"علم و امن کی بستی ناروول”

پنجاب کے شمال مشرق میں دریائے راوی کے کنارے واقع تاریخی اور خوبصورت "نارووال” کو ضلع بنے 30 سال ہوگئے. بدوملہی کے رہائشی چوہدری نصیر احمد عتیق ملہی نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ نارووال کو ضلع بنانے کی تحریک شروع کی. 15 سال کی جہد مسلسل کے بعد وہ جولائی 1991 میں نارووال کو ضلع بنوانے میں کامیاب ہوگئے. 1991 سے قبل اس علاقے کا ضلع سیالکوٹ تھا. نارووال شہر بھارت کی سرحد سے تقریبا 4.5 کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے. یہاں پنجابی اور اردو زبانیں بولی جاتی ہیں. جنوب مشرق میں راوی کے ساتھ بھارت کے اضلاع امرتسر اور گورداس پور واقع ہیں جبکہ شمال میں جموں و کشمیر واقع ہے. شمال مغرب میں سیالکوٹ جبکہ شیخوپورہ اور گوجرانوالہ واقع ہیں.

2337 مربع کلومیٹر کے اس خوبصورت ضلع کی کل آبادی 2017 میں 17 لاکھ 9 ہزار 7 سو سے کچھ زائد تھی. نارووال میں ہی دریائے راوی بھارت سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور اس کے علاوہ یہاں نالہ ایک، نالہ ڈیک، نالہ بسنتر،نالہ بئیں اور نالہ بلخو بہتے ہیں.

نارووال کا کشمیر کے ساتھ پرانا، گہرا اور جغرافیائی تعلق ہے،. نارووال کی تحصیل شکرگڑھ کو "باب کشمیر” بھی کہا جاتا ہے. شکرگڑھ کے معروف گاؤں "بڑا بھائی مسرور” سے جموں و کشمیر کی ورکنگ باؤنڈری شروع ہوجاتی ہے. اسی گاؤں سے پاکستان کا سٹینڈرڈ ٹائم لیا جاتا ہے. پاکستان میں سب سے پہلے سورج کی کرن اس گاؤں میں پڑتی ہے. اسی گاؤں سے کشمیری پہاڑیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے. مطلع صاف ہوجانے کے بعد اس علاقے سے جموں و کشمیر کے خوبصورت پہاڑ بالکل صاف دکھائی دیتے ہیں. رات کو کشمیر میں جلنے والی بتیوں کو یہاں سے باآسانی دیکھا جاسکتا ہے. نارووال کی کل تینوں تحصیلیں بارڈر پر واقع ہیں. نارووال کو تین اطراف سے بارڈر لگتا ہے. نارووال کی تحصیل نارووال بھارت جبکہ تحصیل شکرگڑھ اور ظفروال کشمیر کی ورکنگ باؤنڈری پر واقع ہیں.

یہ سرزمین 1965 اور 1971 میں پاک فوج کے بہادر جوانوں کی قربانیوں اور دلیرانہ لڑائی کی بھی شاہد ہے. جسڑ کے مقام پر بابا گرو نانک پل کے ذریعے بھارت نے طاقت کے نشے میں ٹینکوں کے ذریعے چڑھائی کی تو پاکستان ک نڈر بہادر اور دلیر ہیرو نائک عبدالعزیز شہید نے اپنے جسم پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینک اور راوی کے پل کو اڑا دیا جس کی وجہ سے پاکستان میں داخل ہونے والا زمینی راستہ تباہ ہوگیا.

ظفرووال میں سوار محمد شہید نے دشمن کے 16 ٹینک تباہ کیے جس کے بعد جام شہادت نوش فرمایا اور انہیں نشان حیدر دیا گیا.

اس کے علاوہ اس سرزمین کے ہزاروں شہداء نے بھی اس مادر عزیز کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کیں. تحصیل شکرگڑھ تقسیم سے قبل بھارت کے ضلع گورداس پور کی تحصیل تھی. گورداس پور اصولی طور پر پاکستان کے حصے میں آتا تھا مگر تقسیم کے تمام قواعد توڑ کر اس ضلع کو بھارت کی جھولی میں پھینکا گیا اور بھارت کو کشمیر جانے کے لیے زمینی راستہ فراہم کیا گیا. گورداس پور کے علاوہ بھارت کے پاس کشمیر جانے کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا. کشمیر کی واحد ریلوے لائن بھی پاکستان کے ضلع سیالکوٹ سے ہوکر گزرتی تھی جبکہ کشمیر کی تمام تجارت، آمدورفت اور خط و کتابت بھی سیالکوٹ اور راولپنڈی کے راستوں سے ہوتی تھی.

نارووال کی تاریخ بہت دلچسپ ہے. برصغیر میں افغان بادشاہوں کی عہد سلطنت کے وقت یہ خطہ بشمول ریاست جموں و کشمیر "کولو” نامی راجہ کے زیرنگین تھا. راجہ کولو راجپوت نسل کے ہنسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا. کولو کے تین بیٹے پارو، تارو اور نارو تھے. ریاست کی تقسیم کے وقت یہ خطہ نارو نامی بیٹے کے حصے میں آیا. نارو سنگھ راجپوت نے اپنی ریاست کے صدر مقام کے لیے موجودہ شہر نارووال کی جگہ کو آباد کرکے شہر کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا. پیر سید عنایت اللہ شاہ کے ساتھ مکمل مشاورت کے بعد نارو سنگھ راجپوت نے شاہ صاحب کے بیٹے حبیب اللہ شاہ سبزواری اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ اس قصبے کی بنیاد رکھی. روایت ہے کہ نارووال شہر میں کچہری روڈ پر واقع پیر سید حبیب اللہ شاہ کے مزار والی جگہ پر ان کے قافلے نے پڑاؤ کیا اور یہاں ایک بھورے رنگ کے بھینسے کو ذبح کرکے قصبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا. اس قصبے کو آباد کرنے پر اس کا نام نارو سنگھ کے نام پر نارووال پڑگیا. پیر سید حبیب اللہ شاہ کا مزار اور نارو سنگھ راجپوت کی مڑی اسی شہر نارووال میں موجود ہیں. اس قصبہ کو سنکندر لودھی کے زمانے میں آباد کیا گیا. 1857 کی جنگ آزادی کے بعد امرتسر کے ایک پرائمری مشن سکول کو نارووال منتقل کیا گیا جو آج بھی مشن ہائی سکول کے نام سے جانا جاتا ہے. 1928 کو انگریز دور میں نارووال کو تحصیل کا درجہ دیا گیا.

نارووال میں کنجروڑ،سکھوچک،سنکھترہ،قلعہ سوبھاسنگھ،بدوملہی جیسے تاریخی قصبے موجود ہیں. کنجروڑ میں ایک پرانا قلعے کی باقیات بھی موجود ہیں جو محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت کی وجہ سے ضائع ہورہی ہیں. سنکھترہ، بدوملہی اور سکھوچک میں پرانا اور تاریخی ورثہ موجود ہے جس کی تھوڑی بہت دیکھ بھال کے بعد یہاں سیاحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے.

تھانوں میں تھانہ شاہ غریب اور تھانہ باؤلی باگا سنگھ ظفروال قدیم پولیس اسٹیشنز ہیں. نارووال کو علم کی بستی اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں سکول نا جانے والے بچوں کی شرح پورے ملک میں سب سے کم ہے. نارووال کی تحصیل شکرگڑھ میں خواندگی کی شرح 85 فیصد سے بھی زائد ہے. نارووال میں باجوہ،نارو، ملک گجر، مہیس، جٹ، انصاری، لنگاہ، سادات، مہر، میو، راجپوت، ککے زئی، سلہریا، اعوان، چیمہ اور مغل وغیرہ آباد ہیں.

سکھ مذہب کے بانی و پیشواء بزرگ بابا گرو نانک نے اپنی زندگی کے آخری ایام دریائے راوی کے کنارے گزارے اور 22 ستمبر 1539 کو یہیں وفات پائی. ان کا مزار نارووال میں موجود ہے جہاں گردوارہ صاحب کرتار پور بنایا گیا ہے. یہ گردوارہ بھارت سمیت دنیا بھر میں بسنے والے سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ہے. اسی گردوارہ میں ایک کنواں بھی موجود ہے جو بابا گرونانک استعمال کرتے تھے.

نارووال کے چاول بہت مشہور ہیں جن کو دنیا بھر میں بہت پسند کیا جاتا ہے.

نارووال کے ساتھ بہت سارے معروف لوگوں کا تعلق ہے جن میں بھارت کے معروف اداکار، ہدایت کار اور فلمساز دیوآنند، معروف گلوکار و سہارا ٹرسٹ کے بانی اور پی ٹی آئی کے رہنماء ابرارالحق، سابق وفاقی وزیر و بابائے سیاست انور عزیز، چن پیر، تحریک پاکستان کے سرگرم رکن پیر سید جماعت علی شاہ، معروف شاعر فیض احمد فیض، مولانا حیات خان، بیرسٹر علی ظفر، طاہرہ سید، مشاہد حسین سید، سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز، سابق وفاقی وزیر طارق انیس، سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اعجاز چوہدری، موجودہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ قاسم خان اور سابق وزیر داخلہ و موجودہ ایم این اے پروفیسر احسن اقبال صاحب کا نام قابل ذکر ہے.

نارووال کی ترقی میں پروفیسر احسن اقبال صاحب کا نام قابل ذکر ہے. یہ یہاں سے 5 دفعہ ایم این اے منتخب ہوئے، وفاقی وزیر تعلیم، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور وفاقی وزیر داخلہ جیسی اہم ترین وزارتوں کو سنبھالا، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہے.

نارووال میں متعدد کالجز تین یونیورسٹیاں، ریلوے اسٹیشن کی شاندار بلڈنگ، کینسر ہسپتال، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور اسپورٹس سٹی جیسے منصوبے بنائے جس کی وجہ سے آج نارووال ترقی کی دوڑ میں اپنے آس پاس کے تقریبا تمام اضلاع کو پچھاڑ چکا ہے…

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے