جولائی کے مہینے میں سوشل میڈیا پر کئی اہم موضوعات زیر بحث رہے ، جولائی میں سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ جنسی زیادتی اور بچوں کے ساتھ بدفعلی کے واقعات پر بات کی گئی ۔ نور مقدم کیس سب سے زیادہ ہائی لائٹ ہوا . اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر مذہبی انتہا پسندانہ رحجانات آئے روز بڑھتے جا رہے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات نے معاشرے کے انتہا پسندانہ رحجانات کو نمایاں کیا ہے ۔
نور مقدم قتل کیس
20 جولائی کی شام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ملزم ظاہر جعفر کو موقعے سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ملزم ظاہر نے پولیس کو قتل کی وجہ بتاتے ہوئے کہا: ’نور مقدم میرے ساتھ بے وفائی کررہی تھی جس کا دکھ تھا۔ جب پتہ چلا تو اُسے روکا بھی مگر وہ نہیں مانی۔ میرے لیے بے وفائی ناقابل برداشت تھی۔‘پولیس حکام کے مطابق ملزم کا 161 کا بیان ریکارڈ ہو چکا ہے اور بدھ کو انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اب ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھجوایا دیا جائے گا۔ملزم ظاہر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کے صاحبزادے ہیں، جو جعفر گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔ پولیس نے جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکرجعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی حراست میں لیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر نور مقدم قتل کیس میں بہت زیادہ بحث ہو رہی ہے اور اس بحث کی وجہ سے مزید کئی بحثیں شروع ہو گئی ہیں ۔
ZahirJaffar#
NoorMukaddam#
نسیم بی بی ریپ کیس
راولپنڈی چونترہ تھانے کےحدود میں نسیم بی بی کے ساتھ واجد علی نامی شخص نے ریپ کیا ، ریپ کے دوران 14 ماہ کے بچے یوسف گلفام کو تشدد کر کے قتل کر دیا ۔نسیم بی بی کے گلے پر چاقو کا وار کیا ۔ نسیم راولپنڈی کے ڈسٹرکٹ اسپتال میں دم توڑ گئی ۔
#JusticeForNaseemBibi
Noaccountability#
justiceforhumanity#
عثمان مرزا ہراسمنٹ کیس
اسلام آباد کے علاقے ای الیون میں واقع گیس ہاؤس میں عثمان مرزا نامی شخص نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک لڑکے لڑکی کی جنسی کارروئی کرنے کی ویڈیو بنائی ، غلیظ گالیاں دیں اور پھر ویڈیو کے ذریعے انہیں بلیک میل کرتا رہا ۔پولیس نے عثمان مرزا کو گرفتار کیا اور اس کا ریمانڈ لیا جا چکا ہے ۔
#عثمان_مرزا
#UsmanMirza
#harassment
مرد ہونے کے ناطے شوہر کو اعلیٰ مقام حاصل ہونا چاہیے، صدف کنول
جولائی میں ماڈل صدف کنول بھی پاکستانی سوشل میڈیا پر اپنے بیان کی وجہ سے ٹاپ ٹرینڈ رہیں . ان کی حمایت اور مخالفت میں ٹویٹس کیے گئے اور میمز بنائی گئیں ۔ پاکستانی اداکارہ صدف کنول کا کہنا ہے کہ مرد ہونے کے ناطے شوہر کو اعلیٰ مقام حاصل ہونا چاہیے۔نجی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اداکارہ صدف کنول کا کہنا ہے کہ میں سمجھتی ہوں اگر چند اصولوں کو اپنا لیا جائے تو شادی شدہ زندگی کو کامیابی کے ساتھ گزارا جا سکتا ہے، وہ اصول بہت آسان ہیں، آپ کو اپنے شوہر کو شوہر سمجھنا چاہیے۔صدف کنول نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شوہر محنت کر کے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرتا ہے، شہروز کی طرح میں بھی کماتی ہوں لیکن ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی، وہ دن بھی آئے گا جب میں اپنے بچوں کا خیال رکھوں گی، جس طریقے سے مرد عورت کا خیال رکھ سکتا ہے، ایک عورت ایسا نہیں کرسکتی۔تاہم شہروز سبزواری کا اس بارے میں خیال ہے کہ مرد کبھی عورت کی جگہ نہیں لے سکتا اور یہی عورت کا مقام ہے، مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا مقام سمجھنے کی ضرورت ہے، اللہ نے دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ اصول مقرر کر رکھے ہیں، دونوں کی سوچ میں فرق ہے، اگر دونوں ایک دوسرے کا مقام اور رتبہ سمجھتے ہیں تو میرے نزدیک یہ برابری ہے، کچھ مرد خود کو اپنی بیویوں سے ممتاز سمجھتے ہیں۔اداکارہ صدف کنول کہتی ہیں کہ ہمارے شوہر ہماری تہذیب ہیں، میں نے شہروز سے شادی کی ہے جس کا مطلب ہے کہ مجھے ان کے جوتے اٹھانے اور کپڑے استری کرنے ہیں، گھر میں شہروز کی چیز کہاں رکھی ہے میں سب جانتی ہوں، مجھے پتا ہوتا ہے کہ شہروز کو کیا کھانا ہے، مجھے بحیثیت ایک عورت اور اہلیہ ہر چیز کا خیال رکھنا ہوتا ہے، شہروز کو میری چیزوں کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں۔
#SadafKanwal
افغان سفیر کی بیٹی کا مبینہ اغوا
افغان سفیر کی بیٹی سلسلہ علی خیل کے مطابق اُنہیں 16 جولائی کو اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا جب وہ اپنے بھائی کے لیے تحفہ لینے گئی تھیں۔ ان کے بیان کے مطابق اسلام آباد میں بلیو ایریا سے واپسی پر ان کی ٹیکسی میں ایک نامعلوم شخص زبردستی گھس گیا اور اس نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ بعد میں انہیں دامنِ کوہ کے مقام پر گندگی کے ڈھیر کے قریب چھوڑا جہاں سے وہ ایف نائن پارک گئیں . وہاں سے انہوں نے اپنے والد کے دفتری عملے کو بلایا اور گھر پہنچیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ افغان سفیر کی بیٹی ہماری بیٹیوں کی طرح ہے، پولیس نے 11 لوگوں کو پکڑا تھا جن میں چار ٹیکسی ڈرائیور شامل ہیں۔ ان سے تفتیش کا ریکارڈ موجود ہے۔ پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ واقعے کی مکمل تحقیقات اور سیف سٹی کیمروں کی فوٹیجز میں اس بات کے شواہد سامنے نہیں آئے کہ افغان سفیر کی بیٹی کو اغوا کیا گیا تھا۔اسلام آباد پولیس افغان تفتیشی حکام کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے بھی تیار ہے۔افغانستان نے احتجاجاً اسلام آباد میں اپنے سفارت خانے سے تمام عملہ بھی واپس بلا لیا تھا۔افغان سفیر نے حال ہی میں بتایا تھا کہ ان کی صاحبزادی ڈبل ماسٹرز پروگرام کی تعلیم کے لیے بیرون ملک روانہ ہو چکی ہیں۔
اسلام آباد پولیس کے آئی جی قاضی جمیل الرحمن کے مطابق اس کیس میں اب تک 300 سے زائد کیمروں کی 700 گھنٹوں کی فوٹیج کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد اس واقعہ میں ملوث تمام ٹیکسی ڈرائیورز کو حراست میں لے لیا گیا۔اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ افغان سفیر کی صاحبزادی اپنی رہائش گاہ سے سیکٹر جی سیون میں واقع کھڈا مارکیٹ اور اس کے بعد راولپنڈی گئیں۔ جہاں سے وہ دامنِ کوہ اور اس کے بعد ایف سکس اور پھر ایف نائن پارک پہنچیں۔ اس دوران انہوں نے تمام سفر مختلف ٹیکسیوں پر کیا اور پولیس کی تحقیقات کے مطابق کسی بھی جگہ ان پر کوئی تشدد نہیں ہوا۔پولیس کے مطابق چار ٹیکسی ڈرائیورز کو حراست میں لیا گیا اور وہ تمام تشدد کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ پولیس کے مطابق انہیں جو موبائل فون دیا گیا اس کا تمام ڈیٹا ضائع کر دیا گیا تھا۔اسلام آباد پولیس کے اس معاملہ کی تفتیش میں شامل ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ افغان سفارت خانے کی طرف سے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب ابھی حل طلب ہیں۔اُن کے بقول افغان سفیر کی بیٹی راولپنڈی جانے کو تسلیم نہیں کر رہی جب کہ ہمارے پاس اس کے ویڈیو ثبوت موجود ہیں۔سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بہت زیادہ بات ہوئی ۔ یوٹیوبرز نے ویڈیوز بنائیں ۔
#سلسلہ علی خیل
#Silsila Ali Khel
وزیر اعظم کی جانب سے ریپ سے متعلق بیان پر نقطہ نظر کی وضاحت
وزیر اعظم کی جانب سے جون میں ایچ بی او ٹی وی کو انٹرویو دیا گیا ۔ وزیر اعظم نے اپنے انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ریپ کے واقعات کی وجوہات میں ایک وجہ لڑکیوں کا نامناسب لباس ہے ۔ کوئی روبوٹ ہی ہوگا جسے نیم (جاذب نظر )لباس دیکھنے کے بعد مسئلہ پیدا نہ ہو . وزیر اعظم کی اس گفتگو کے بعد پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس پر بحث ہوئی تاہم پاکستان کے مذہبی حلقوں کی جانب سے اس عمل کی زبردست حمایت کی گئی ۔ سراج الحق ، مفتی منیب الرحمان ، انصار عباسی ، اوریا مقبول جان سمیت رائٹ ونگ کے بہت سے لوگوں نے وزیر اعظم کی تقریر کو سراہا ۔اس انٹرویو کے دوران دیے گئے کمنٹس پر سوشل میڈیا میں بہت زیادہ تبصرے کیے گئے ۔ سوشل میڈیا پر #RapeApologistSelectedPM کے ٹرینڈ چلائے گئے اور کچھ لوگوں نے خود کو آئی ایم روبوٹ لکھنا شروع کر دیا ۔
تاہم 27 جولائی کو امریکی ٹی وی ‘پی بی ایس’ کے پروگرام نیوز آور کی میزبان جوڈی وڈرف کو دیے گئے انٹرویو میں میزبان نے استفسار کیا کہ کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کے بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کی وجہ خواتین خود ہیں؟ اس پر وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تھا ان کے بقول ریپ کا نشانہ بننے والا کبھی بھی ذمے دار نہیں ہوتا ہے۔ریپ سے متعلق بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ہے وہ کبھی بھی ایسی نامعقول بات نہیں کریں گے کہ ریپ کا نشانہ بننے والا ہی اس کا ذمے دار ہے۔ خواتین چاہے جو مرضی پہنیں ریپ کا ذمے دار وہی ہے جو یہ گھناؤنا فعل کرتا ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان نے انٹرویو کے دوران کہا کہ وہ صرف پاکستانی معاشرے کی بات کر رہے تھے جہاں جنسی زیادتی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔عمران خان نے مزید کہا کہ جنسی جرائم میں صرف ریپ کے واقعات ہی شامل نہیں ہے بلکہ خواتین کے ریپ کے واقعات کی نسبت بچوں کے خلاف زیادتی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ان کے بقول انہوں نے پردے کا لفظ استعمال کیا تھا اور اسلام میں پردہ صرف لباس کا نام نہیں اور یہ صرف خواتین تک محدود نہیں ہے۔میزبان نے وزیرِ اعظم عمران خان سے سوال کیا کہ کیا پاکستانی معاشرے میں مذہب کی وجہ سے خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنا مشکل ہے؟جواب میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ مغربی معاشروں کے مقابلے میں پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں خواتین کو زیادہ عزت و احترام دیا جاتا ہے۔
مساجد اور مدارس میں بدفعلی کے واقعات کی مزید ویڈیوز
گذشتہ ماہ لاہور کے مدرسے جامعہ منظور الاسلام میں مفتی عزیز الرحمان کی جانب سے ایک طالب علم کے ساتھ جنسی حرکت کے واقعے کے بعد دیگر مسالک کے مدارس کے اساتذہ کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر آرہی ہیں ۔ ان واقعات پر ملک کی کسی بڑی سیاسی ، مذہبی ، تبلیغی اور سماجی جماعت نے کوئی بیان نہیں دیا ۔ ملکی میڈیا بھی خاموش ہی رہا تاہم سوشل میڈیا پر بہت زیادہ اس ایشو پر بات کی گئی ۔مدارس کے طلبہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بھی بنائے گئے .
#اہلِ_علم_مدارس_والے
ریپ کے بڑھتے واقعات
جولائی میں کم سن لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ اسکولوں اور محلوں میں جنسی زیادتی کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ۔ کئی واقعات کی ویڈیوز نے معاشرے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا . ان واقعات کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنائے گئے اور حکومت سے زیادتی کرنے والوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ۔وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ جنسی جرائم میں صرف ریپ کے واقعات ہی شامل نہیں ہے بلکہ خواتین کے ریپ کے واقعات کی نسبت بچوں کے خلاف زیادتی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے
گھریلو تشدد کے خلاف بل کے خلاف مہم
جون کی طرح جولائی میں بھی جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے گھریلو تشدد کے خلاف بل کے خلاف مہم جاری رہی ۔ گھریلو تشدد بل کی مخالفت کرتے ہوئےکہا گیا کہ یہ بل پاکستان کی ثقافت، مذہب اور کلچر کے خلاف ایک سازش ہے جس کا مقصد یہاں کے خاندانی نظام کو تباہ کرنا ہے۔ اس بل کے خلاف سوشل میڈیا پر درج ذیل ٹرینڈ بھی بنا کر چلائے گئے ۔
خاندانی نظام کے خلاف گھریلو تشدد بل نامنظور نامنظور نامنظو
#والدین_کی_خدمت_فرض_ہے
#اصلاح_معاشرہ
#DomesticViolenceBill_Rejected
تحریک لبیک کے ٹرینڈ
تحریک لبیک نے جولائی میں حسب سابق ہفتہ وار بنیادوں پر ٹرینڈ چلائے گئے ۔ان ٹرینڈز میں تحریک لبیک کی جانب سے #سعدرضوی_پرظلم_بندکرو ٹاپ ٹرینڈ رہا جس کا ٹارگٹ دس لاکھ ٹویٹ تھے جن میں تادم تحریر نو لاکھ سے زائد ٹویٹ ہو چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ کالعدم تحریک لبیک کے امیر سعد رضوی کی رہائی کے ساتھ ساتھ کابینہ کی جانب سے پابندی اور دیگر ایشوز بھی زیر بحث لائے گئے ۔ تحریک لبیک کے اہم ایشوز جن پر ٹرینڈ بنائے گئے وہ درج ذیل ہیں ۔
#سعدرضوی_پرظلم_بندکرو
#بلاجواز_گرفتاریاں_بندکرو
#ReleaseLabikan
#TeamRRF
#TLPLawyers
#Mujahid_Team
#لبیک_پرموشن
#ٹی_ایل_پی_پروموشن
#Mujahid_Team
#محافظ_ناموس_رسالت_گرفتارکیوں
#ReleaseSaadHussainRizvi
#رضوی_مشن_جاری_رہے_گا
کچھ دیگر موضوعات جو ٹاپ ٹرینڈ بنے
#سعدرضوی_پرظلم_بندکرو
#نوازکیجنگ_آئینکیجنگ
#Promote9th_and11th_class
#ایک_قوم_ایک_نصاب_پنجاب_سےآغاز
#auratmarchfaisalabad
#CPEC_Road2SuperPower
#پی_ٹی_ایم_تباہ_دے
#بلاول_تم_سےنہ_ہوگا
#JusticeQaziFaezIsa
HabibAkram