تھی‘‘ صاحبزادہ ابھی نہاری کا انتظار کر رہا تھا جس کے لئے اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو پیسہ اخبار بھیجا تھا تاکہ مرحوم کے رات کے کھانے کا بروقت اہتمام ہو سکے کہ اس دوران نئے آنے والے تعزیت کنندہ کی وجہ سے ایک بار پھر بات شروع سے کرنا پڑجاتی ہے اور یہ سلسلہ تادیر جاری رہتا ہے، اس کے علاوہ ہر آنے والا دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے اور یوں وقفے کا پیریڈ چھوڑ کر مرحوم کے لواحقین اور سب تعزیت کرنے والوں کے ہاتھ کم و بیش تین چار گھنٹے تک ہوا میں معلق رہتے ہیں۔ ایسے مواقع پر میں تو اپنے ہاتھ جھولی میں رکھ لیا کرتا ہوں!

صرف یہی نہیں تعزیت کرنے والے مرحوم کی جو خوبیاں بیان کرتے ہیں، ان میں سے اکثر کا مرحوم کو خود بھی پتہ نہیں ہوتا، ایک مرحوم کے بارے میں جب ان کے ایک قریبی دوست نے کہا کہ ہم دونوں اکثر ہیرا منڈی یعنی بازار حسن میں پھجے کے پائے کھانے جایا کرتے تھے اور اس بازار میں مرحوم کی سخاوت کے اتنے چرچے تھے کہ میں نے کئی دفعہ بہت سوں کوپھجے کی دکان کے باہر بٹ صاحب کا انتظار کرتے دیکھا۔ ابھی مرحوم کے اس دوست نے اس حوالے سے مزید تفصیلات بیان کرنا تھیں کہ اس سے پہلے اس دفعہ مرحوم کے بیٹے نے خود دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے! نماز جنازہ کی تفصیلات اس کے علاوہ ہوتی ہیں۔کتنی صفیں ہو نی چاہئیں، نماز جنازہ کی تفصیل، جس کے باوجود ایک دوسرے کو دیکھ کر یہ فریضہ ادا کرتے ہیں، نیز نماز جنازہ سے پہلے مرحوم کے لواحقین کی نماز کے شرکا سے یہ درخواست کہ ان کے والد نے اگر کسی سے قرض لیا ہو تو نماز سے پہلے لواحقین سے وصول کرلے۔ اس سے قدرے مختلف اعلان میں نے ایک شیخ صاحب کی نماز جنازہ سے پیشتر ان کے صاحبزادے کی زبان سے سنا تھا کہ ان کے والد نے اگر کسی سے قرضہ لیا تھا تو ان سے درخواست ہے کہ وہ معاف کردے کیونکہ مرحوم اب ادائیگی کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔قلوں پر اور چہلم کے موقع پر ’’شریکوں‘‘ کی باتیں اس موقع پر علیحدہ سننے والی ہوتی ہیں بلکہ علیحدگی میں سننے والی ہوتی ہیں!

جہاں تک شادی بیاہ کا تعلق ہے ، دلہن کا بیوٹی پارلر سے اس وقت آنا جب آدھے باراتی بوجہ تاخیر نیند کی حالت میں چلے جاتے ہیں یا نیند پوری کرکے بار بار گھڑی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیمرہ مین کی پوری تقریب کی وڈیو کسی فلم کی ریکارڈنگ سے کم نہیں ہوتی۔ سارے ہال کی لائٹیں بجھا دی جاتی ہیں اور روشنی کا ایک ہالہ صرف ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دولہا دلہن کے سردھڑ پر ہوتا ہے، شاید اس لئے کہ یہ مرحلہ سردھڑ کی بازی لگانے کے زمرے ہی میں آتا ہے۔ دلہن کے خدو خال تو تہہ در تہہ میک اپ کی وجہ سے نظرنہیں آتے البتہ دولہےکا چہرہ تقریباً ننگ دھڑنگ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کے ’’حسن‘‘ کے بارے میں اکثر خاصے گھٹیا قسم کے تبصرے کئے جاتے ہیں۔ ولیمے کے روز دولہا کے دوست دولہا کے کان میں جو جو سرگوشیاں کرتے ہوئے شرارت بھرے قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں،وہ بہت سے باراتیوں کے سینے چھلنی کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور ہاں ولیمے کے روز کچھ دولہا ولیمے کے لئے سجے ہال میں اس طرح سینہ پھلا کر پھر رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی فاتح پہلوان اکھاڑے میں ’’آنیاںجانیاں‘‘ کر رہاہوتا ہے اور کچھ نیم مردہ چہروں کے ساتھ کسی سینئر شادی شدہ کے کان میں سرگوشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

بہرحال یہ دنیا ہے ’’جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں‘‘ کے مصداق یہ دونوں مناظر ان دونوں مواقع پر نظر آتے ہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگ بوجہ افسردگی کبھی کوئی شادی اٹینڈ نہیں کرتے کہ انہیں اپنی شادی کا دن یاد آ جاتا ہے، جسے وہ ’’یوم سیاہ‘‘ کا نام دیتے ہیں اور کچھ سوگ کی تقریبات میں شمولیت نہیں کرتے کہ اس مواقع پر انہیں اپنی موت یاد آنے لگتی ہے اور وہ صرف اس سوچ کے تحت ادھ موئے ہو جاتے ہیں۔ اس حوالےسے صرف ایک استثنائی شخصیت ہیں، جو میرے پرانے دوست ہیں اور جن کا نام نامی علامہ شکم پرور لدھیانوی ہے۔علامہ صاحب کے لئے سوگ یا شادی میں شرکت کی کشش صرف طعام کے حوالے سے ہوتی ہے کہ ان دونوں مواقع پر اعلیٰ قسم کے کھانے ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جب وہ فوت ہوں گے تو قلوں اور چہلم کے مواقع پر ان کی روح بھی کہیں ادھرہی بھٹک رہی ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے