وزیر اعظم کی نگاہ بندہ نواز

رب کریم کا سو بار شکر۔ حکومت کی تابعداری دکھانے میں دیگر صحافیوں سے بازی لیتا محسوس کر رہا ہوں۔ وزیر اعظم صاحب کے بدھ کے روز ہوئے قوم سے خطاب سے قبل جو کالم چھپا تھا اس میں صراحت سے بیان کر دیا تھا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ عالمی منڈی پہ حاوی ہوئے رجحان کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ حکومت کو اس کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔ عمران خان صاحب نے اس حقیقت کو مزید واضح کر دیا۔ ساتھ ہی نوید یہ بھی سنائی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں اس تناظر میں مزید اضافہ ہو گا۔ گیس کی قیمت بھی بڑھانا ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ گراں ترین نرخوں پر میسر گیس خرچ کرنے کو ہمہ وقت تیار صارف بھی اپنے گھروں کو گرم رکھنے میں دشواری محسوس کریں گے۔ سردیوں میں روز نہانے کی عادت غالباً ترک کرنا پڑے گی۔

سردیوں کے چھ ماہ ختم ہو گئے تو زندگی میں آسانیاں یقیناً لوٹ آئیں گی۔ وزیر اعظم صاحب نے ٹھوس اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے ہاں صنعت کاری فروغ پارہی ہے۔ کسان بھی تاریخ بناتی تعداد میں گندم اور مکئی پیدا کر رہے ہیں۔ ریکارڈ بناتی اس پیداوار کی بدولت ہمارے دیہات میں جو خوش حالی آئی ہے اس کا اظہار ٹریکٹر اور موٹرسائیکل کی فروخت میں خیرہ کن اضافے کے ذریعے ہو رہا ہے۔ امید ہے کہ موسم بہار شروع ہوتے ہی حال ہی میں خوش حال ہوئے یہ افراد اپنے کنبوں سمیت تفریحی مقامات پر جائیں گے۔ ان مقامات پر ہوٹلوں اور ریستورانوں کا کاروبار بھی چمک اٹھے گا۔

میرے اور آپ جیسے کم اور محدود آمدنی والے بدنصیبوں کو مشکل کے فقط چھ ماہ ہی تو گزارنے ہیں۔ سرد موسم کی وجہ سے نازل ہوئی اذیتیں مگر انسانوں کو دلاور بھی بناتی ہیں۔ ارطغرل ڈرامہ دیکھتے ہوئے غالباً آپ نے اندازہ لگالیا ہو گا کہ گیس سے چلائے ہیٹروں کے ذریعے مہیا ہوئی حرارت انسانوں کو بالآخر کاہل بنادیتی ہے۔ اب ظہیر الدین بابر جیسے دلاور کی داستان بیان کرنے والا ڈرامہ تیار کرنے کی بھی تیاری ہو رہی ہے۔ سمرقند وبخارا کے سرد اور کٹھن موسم ہی نے اسے سخت جان بنایا تھا۔

مزید غور کریں تو آپ یہ بھی دریافت کر سکتے ہیں کہ صنعتی انقلاب درحقیقت برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں اس لئے نمودار ہوا تھا کیونکہ وہاں کا موسم بنیادی طور پر سردہوا کرتا تھا۔ اس موسم نے آگ کی تڑپ بڑھائی۔ آگ کے مشاہدے نے بھاپ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ بھاپ سے فیکٹریوں میں نصب مشینیں چلیں۔ ریل کی ایجاد بھی اس کی وجہ سے ہوئی جس نے غالبؔ کو حیران کر دیا تھا۔

مجھ جیسے قلم گھسیٹ افراد کی تابعداری مگر وزیر اعظم صاحب کی نگاہ بندہ نواز کو نظر نہیں آ رہی۔ اخبار کو ویسے ہی وہ فرسودہ شے شمار کرتے ہیں۔ ذہن سازی ان کے تجربے کے مطابق دور حاضر میں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ اسی باعث جن دنوں وہ اپوزیشن میں تھے تو ہر ٹی وی کے اینکر کو ہمہ وقت میسر رہتے تھے۔ ان کا اسلام آباد میں 2014 کے دوران دیا دھرنا ریگولرپروگراموں کو نظرانداز کرتے ہوئے مسلسل دکھایا جاتا رہا۔ ”جب آئے گا عمران۔“ والا ماحول ہمارے ٹی وی چینلوں نے باہم مل کر ہی تو بنایا تھا۔ ان چینلوں میں تاہم نواز شریف جیسے مبینہ طور پر سیاست دانوں کا روپ دھارے چور اور لٹیروں سے لفافے لینے والے چند بکاؤ بھی براجمان تھے۔ کچھ اینکر وطن دشمن بیانیہ بھی فروغ دیتے رہے۔ عمران خان صاحب اگست 2018 میں وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے تو بکاؤ اور غدار اینکروں کی نشان دہی کردی گئی۔ ان میں سے چند اپنے مالکوں کو سٹارز والے نخرے بھی دکھاتے تھے۔ مالکوں نے اپنا دھندا بچانے کے لئے ان سے فوراً نجات حاصل کرلی۔

عمران خان صاحب کو تاہم اب بھی شکوہ ہے کہ ”تو وفادار نہیں“ ۔ بدھ کے روز ہوئی تقریر کے دورن دکھی دل سے شکوہ کرتے رہے کہ میڈیا میں مہنگائی کو سنسنی خیز انداز میں بڑھاچڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مناسب تربیت سے محروم رپورٹر مائیک اٹھاکر لوگوں سے ایسے سوال کرتے ہیں جو انہیں مہنگائی کی دہائی مچانے کو اکساتے ہیں۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو تھوڑی تحقیق کے بعد یہ بھی بتائے کہ برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں پیٹرول ان دنوں کن نرخوں پر بک رہا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ وہ مغربی ممالک ہیں۔ ہم دو ٹکے کے جاہل صحافی مغرب کے حقائق کو سمجھ نہیں سکتے۔ عمران خان صاحب نے مگر وہاں کئی برس گزارے ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں تو لیکن ہمارے صحافی پاکستان کو خوش حال اور نسبتاً سستا کیو ں نہیں دکھارہے۔

میڈیا سے شکوہ کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے اس تابعداری کو بھی یاد نہیں رکھا جو آزادی اور بے باکی کی بڑھکیں لگاتے اینکر خواتین وحضرات نے حال ہی میں ایک قضیہ کے دوران خاموشی اختیار کرتے ہوئے دکھائی تھی۔ 2014 میں عمران خان صاحب کے کنٹینر کے اردگرد مداحوں کی طرح منڈلاتے صحافی قوم کو یہ بتاہی نہ پائے کہ لاہور کو راولپنڈی سے ملانے والے جی ٹی روڈ پر کاربار حیات کیوں معطل ہے۔ پھر حکم ہوا کہ کاروبار حیات معطل کرنے والوں کو بھارت کے آلہ کار بتایا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ زندگی پھر بھی بحال نہ ہوئی۔ بالآخر مفتی منیب الرحمن صاحب کی فراست سے رجوع کرنا پڑا۔ ان کی نگرانی میں ایک معاہدہ تیارہواہے۔ اس معاہدے کی تفصیلات مگر ہر پل کی خبر رکھنے کے دعوے دار کسی صحافی کے پاس موجود نہیں ہیں۔ 26 سے 27 منٹ تک پھیلے اپنے خطا ب کے دوران عمران خان صاحب نے بھی اس دھرنے کا ذکر نہیں کیا جس نے جی ٹی روڈ پر کاروبار حیات کو کئی دنوں تک معطل کر رکھا تھا۔ اس معاملے پر گفتگو کاکامل اختیار غالباً مفتی منیب الرحمن صاحب کے سپرد کر دیا گیا ہے ۔ ان سے کوئی سوال کریں تو مفتی صاحب لبرل افراد کے لتے لینا شروع ہو جاتے ہیں۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے بقراط عصر اور دور حاضر کے سرسید احمد خان جیسے عقل پرست جناب فواد چودھری صاحب بھی ان دنوں ان کے غضب کا شکار ہیں۔ طالبان کے حتمی مرشد مولانا سمیع الحق کے مستند جانشین علامہ طاہر اشرفی صاحب بھی اپنے ساتھیوں کو حفاظتی حصار فراہم کرنے میں دقت محسوس کر رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی روحانی گدی اگرچہ اس ضمن میں زیادہ کامیاب ہوتی نظر آئی۔

بہرحال دنیا سے بے نیاز ہو کر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا انتظار کریں۔ گیس کو بائیو گیس کی شکل دینے کی کوشش کریں اور اس بات کا سراغ لائیں کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کو T۔ 20 کے مقابلے میں واپس لانے کے لئے افغان کرکٹ ٹیم نے واقعتاً خود کو بیچا ہے یا نہیں۔ غالب سے معذرت کے ساتھ لکھنے کو مجبور ہوں کہ ”تابعداری بشرط استواری“ ہونا چاہیے۔ ہمارے محبوب وزیر اعظم چاہے اس سے بے نیاز ہی رہیں۔ اقبال کی دریافت کردہ خوئے غلامی سے جڑے رہنے ہی میں عافیت ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔

بشکریہ ہم سب

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے