’’خفیہ دورے‘‘ کی سچی یا من گھڑت خبر‘‘

اچھوتے خیالات کو چونکا دینے والے لہجے میں بیان کرنے والے شاعر احمد مشتاق نے ایک مصرعہ ایسا بھی لکھا ہوا ہے جو گزشتہ چند برسوں سے مجھے بارہا یاد آتا ہے ۔ مصرعہ ہے :’’عمر بھر کون حسین کوں جواں رہتا ہے‘‘۔پیر کی سہ پہر سے رات گئے تک ایک بار پھر میرے ذہن میں گھونجتا رہا۔

قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے اُکتا گیا تو وقفے کے لئے کیفے ٹیریا جانے کا فیصلہ کیا۔سڑھیوں سے اتر کر اس فلور پر آیا جہاں اراکین اسمبلی ایوان سے نکل کر لفٹ کے منتظر ہوتے ہیں۔ایک لفٹ کے سامنے خواجہ آصف کھڑے نظر آئے۔وہ نیب کے ہاتھوں بنائے کیس کی وجہ سے پانچ ماہ اور 25دن کی حراست کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔انہیں دیکھتے ہی تیزی سے ان کی جانب بڑھا۔دیرینہ شناسائی والی دُعاسلام ہوئی۔ اس نے مجھے اداس کردیا۔

اپنے والد کے انتقال کے بعد خواجہ صاحب 1990کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی سینٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔وجیہہ اور خوش لباس تھے۔آواز میں جلالی طنطنہ تھا۔پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تندوتیز تقاریر سے رونق لگادیتے۔ 1993کے انتخابات کے بعد تاہم قومی اسمبلی چلے گئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو مسلسل پریشان کئے رکھا۔پریس گیلری لکھنے والے صحافی کے لئے انہیں نظرانداز کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ہمارے مراسم لہٰذا گہرے اور بے تکلف ہونا شروع ہوگئے۔ہم دونوں گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم رہے ہیں۔کتابیں پڑھنے کا شوق لاحق ہے مگر ’’دانشور‘‘ کہلانے سے چڑمحسوس ہوتی ہے۔ پھکڑپن کے ذریعے زندہ دلی کو برقرار رکھنا ہم دونوں کی مشترکہ عادت تھی اور اس کی وجہ سے ہمارے کئی ’’سنجیدہ‘‘ دوست اکثر نالاں بھی رہتے تھے۔

پیر کے روز مگر خواجہ آصف مختلف بیماریوں کے ہاتھوں نڈھال ہوئے نظر آئے۔میں انہیں دیکھ کر اداس ہوگیا۔رات گئے تک ان کے بے شمار قصے فلم کی طرح ذہن میں گھومتے رہے۔ ارادہ باندھا تھاکہ ’’وہ باتیں تیری وہ فسانے تیرے‘‘ جیسا کالم لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کرلوں گا۔قلم اٹھایا تو اس جانب بڑھنے کی مگر ہمت نہیں ہوئی۔ربّ کریم سے اس دُعا کے ساتھ دوسرے موضوع کی جانب بڑھنا ہوگا کہ وہ ان کی توانائی اور جلال کو جلد ازجلد بحال کرے۔

پیر کی صبح اُٹھتے ہی فون دیکھا تو سوشل میڈیا پر ایک ’’خبر‘‘کا چرچا ہورہا تھا۔اسرائیل کا ایک صحافی ہے جو مختلف ممالک کے درمیان ہوئی فضائی ٹریفک پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے مزے کی ’’خبریں‘‘ ڈھونڈ لیتا ہے۔اس نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر ایک ’’خبر‘‘ دے رکھی تھی۔مذکورہ ’’خبر‘‘ کا دعویٰ تھا کہ نومبر2020کے دوران پاکستانی وزیر اعظم کے چند ہی دن قبل تک اہم ترین مشیر گردانے زلفی بخاری صاحب نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا تھا۔زلفی بخاری اور ہماری وزارت خارجہ نے مذکورہ ’’خبر‘‘ کی تردید کردی ہے۔

مذکورہ ’’خبر‘‘ درست ہے یا نہیں۔اس بحث میں اُلجھنے کے لئے مجھے ٹھوس حقائق میسر نہیں۔اس ’’خبر‘‘ کے تناظر میں اگرچہ چند پہلو نمایاں ہوتے ہیں جو قابل ذکر وغور ہیں۔اہم ترین پہلو یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل ’’جمہوری ملک‘‘ ہوتے ہوئے ’’آزادپریس‘‘ کا دعوے دار بھی ہے۔وہاں کے ’’آزاد پریس‘‘ کی اصل حقیقت مگر یہ ہے کہ خارجہ اور قومی سلامتی سے متعلق امور کے بارے میں دی گئی ’’خبر‘‘کو ’’اسرائیلی ملٹری سینسر‘‘ سے منظور کروانا لازمی ہے۔’’ملٹری سینسر‘‘ کا جوازیہ بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل مسلسل ’’حالتِ جنگ‘‘ میں ہے۔و ہ ’’دشمنوں‘‘ کے درمیان گھرا ہوا ہے۔اس کے صحافیوں کو قومی سلامتی کے حوالے سے ’’افواہ سازی‘‘ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ’’حالتِ جنگ‘‘ کی وجہ سے فقط خارجہ اور قومی سلامتی کے امور ہی نہیں اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی کوئی ’’خبر‘‘ سینسر ہوئے بغیر چھپ نہیں سکتی۔تیل اور پانی کے ذخائر بھی اس ضمن میں ’’حساس‘‘تصور ہوتے ہیں۔

اسرائیلی ملٹری سینسر کو مگر فوجی حکام اکیلے ہی نہیں چلاتے وہاں کے مدیروں کی تنظیم کے نمائندے بھی کسی ’’خبر‘‘ کی جانچ پڑتال میں برابر کے حصے دار تصور ہوتے ہیں۔ 1988میں لیکن ایک اسرائیلی اخبار نے وہاں کے ہمارے انٹیلی جنس بیورو یعنی آئی بی جیسے ادارے کے ’’اندرونی معاملات‘‘ کو سکینڈل کی طرح قارئین کے روبرو لانے کا فیصلہ کیا۔مذکورہ اخبار اس کی وجہ سے بند کردیا گیا۔بعدازاں مگر دریافت یہ ہوا کہ بند ہوئے اخبار کے بیان کردہ واقعات ہرگز بے بنیاد نہیں تھے۔ یہ حقیقت عیاں ہوئی تواسرائیلی اخبارات کے مدیروں کی تنظیم نے ’’اسرائیلی ملٹری سینسر‘‘ کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ طویل قضیے کے بعد بالآخر یہ معاہدہ ہوا کہ اخبارات کے نمائندوں کو یہ طے کرنے کے لئے مزید اختیارات دئیے جائیں گے کہ کس خبر کو شائع ہونے سے روکنا ’’قومی سلامتی‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے۔اسرائیل کے دفاعی اداروں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اگر ملٹری سینسر کوئی ’’خبر‘‘ روکے گا تو اس کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

مذکورہ تفصیلات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے سوال اٹھتا ہے کہ نومبر2020میں مبینہ طورپر ہوئے ایک ’’خفیہ دورے‘‘ کی بابت درست یا من گھڑت خبر کو جون 2021میں شائع کرنے کی اجازت کیوں ملی ہے۔ اس سوال کا جواب کم از کم مجھے میسر نہیں۔سوشل میڈیا پر اس ’’خبر‘ ‘ کو پھیلانے والے بھی اس سوال کی بابت غور میں مبتلا دکھائی نہ دئیے۔

جس ’’خبر‘‘ کا چرچا ہے وہ اسرائیل کے اخبار ’’حیوم‘‘ میں شائع ہوئی ہے۔’’حیوم‘‘ عبرانی لفظ ہے جو عربی کے ’’یوم‘‘ یعنی دن کے قریب ہے۔حیوم کے لفظی معنی ’’آج کا دن‘‘ہوسکتے ہیں۔فارسی میں اس کے لئے ’’امروز‘‘ کا لفظ موجود ہے اور اس نام کے ساتھ فیض احمد فیض نے ’’پاکستا ن ٹائمز‘‘ کے ساتھ لاہور سے ’’امروز‘‘ نامی اردو روزنامے کا بھی اجرا کیا تھا۔ایوب حکومت نے اسے ’’حب الوطنی‘‘ کے حوالے سے غیر ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ’’قومیا‘‘ لیا۔بعدازاں نیشنل پریس ٹرسٹ کا حصہ بن کر یہ اخبار بالآخر ختم ہوگیا۔

اسرائیل کے ’’حیوم‘‘ یا ’’امروز‘‘ کو ایک طاقت ور امریکی سرمایہ دار شیلڈن ایڈلسن نے شروع کیا تھا۔وہ اسرائیل کا کٹرحمایتی ہے اور سابق وزیر اعظم نیتن یاہو کا دیوانگی کی حد تک مداح۔شیلڈن ایڈلسن پر الزام ہے کہ مذکورہ اخبار نکالنے کے لئے اس نے 50ملین ڈالر کی خطیر رقم صرف کی۔مقصد اس اخبار کا نیتن یاہو کی حکومت اور جماعت کو پراپیگنڈہ کے ذریعے توانا تر بنانا تھا۔لطیفہ یہ بھی ہے کہ خطیر سرمایہ کاری کے ذریعے نکالے اس اخبار کی کوئی قیمت نہیں۔یہ اسرائیل کے بازاروں میں قائم ہوئے سٹالوں پر بھاری تعداد میں رکھا ہوتا ہے۔اس کی کاپی کوبغیر کوئی رقم خرچ کئے کوئی شخص بھی اٹھاسکتا ہے۔مفت میسر یہ اخبار راتوں رات اسرائیل کا مقبول ترین اخبار بن گیا۔اس کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لئے نیتن یاہو کے سیاسی مخالفین نے قانون سازی کی ضرورت بھی محسوس کی۔ ان کا اصرار تھا کہ بازار میں مفت میسر’’حیوم‘‘ قیمت والے روایتی اخبارات کے خاتمے کو یقینی بنارہا ہے۔اسے روکنے کے لئے قانون سازی مگر ہو نہیں پائی کیونکہ نیتن یاہو کے مخالفین کو اسرائیلی پارلیمان میں اکثریت میسر نہیں تھی۔

مذکورہ تفصیلات بیان کرنے کے بعد میں ایک بار پھر یہ سوال دہرانے کو مجبور ہوں کہ اسرائیل اور نیتن یاہو کے کٹر حمایتی ایک امریکی سرمایہ دار کے چلائے اور مفت بٹنے کی وجہ سے مقبول ترین ہوئے اخبار میں گزشتہ برس کے نومبر میں ایک ’’خفیہ دورے‘‘ کی سچی یا من گھڑت’’خبر‘‘ کو جون 2021میں شائع کرنے کی اسرائیلی ملٹری سینسر نے اجازت کیوں دی ہے۔کاش میں اپنے ہی اٹھائے اس سوال کا تسلی بخش جواب فراہم کرسکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے