نئے چینی ٹرک کی پرانی بتی

انسانی مزاج ہے‘ یہ امید پر زندہ رہتا ہے۔ بندہ پھانسی پر لٹکا ہوا تو بھی امید کا دامن نہیں چھوڑتا کہ شاید کوئی کرشمہ ہو جائے۔عظیم روسی ادیب دوستوفسکی فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑے تھے کہ گولی چلنے سے پہلے سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شاید تقدیر کو منظور تھا کہ انہوں نے ”برادرزکرامازوف‘‘ جیسا بڑا ناول لکھنا تھا۔

ایک اور فلم یاد آئی ”Enemy at the Gates‘‘۔ جرمن فوجیں روس کے اندر تک گھس آئی تھیں‘ آخری محاذ سٹالن گراڈ تھا‘ اگر جرمنوں نے یہ بھی فتح کر لیا تو روس جرمنی کے قبضے میں ہو گا۔ روسی افواج سے کچھ نہ بن پارہاتھا۔ کمانڈر حیران تھے کہ اب کیا کریں۔ بھگوڑوں کو گولی مارنے کا حکم بھی دے دیا۔ ایک کمانڈر نے جنگ زدہ علاقے کا دورہ کیا تو پوچھا: کیا کریں کہ جرمنی کو شکست دے سکیں؟ کہیں کونے سے آواز آئی: روسی فوجیوں کو امید دیں۔ان کے پاس کوئی امید نہیں لہٰذا وہ لڑنے کے بجائے بھاگتے ہیں تو آپ کی اپنی فوج انہیں گولی مار دیتی ہے‘ زندگی سے ناامید ہو کر آگے بڑھتے ہیں تو جرمن فوج کی گولیوں سے مارے جاتے ہیں۔زندگی کی امید انہیں زندہ رکھے گی اور امید ہی انہیں جرمنی پر فتح دلوائے گی۔

دنیا کے کامیاب لوگ امید پر ہی زندگی گزارتے ہیں۔motivational speakerبھی اسی ہتھیار کا استعمال کرتے ہیں کہ مایوس انسانوں میں امید بھرتے ہیں۔ اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ مایوسی گناہ ہے۔وہ جو شکست نہیں مانتے وہ دراصل امید پر ہی زندہ ہوتے ہیں۔

ہمایوں کو جب شیر شاہ سوری نے شکست دی تھی تو وہ سات سال ایران میں اسی امید پر بیٹھا رہا کہ کسی دن وہ ہندوستان واپس لے گا ۔ تازہ مثال دیکھنی ہے تو نواز شریف کی دیکھ لیں۔ 2000 ء میں پرویز مشرف سے ڈیل لے کر سعودی عرب اس امید پر گئے کہ پھر لوٹیں گے۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں واپس آئے‘ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے پھر حکومتیں بنائیں۔نواز شریف آج کل پھر امید پر زندہ ہیں کہ 2007 ء کی طرح کوئی کرشمہ ہوگا۔ عمران خان نے بھی اپنی سیاست کی بنیادامید پر رکھی تھی۔ امید پر ہی ورلڈ کپ جیتا اور امید پر ہی سیاست کی اور سب کچھ پا لیا۔

عمران خان نے لوگوں کو امید دلائی کہ پاکستان کو عظیم ملک بنایا جاسکتا ہے۔ ملک کو کرپٹ سیاسی ایلیٹ سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔انصاف کا بول بالا ہوسکتا ہے۔ عام آدمی کی زندگی میں بہتری اور لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ گورنر ہاؤس کی دیواریں گرا کر عوامی پارک بنایا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان سائیکل پر سوار ہو کر دفتر جاسکتا ہے۔ اس ملک میں بھی ساٹھ کے بجائے دس وزیروں کی کابینہ ہوسکتی ہے جو قائداعظم کی کا بینہ کی طرح گھر سے چائے پی کر آئے گی۔ مافیاز کو لگام ڈالی جاسکتی ہے‘ پاکستان مغربی طرز پر جمہوریت چلا کر اقوام عالم میں اپنا مقام پیدا کرسکتا ہے‘ پاکستانی پاسپورٹ کو بھی عزت مل سکتی ہے‘ ملکی اداروں کو بدحالی سے نکالا جاسکتا ہے‘ سٹیل ملز کو بیچنے کے بجائے منافع بخش بنایا جا سکتا ہے‘ سب بھرتیاں میرٹ پر کی جاسکتی ہیں‘ کسی کا لحاظ کیے بغیر سب کو سزائیں اور جیل ہوسکتی ہے‘ کسی اے ٹی ایم کو اپنے قریب نہیں آنے دیا جائے گا۔ یورپی جمہوریت میں وزیراعظم کے بچے مزدور کے بچوں کے ساتھ ایک سکول میں پڑھ سکتے ہیں تو پاکستان میں بھی ممکن ہے‘ برطانوی جمہوریت میں اوپر سے نیچے تک سب جوابدہ ہیں‘ کسی ایک پر الزام لگ جائے تو وہ استعفیٰ دے دیتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ اور سب سے بڑھ کر اگر ایک کرکٹر ملک کا وزیراعظم بن گیا تو پھر کرکٹ تو بہت عروج پر جائے گی‘ پاکستان دنیابھر کے کرکٹ مقابلے جیتے گا۔ دنیا بھر میں جو اعلیٰ عہدے پر بیٹھے لوگ ہیں وہ اگر حکومت کرتے ہیں تو وہ کاروبار نہیں کرسکتے۔ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ ہوگا ‘اگر عمران خان وزیراعظم ہوگا۔

یوں عمران خان نے پاکستان میں سیاسی حکمرانوں اور حکومتوں کی بڑھتی ہوئی کرپشن اور بدامنی کا فائدہ اٹھایا اور امید دلائی۔ کسی سیانے کا قول ہے کہ ہر انسان یا قوم کو درپیش بحران دراصل ایک موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ آپ مردِبحران بن کر نام پیدا کریں۔ عمران خان نے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی کرپشن اور بدعنوانیوں سے فائدہ اٹھایا اور لوگوں کو ایک ایسے پاکستان کی امید دلائی جو پاکستانی قوم نے خوابوں میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ واقعی پاکستان ایسا ملک بھی بن سکتا ہے؟ عمران خان نے جواب دیا کہ بالکل بن سکتا ہے اگر برطانیہ‘ یورپ‘ امریکہ‘ ملائیشیا بن سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں بن سکتا۔ بس ایک لیڈر کی ضرورت ہے ۔

ان امیدوں کے سہارے عمران خان وزیراعظم بنے۔اب یہاں سے ایک اور کہانی شروع ہوئی۔ وزیراعظم سائیکل کے بجائے ہیلی کاپٹر پر دفتر جانے لگا‘ دوستوں کو وزیر لگادیا جو ہر دوسرے سکینڈل میں ملوث پائے گئے‘ ATMs اور ڈونرز کو بڑے بڑے عہدے ملے‘ جنہوں نے دس برس ہیلی کاپٹر پر سیر کروائی تھی انہیں ایک ہی ہلے میں تین ارب روپے کی چینی سبسڈی دے دی جس سے ایک ایسے سکینڈل نے جنم لیا جو آج تک انڈے بچے دے رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے سوداگروں نے اسلام آباد میں بیٹھے چند بڑوں کی چونچ گیلی کی اور پنجاب کی ساری گندم افغانستان نکل گئی اور چالیس لاکھ ٹن روس سے منگوانی پڑی۔ ادویات کے سکینڈل میں چالیس ارب ایک وزیر کما گئے تو وزارت سے ہٹا کر پارٹی کا اعلیٰ عہدہ دے دیا۔ایک اور ڈونر کو تیل اور گیس کا مالک بنایا تو وہ پچیس ارب کا ٹیکا لگا کر چپکے سے امریکہ نکل گیا۔ حفیظ شیخ کو لایا گیا تو وہ اب ملین ڈالرز سکینڈل میں نیب کی تحقیقات بھگت رہے ہیں۔ شیخ صاحب بھی کراچی کے دوستوں کو نوازتے رہے۔تیل کا سکینڈل آیا تو قوم کی جیب سے اربوں نکل گئے‘ IPPs سکینڈل میں اپنے وزیر ملوث نکلے‘ چینی میں تین سو ارب نکل گئے‘ رنگ روڈ سکینڈل میں لندن کا لاڈلا ملوث نکلا جو پک اینڈ ڈراپ دیا کرتا تھا۔ اسی رنگ روڈ سکینڈل میں شیخ رشید نے ڈیڑھ سو کنال ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کو منہ مانگے داموں بیچ دی۔

وہ جنہوں نے جنوبی کوریا کے وزیراعظم کی طرز پر حادثوں پہ مستعفی ہونا تھا وہ ٹرینوں میں درجنوں افراد کے مارے جانے یا بسوں کے حادثوں پر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ جنہوں نے دس وزیروں کی کابینہ بنانی تھی وہ ساٹھ وزیر‘ مشیر اور ڈونرز اور اے ٹی ایمز کو کابینہ میں وزیر بنا چکے ہیں۔ جنہوں نے کھیلوں میں عروج دکھانا تھا انہی کے دور میں کرکٹ تباہ ہوگئی‘ ہاکی غائب اور اولمپکس میں صرف دس لوگ شریک ہوئے۔ جس نے وزیراعظم بن کر پاکستان کو یورپی جمہوریت کا تڑکا لگا کر عظیم قوموں میں لاکھڑا کرنا تھا اور جو ‘ریاست مدینہ‘ کا نعرہ مارتے ہوئے آئے تھے‘ تین سالوں میں سب نظام بھگتا لیے اور پتا چلا کہ ان سب سے پاکستان نہیں بدلا نہ بدلے گا۔ تو پھر کیسے بدلے گا؟خان صاحب نے 2023ء الیکشن جیتنے کے لیے نیا نعرہ تخلیق کیا ہے کہ اب پاکستان بدلے گا تو چینی ماڈل سے بدلے گا۔ وہی بات اب نئی امید دو۔نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دو۔ مزے کی بات کہ لوگ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ بھی جاتے ہیں کیونکہ امید انسان کو زندہ رکھتی ہے اور یہ راز عمران خان بہت اچھی طرح جان چکے ہیں۔اب یورپ‘ برطانیہ‘ جنوبی کوریا‘ ملائیشیا اور امریکی نظام پرانے ہوچکے اب چینی نظام کی باری ہے۔ اندھی امید اور اندھی تقلید کی ماری قوم نے اب عظیم بننا ہے تو پھر چینی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنا ہوگا۔ اس نئے نظام کی تکرار سن کر وہ سردار یاد آیا جو گھر سے نکلا تو کیلے کے چھلکے سے پھسل کر گر پڑا۔ اگلے دن کیلے کا چھلکا پھر وہیں پڑا تھا‘ سردار پھر پھسل کر گر پڑا۔ تیسرے دن پھر نکلا تو کیلے کا چھلکا وہیں پڑا دیکھ کر بولا :ہائے ربا! اج فیر گرنا پؤ گا۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے