چاک پر مجسمہ سازی کرنیوالے فنکار سے ملیے

مجسمہ سازی ایک قدیم فن ہے جس کے ماہر کاریگر پتھروں کو سلیقے سے تراش کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان کے تخلیق کردہ شاہکار لوگوں کے دلوں میں گھر کرجاتے ہیں۔

مجسمہ سازی کیلئے پتھروں، پیتل، سرامک یا پلاسٹک کا استعمال تو کیا جاتا رہا ہے لیکن کیا آپ نے کبھی چاک پر مجسمے بنانے کے بارے میں سنا ہے؟

آج ہم آپ کو ایسے ہی فنکار سے مِلوانے جارہے ہیں جو چاک کو تراش کر مختلف اشکال میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔

معاذ ندیم خان کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ بی بی اے سال دوئم کے طالبعلم ہیں جن کی ماہرانہ صلاحیتیں بے شک کسی اچھے اور تجربہ کار کاریگر سے کم نہیں۔

معاذ نے بتایا کہ اس منفرد شوق کا آغاز محض بوریت اور فارغ وقت میں ہوا، وہ چھٹی کلاس میں تھے جب چاک پر غور کیا اور اسکیل کی مدد سے اسے بیٹھے بیٹھے تراشا تو محسوس ہوا کہ یہ مختلف اشکال میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

منفرد فنکارانہ صلاحیت کے حامل معاذ ندیم نے پہلی مرتبہ چاک کو اسکیل سے تراشا جس نے ایک کھوپڑی کی شکل اختیار کرلی وہاں سے انہیں اس فن کے بارے میں معلوم ہوا۔

دوران انٹرویو انہوں نے کہا کہ اب تک وہ چاک پر نقش و نگاراور مجسموں کے تقریباً 100 نمونے بنا چکے ہیں لیکن درحقیقت ان کا خیال رکھنا بے حد مشکل ہے کیونکہ چاک نازک ہونے کی وجہ سے جلد ٹوٹ جاتی ہے۔

معاذ کا کہنا تھا کہ ان نمونوں کو پلاسٹک کے باکس میں ٹشو پیپر میں ڈھانپ کر رکھنا پڑتا ہے اور اس بات کا خاص دھیان کرنا ہوتا ہے کہ ان کے درمیان فاصلہ نا ہو کیونکہ یہ ایک دوسرے سے ٹکرا کر ٹوٹ سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یوں تو مجسمہ سازی کیلئے کئی آلات استعمال کیے جاتے ہیں لیکن وہ چاک کو تراشنے کیلئے خود کے تشکیل کردہ آلات استعمال کرتے ہیں جو کہ قلم کے ساتھ بلیڈ اور اسکارف میں لگائی جانے والی پِن کی مدد سے بنائے گئے ہیں۔

حیران کن فن جاننے والے معاذ ندیم کے پاس ایک سال پرانے شاہ کار بھی موجود ہیں جنہیں اب تک انہوں نے بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے کیونکہ ذرا سی لاپرواہی کے باعث یہ ٹوٹ سکتے ہیں۔

چھٹی جماعت سے اس فن کا آغاز کرنے والے فنکار معاذ نے کہا کہ آٹھویں جماعت تک اسکول میں چاک سے مجسمہ سازی کی وجہ سے کافی مقبول ہوگیا تھا، تمام دوست اور اساتذہ تعریف کرتے اور سراہتے جس سے میری حوصلہ افزائی ہوتی تھی اور یہ ہی وجہ ہے کہ میں نے اس فن کو ختم نہیں کیا بلکہ آہستہ آہستہ بہتری آنے لگی۔

جیو ویب کو انٹرویو دیتے ہوئے چاک آرٹسٹ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے کیرئیر کا انتخاب آرٹ کی فیلڈ میں نہیں کیا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس کا کوئی رجحان نہیں، لوگ پسند اور شوق کی حد تک تو دیکھتے ہیں لیکن اسے پیشے کے طور پر اپنانا قدرے ناممکن سی بات ہے۔

معاذ ندیم خان کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام محض شوقیہ کرتے ہیں، لوگ ان سے فرمائش کرکے چاک پر اپنے نام اور مختلف فن پارے بنواتے ہیں، وہ اس کام میں مزید مہارت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں اور مستقبل میں اس کے مختلف کورس بھی کریں گے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب بھی ان میں خامیاں ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

معاذ ندیم خان اب تک چاک کو انسانی کھوپڑی، ہتھیلی، بوڑھا آدمی اور ہالی وڈ کی فلم گارڈینز آف دی گلیکسی کے غیر حقیقی (فکشنل) کردار گروٹ سمیت کئی اشکال دے چکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے