اک پیڑ تھا اور اُس پہ آلوچے لگے ہوئے

ملبوسات کے بعد خواتین کو زیادہ شوق شاید باورچی خانے کے سامان کا ہوتا ہے۔ فرائی پین، پتیلے، دیگچیاں، برتن رکھنے کے لیے لوہے کی جالی دار مستطیل ٹوکریاں اور نہ جانے کیا کیا۔ ایک زمانے میں لکڑی کا ایک ڈبہ سا ہوتا تھا جس میں خانے بنے ہوتے تھے۔ ان خانوں میں نمک، مرچ، دھنیا، ہلدی وغیرہ رکھی جاتی تھی۔ اسے لُونکی کہتے تھے۔ (یہ لفظ یقینا لُون سے نکلا ہو گا کیونکہ پنجابی اور سندھی میں نمک کو لُون کہتے ہیں) مگر اب ان چیزوں کو رکھنے کے لیے سو طرح کی شیشیاں اور ڈبے بازار میں موجود ہیں۔ کوئی شیشے کی، کوئی پتھر کی، کوئی لکڑی کی اور کوئی پلاسٹک کی! ہم جیسے سادہ لوحوں کو ڈیکوریشن پیس دکھائی دینے والی شے اصل میں نمک دانی ہوتی ہے!

چنانچہ بیگم کیش اینڈ کیری سٹور کے اُس حصے میں تھیں جہاں کچن کی متفرقات پڑی تھیں اور میں اُس کارنر میں گھوم رہا تھا جہاں ٹیلی ویژن سیٹ رکھے تھے۔ جو ٹی وی سیٹ سستا سمجھ کر لیا تھا اب خراب تصویر دے رہا تھا۔ سو، کچھ مہینوں سے یہی شغل ہے کہ اچھے برانڈ کی قیمت دریافت کر کے آگے بڑھ جائیں کہ بقول فراق ؎
اپنی خریداری بازارِ جہاں میں ہے سو اتنی ہے
جیسے دکاں سے مفلس کوئی چیز اٹھائے پھر رکھ دے

اتنے میں اپنی ہی عمر کے ایک صاحب نظر آئے۔ ان کے ساتھ دس بارہ سال کا بچہ تھا جس نے ان کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ نظر اُس بچے پر ٹھہر گئی۔ دل کے اندر کئی تاروں میں یک دم ارتعاش پیدا ہوا ”یہ آپ کا پوتا ہے‘‘ غیر اختیاری طور پر پوچھا۔ ”جی!‘‘ انہوں نے جواب دیا‘ اور ساتھ ہی مسکراتے ہوئے کچھ اس قسم کی بات کی کہ دادا کو آگے لگایا ہوا ہے۔ اتنے میں بچے کی بات سنائی دی ”کھلونے اُس سائیڈ پر ہیں‘‘۔ جب ہم مال سے نکل رہے تھے تو وہ دادا پوتا بھی نکل رہے تھے۔ دادا نے پوتے کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ بچے کے ہاتھ میں شاپنگ بیگ تھا۔ اس میں یقینا کھلونے تھے۔ میں انہیں جاتا دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ بھیڑ میں کھو گئے۔

یہ ایک عام سا واقعہ ہے۔ ہر روز کتنے ہی دادے اور نانے، بچوں کو بازار لاتے ہیں اور شاپنگ کراتے ہیں‘ مگر جس دادا نے دو سال سے پوتوں اور پوتی کو سینے سے نہ لگایا ہو، انہیں بازار لے کر نہ گیا ہو، انہیں کھلونے، آئس کریم، چپس اور جوس لے کر نہ دیے ہوں، انہیں اپنے دائیں، بائیں، اوپر نہ سلایا ہو‘ انہیں کہانی نہ سنائی ہو، ان کے ساتھ پارک میں دوڑا نہ ہو، ان کے ساتھ کھیلتے ہوئے درختوں کے پیچھے نہ چھپا ہو، انہیں ان کے ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ سے نہ بچایا ہو، سکول جاتے ہوئے انہیں پاکٹ منی نہ دی ہو، چھٹی کے وقت اُن کی خواہش کے مطابق انہیں لینے خود نہ گیا ہو، اُس دادا کے لیے یہ واقعہ عام نہیں!

سکرین پر تو وہ ہر روز دکھائی دیتے ہیں، بات بھی کرتے ہیں، مگر سینہ ہے کہ اس کی تپش کم نہیں ہوتی، بھڑکتی آگ ہے کہ کلیجے میں ٹھنڈی نہیں ہوتی، اس لیے کہ سکرین پر آنکھیں نہیں چومی جا سکتیں، گود میں بٹھایا جا سکتا ہے نہ کندھے پر سوار کیا جا سکتا ہے نہ انگلی پکڑ کر کہیں لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک عجیب فراق ہے جو دادا کو گُھن کی طرح کھائے جا رہا ہے! جو راتوں کو سونے نہیں دیتا۔ دل کے باغ میں وہ جو لہلہاتا سبزہ تھا، سُوکھتا جا رہا ہے۔ بیٹوں کے فراق میں بھی زندگی ایک تپتا سلگتا ریگستان ہے‘ مگر پوتوں اور پوتی کی جدائی اس تپتے سلگتے ریگستان میں ایک بگولا ہے۔ ایک ‘وا ورولا‘ ہے! ایک گُھمن گھیری ہے! بگولا مسلسل چکر کھا رہا ہے اور دادا اس بگولے میں پھنسا، آسانی سے سانس تک نہیں لے سکتا۔ انسان جب تک خود دادا یا نانا نہ بنے، اس درد کو جان نہیں سکتا۔ ماں کے پیٹ میں سانس لیتے بچے کو آپ کیسے سمجھائیں گے کہ باہر کی دنیا کیسی ہے۔ لغت میں ایسے الفاظ ابھی تک ایجاد ہی نہیں ہوئے جو پوتوں پوتیوں‘ نواسوں نواسیوں کی محبت کو بیان کر سکیں۔ کھیل کے سارے ایکٹ دلچسپ ہیں مگر اس آخری ایکٹ کا کوئی جواب ہے نہ نعم البدل! مصروف جوڑے کے پاس اتنا وقت کہاں کہ گھنٹوں بچوں کی باتیں سنیں! بوڑھے ماں باپ کی ضروریات تو پوری کرتے ہیں، محبت بھی کرتے ہیں اور ادب بھی، مگر زندگی کی دوڑ میں اتنا وقت نہیں کہ بیٹھ کر پہروں باتیں کریں! پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، دادا دادی اور نانا نانی کے فطری ساتھی ہیں!

فطری حلیف! دونوں فریق ایک دوسرے کو پورا وقت دیتے ہیں۔ بچہ جب ایک بے ربط کہانی سناتا ہے تو دادا یا نانا ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں! دونوں ایک غیر مرئی زنجیر کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہیں۔ فریقین میں سے کوئی ایک نظر نہ آئے تو دوسرا فریق بے چین ہو جاتا ہے اور ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے۔ بچہ کہتا ہے کہ کھانا کھلائے تو دادا، پرَیم چلائے تو دادا، ساتھ سلائے تو دادا، سکول چھوڑنے جائے تو دادا، اسی لیے تو نوے فی صد والدین کو شکایت ہے کہ ہمارے بچوں کو ان کے نانا نانی یا دادا دادی خراب کر رہے ہیں۔ خراب کے لیے فرنگی زبان کا لفظ ”سپائل‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ ”ابو! آپ اسے سپائل کر رہے ہیں‘‘، اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہاں! کر رہے ہیں! کرتے رہیں گے کہ یہ رول ہمیں فطرت نے دیا ہے۔ ہم اپنے بچوں کے ساتھ سخت گیر تھے۔ اس لیے کہ تب والدین کا کردار ادا کر رہے تھے۔ اب دادا نانا کا کردار ہے۔ فطرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ بچوں کے لیے ان کے ماں باپ بھی سخت گیر ہوں اور دادا دادی‘ نانا نانی بھی سخت گیر ہوں!

بچوں کے لیے نانا‘ دادا ایک ثمر دار درخت کی طرح ہوتے ہیں۔ اس درخت کی چھاؤں انہیں خنک اور آرام دہ لگتی ہے۔ اس کی شاخوں سے وہ پھل توڑ کر کھاتے ہیں۔ اس بچپن میں یہ درخت ہی ان کی کل کائنات ہے۔ پھر ایک دن آتا ہے کہ یہ بچہ خود دادا بنتا ہے۔ تب اسے اپنا دادا یاد آتا ہے اور وہ پکار اٹھتا ہے: ؎
یوں تھا کہ میں بھی چاند تھا، دادا مِرا بھی تھا
اک پیڑ تھا! اور اُس پہ آلوچے لگے ہوئے

اور مت بھولو کہ پوتا قدرت کی طرف سے اپنے باپ کا نگران بھی ہے۔ وہ ایک ایک چیز، ایک ایک بات نوٹ کر رہا ہے کہ اس کا باپ اس کے دادا کے ساتھ کیسا برتاؤ کر رہا ہے۔ یہی برتاؤ کل وہ اپنے باپ کے ساتھ کرے گا۔ اگر باپ اس کے دادا کے آنے پر ادب سے کھڑا ہو جاتا ہے تو کل وہ بھی کھڑا ہو گا۔ علاج معالجہ پوری تن دہی سے کرا رہا ہے تو کل وہ بھی کرائے گا۔ نا فرمانی کر رہا ہے تو کل وہ بھی نا فرمانی کرے گا۔ کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے!

اور ہاں! تم منیجر سے جی ایم بن گئے یا ٹیچر سے ہیڈ ماسٹر یا ڈی سی سے کمشنر یا دکان دار سے سیٹھ تو یہ کوئی پروموشن نہیں! تمہاری اصل پروموشن تو اس وقت ہو گی جب باپ سے دادا یا نانا بنو گے۔ یہ مقام انہی کو ملتا ہے جو خوش بخت ہوں۔ خدا کا شکر ادا کرو کہ یہ مقام زر یا زور سے نہیں ملتا
پوتوں، نواسیوں کے چمن زار! واہ! واہ!
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے
بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے