عمران خان اور پاکستان بھارت تعلقات

وزیر اعظم عمران خان صاحب ان دنوں پاکستان کا موقف دُنیا تک پہنچانے کے لئے عالمی میڈیا میں کافی متحرک نظر آرہے ہیں۔ حال ہی میں نیویارک ٹائمز نے بھی وڈیو کال کے ذریعے ان کا ایک طویل انٹرویو کیا۔ ان سے گفتگو کرنے والی دونوں خواتین مذکورہ اخبار کے لئے عالمی اور قومی سلامتی کی بابت امور کے موضوعات پر مضامین لکھواتی اور انہیں چھاپتی ہیں۔عمران خان صاحب سے ہوئے انٹرویو کو نیویارک ٹائمز جیسے مؤقر اخبارنے اپنے ایک پورے صفحے پر نمایاں انداز میں چھاپا ہے۔ امریکہ ہی نہیں دُنیا کے دیگر اہم ممالک کے پالیسی سازوں نے یقینا اسے بہت غور سے پڑھا ہوگا۔

جس انٹرویو کا حوالہ دے رہا ہوں اس کا بنیادی مقصد یہ تلاش کرنا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاک-امریکا تعلقات کیا شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ عمران خان صاحب اس تناظر میں کوئی ٹھوس رائے دینے سے کتراتے نظر آئے۔ اس سوچ کا اظہار البتہ کھل کر کیا کہ متوقع انخلاء کے بعد بھی پاکستان اپنے جغرافیائی حقائق کی وجہ سے امریکہ کے لئے اہم رہے گا۔ دُنیا کی دو بڑی منڈیاں یعنی بھارت اور چین پاکستان کی ہمسایہ ہیں۔ اس کے علاوہ ایران سے وسط ایشیا تک پھیلا ایک خطہ بھی ہے جو معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔عمران خان صاحب لہٰذا یہ دعویٰ کرتے ہوئے پراعتماد نظر آئے کہ پاکستان کی اہمیت فقط افغانستان ہی سے وابستہ نہیں۔امریکہ کو ہمیں وسیع تر تناظر میں دیکھنا ہوگا۔

افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بھی وزیر اعظم پاکستان نے اہم باتیں کی ہیں۔ میں ان کی تفصیلات کو نظرانداز کرتے ہوئے فی الفور اس حصے کی جانب آنا چاہ رہا ہوں جہاں بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات زیر بحث آئے۔کائیاں رپورٹر اہم شخصیات کا انٹرویو لیتے ہوئے اپنے سوال کوایسی زبان میں اٹھاتے ہیں جو واضح طورپر عندیہ دے رہا ہوتا ہے کہ ’’وہ کیا لکھیں گے جواب میں‘‘۔ انٹرویو دینے والے کو یہ ’’چالاکی‘‘ فوراََ بھانپ لینا چاہیے۔عمران خان صاحب مگر مذکورہ انٹرویو میں ایسا نہیں کر پائے۔

مزید بڑھنے سے قبل بھارت کے حوالے سے ہوئے پہلے سوال کی ساخت پر آپ کی توجہ مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں۔ سوال اٹھایا گیا کہ ’’آپ یہ سوچتے ہیں کہ بھارت میں موجودہ (مودی سرکار) کے بجائے کوئی اور حکومت ہوتی تو پاکستان کے اس ملک کے ساتھ تعلقات مختلف ہوتے؟ یہ سوال واضح طورپر پاکستان کے وزیر اعظم کو مودی سرکار کے خلاف چند سخت کلمات ادا کرنے کو اُکسارہا تھا۔عمران خان صاحب نے اس کا فوری جواب دینے سے گریز کیا۔اپنے جواب کا آغاز انہوں نے اس دعویٰ سے کیا کہ تمام پاکستانیوں کے مقابلے میں وہ بھارت کو کہیں زیادہ جانتے ہیں ۔ وہ کرکٹ کے مشہور کھلاڑی رہے ہیں۔یہ کھیل پاکستان اور بھارت میں یکسا ں مقبول ہے۔اس کی وجہ سے عمران خان صاحب کو بھارت میں بہت احترام اور محبت سے نوازا گیا۔

اپنی ذات کے لئے موجود احترام ومحبت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے عمران خان صاحب نے پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی بھارتی وزیر اعظم مودی سے جو اولین گفتگو کی اس کے دوران ہمارے وزیر اعظم نے اپنے بھارتی ہم منصب کو یہ بتایا کہ ’’میرے اقتدار میں آنے کا بنیادی مقصد پاکستان میں غربت کا خاتمہ ہے‘‘۔ مذکورہ ہدف کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے لہٰذا ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ’’معمول کے مطابق مہذب تجارتی تعلقات ہوں‘‘۔ یہ بیان کرنے کے بعد عمران خان صاحب یہ کہنے کو مجبور ہوگئے کہ ہندوانتہاپسند تنظیم-آر ایس ایس- کے کلیدی نظریات سے جڑے رہنے کے سبب نریندر مودی اس ضمن میں آگے بڑھنے میں ناکام رہا۔ وہ بالآخر خود سے ہوئے سوال کا ’’ہاں‘‘ میں جواب دے رہے ہیں۔ شاید بھارت میں کوئی اور برسرِ اقتدار ہوتا تو پاکستان کے اس ملک کے ساتھ تعلقات بہتری کی جانب بڑھتے نظر آتے۔

ذاتی طورپر مجھے عمران خان صاحب کے نریندر مودی کے نظریات کے حوالے سے بیان کردہ خیالات سے سو فیصد اتفاق ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے مگر اس مقام تک پہنچنے میں بہت دیر لگائی ہے۔بھارت میں 2019ء کے عام انتخاب سے قبل انہوں نے بلکہ سفارت کارانہ لگی لپٹی کے بغیر اس امید کا اظہار کیا تھا کہ اگر مذکورہ انتخاب کے نتیجے میں مودی دوبارہ برسراقتدار آیا تو مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی۔

میں کرکٹ کا کھلاڑی نہیں۔ ٹی وی پر اس کھیل کے کسی میچ کو بھی اتفاق سے دیکھ لیتا ہوں۔ عام پاکستانی صحافی ہوتے ہوئے 1984ء سے بارہا بھارت گیا ہوں۔ اپنے اجتماعی تجربے کی بنیاد پر 2014ء سے دہائی مچارہا ہوں کہ نریندر مودی کا بھارت کے سابق وزیر اعظم آنجہانی واجپائی کی طرح بھارتیہ جنتاپارٹی سے یقینا تعلق ہے۔ وہ مگر واجپائی جیسا سیاست دان نہیں ہے۔بنیادی طورپر ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا پرچارک رہا ہے۔پاکستان کو اس سے بھلائی کی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔

مودی سرکار کے بارے میں میرے ذاتی نظریات کے باوجود اس امر کا بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ اس کی جماعت اورنظریات ہی پاک-بھارت کشیدگی کا واحدسبب نہیں ہیں۔ کہانی قیام پاکستان سے کئی دہائیاں قبل ہی شروع ہوگئی تھی۔ 1948ء سے 1971ء کے درمیان جو پاک-بھارت جنگیں ہوئیں ان دنوں دلی کے تخت پر پہلے نہرو اور بعدازاں اس کے سیاسی جانشین اور بالآخر بیٹی براجمان تھے۔

1977ء میں پہلی بار نہرو اور اس کے خاندان کا اقتدار پر تسلط ختم ہوا۔مرارجی ڈیسائی کی وزارت عظمیٰ کے دوران جنرل ضیاء ہمارے طاقت ور ترین حکمران تھے۔انہوں نے ڈیسائی کو اعلیٰ ترین اعزاز سے بھی نوازا تھا۔پاک-بھارت تعلقات میں لیکن کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوپائی۔ اندرا دوبارہ برسراقتدار آئی تو بھارتی پنجاب میں خالصتان کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ وہ اس کی وجہ سے قتل ہوئی۔اس کے قتل کے بعد راجیو گاندھی کے دورِ اقتدار میں پاک-بھارت تعلقات کشیدہ ترہوتے چلے گئے۔

جو کشیدگی کئی برسوں تک جاری رہی اس میں نرمی لانے کو اٹل بہاری واجپائی نے یقینا تاریخی پیش قدمی دکھائی تھی۔ وہ بس میں بیٹھ کر لاہور آیا اور مینار پاکستان جاکر دو قومی نظریہ کی بنیاد پر اس ملک کے قیام کی حقیقت کا اثبات کیا۔ اس کی پیش قدمی کے بعد مگر کارگل ہوگیا۔کارگل کے باوجود واجپائی نے جنرل مشرف کو آگرہ سمٹ کے لئے مدعو کیا۔ وہ مگربارآور ثابت نہ ہوپائی۔ اس کے باوجود بالآخر 2003ء میں پاکستان اور بھارت نے فوجی تنائو میں کمی لانے کے لئے ایک اہم معاہدے پر دستخط کئے۔

مذکورہ معاہدے پر دستخط کے باوجود واجپائی اور اس کی جماعت 2004ء کے عام انتخاب میں ہار گئے۔کانگریس اس کے بعد طویل عرصے تک برسراقتدار رہی۔ 2004ء کی انتخابی شکست کو مودی جیسے افراد نے یہ پیغام اجاگر کرنے کے لئے جنونی انداز میں کام کیا کہ بھارتی عوام ان کی جماعت کے خلاف ہوگئے کیونکہ واجپائی اس کے بنیادی نظریات یعنی ہندوتوا پر سختی سے کاربند رہنے میں ناکام رہا۔آر ایس ایس کے کٹر نظریات پر ڈھٹائی سے ڈٹے رہنا ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار دلواکراسے مزید استحکام بخش سکتا ہے۔ 2019ء میں ہوئے ایک اور انتخاب کو مزید اکثریت سے جیت کر نریندر مودی نے بی جے پی کے کلیدی نظریات کی افادیت کو اپنے کٹرحامیوں کے لئے ثابت کردیا ہے۔ اسی کی بدولت اس نے ’’شہریت‘‘ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف واضح تعصب دکھاتے قوانین منظور کروائے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے خلاف 5اگست 2019ء کے روز لئے اقدامات بھی اسی سوچ کے عکاس ہیں۔

سفارت کاری مگر ٹھوس حقائق سے نبردآزما ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔مجھ کو پسند ہو یا نہیں تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ نریندر مودی کو نظر بظاہر 2024ء تک برسراقتدار رہنا ہے۔عمران خان صاحب کی اصل مہارت لہٰذا یہ ہوگی کہ وہ آئندہ تین برسوں تک مودی سرکار سے معاملات طے کرنے کی تراکیب سوچیں۔ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے مود ی سرکار کی تبدیلی کا انتظار نہیں کرسکتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے