مولانا منیری کی مفتی تقی عثمانی کی کتاب پر رائے اور ہماری چند گزارشات

[pullquote]پہلے مولانا منیری کی یہ تحریر پڑھیں [/pullquote]

کتاب میں دو وجوہات سے ہمیں زیادہ دلچسپی نہیں ہوئی۔
۔ کتاب کنز العمال کی طرح ثانوی درجہ کا مرجع محسوس ہوا۔ اس کی اہمیت تحقیق سے زیادہ جمع کی ہے۔
۔ جنہیں ارقام عالمیہ کہا گیا ہے، ان کا معیاری نمبر بننا مشکل ہے، ایسی کوشش فینسک اور فواد عبد الباقی نے کی تھی، ان سے تلاش میں سہولت تو ہوئی لیکن یہ نمبرات بھی اسٹانڈرڈ نمبرات نہ بن سکے۔
۔ قسط وار چھپنے والی اس قسم کی بڑی خریداری کا بڑا مسئلہ ہوتا، ناشرین باقی جلدیں دینے پر تیار نہیں ہوتے، ابتدا سے تمام جلدوں کو خریدنے پر مجبور کرتے ہیں، ایک ایک جلد چھپتی بھی ہے تو کئی ایک جلدیں درمیان سے چھوٹ جاتی ہیں، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، اردو لغت کبیر، تاریخ الاسلام للذہبی، اور فوات الوفیات للصفدی جرمن ایڈیشن، اور تاریخ دمشق ابن عساکر کی خریداری میں ہمیں کافی نقصان ہوا، اور ایک ایک کتاب مکمل کرنے کے لئے پچیس پچیس سال، اور ایک ایک معرض کا انتظار کرنا پڑا۔
یہ کتاب کونسی علمی ضرورت پوری کررہی ہے،یا اس کی کیا خصوصیات ہیں اس پر ہمارے اہل حضرات ہی بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔

نوٹ : کل ایک دوست نے مولانا منیری صاحب (شاید انڈیا کے مولانا عبد المتین منیری صاحب مراد ہیں) کی فیس بک پر ایک پوسٹ شئیر کی جس میں انہوں نے استاد محترم، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم کی سرپرستی میں ہونے والےحدیثی موسوعی کام "المدونة الجامعة ” کے حوالے سے اپنی عدم دلچسپی کا اظہار کیا تھا، اور اس کی دو تین وجوہات بھی تحریر کی تھیں جو ابھی آپ نے ملاحظہ کیں .
چونکہ مولانا منیری صاحب مدظلہم علمی شخصیت ہیں، اس لیے وضاحت کے طور پر یہ چند سطور تحریر کیے ہیں!

مولانا منیری کی دوسری بات درست ہے، لیکن ظاہر ہے، اس نوعیت کے انسائیکلوپیڈیاز میں یہی ایک صورت ہوسکتی ہے کہ جو جلد چھپتی ہے، اسے مارکیٹ میں لائی جائے! اس میں اس پہلو سے آسانی بھی ہے کہ تیس، چالیس جلدوں کی کتاب چھپنے کے بعد کوئی خریدتا ہے، تو یکمشت ایسی خریداری کی ادائیگی عموما کوئی لائیبریری یا ادارہ ہی کرسکتا ہے، اس لیے انفرادی خریداری کے لیے ہر جلد کی الگ خریداری والی صورت ہی زیادہ آسان ہے!

جہاں تک کتاب کے فنی حوالے سے ان کا اشکال ہے، تو میرے خیال میں فن سے گہری وابستگی رکھنے والی کوئی شخصیت اس بات کا انکار نہیں کرسکتا، کہ "تدوین حدیث” کے حوالے سے تاریخ میں شاید مطلوبہ پہلوؤں سے ایسا جامع، مفید اور تحقیقی کام ہوچکا ہو، چونکہ حدیث کے سندی "مصادر اصلیہ” کا تسلسل تو بقول شیخ ابو غدہ رحمہ اللہ کے ابن عساکر پر ختم ہوچکا، اس کے بعد کے ائمہ فن نے سوائے چند خاص نوعیت کے کتابوں کے، (جن میں سند کے ساتھ روایت لانا یا تو سلسلہ سند کا اتصال مقصود تھا، یا کوئی دوسری خصوصیت) اس طرز کے مجموعات مرتب نہیں کئے، جس کی ظاہر ہے، تدوینی ضرورت ختم ہونے کے علاوہ، ان میں طوالت سند کا مسئلہ بھی تھا، ویسے بھی چھٹی صدی ہجری کے بعد فنون کے تسہیلات کا دور ہے، اسی دور میں مختصرات، تلخصیات یا تسہیلات فنون کے دیگر پہلوؤں پر کام شروع ہوا، اس لیے یہ کہنا کہ یہ تو "ثانوی مصدر” ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، بظاہر درست نہیں ہے!

متقدمین کی حدیثی خدمات، ان کی کتابیں، تصانیف اور بحوث سے اس کام کا کیا تقابل!! ان کی تو ہر کتاب واقعی میں بے مثال اور بے نظیر ہوتی ہے! ان کا لکھا ہوا ایک صفحہ اور ایک ایک سطر اب کی لکھی ہوئی صفحات اور جلدوں پر بھاری ہوتی ہے! لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ "كم ترك الأول للآخر!!! "، اور مالک نحوی نے تو فرمایا تھا:
والليالي كما عهدت حبالى
مقربات يلدن كل عجيب!

اس لیے دعویٰ تو نہیں ہے، مگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ "المدونة الجامعة ” میں ایسی کئی خصوصیات ہیں، جو اس کو دیگر حدیثی مجموعات پر چند حوالوں سے فوقیت دیتی ہیں!
مثلا”کنز العمال” میں علامہ متقی ہندی کا کام بلاشبہ اس زمانے کے لحاظ سے اپنی نوعیت کی منفرد کوشش ہے، مگر آپ چاہیں تو” کنز العمال” سے ایک باب لے لیں، پھر اسی باب کی روایات ” المدونة الجامعة ” میں دیکھ لیں، تو اس کام کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا!

"کنز العمال” میں کہیں ایک ہی روایت کے مختلف اجزاء کو مختلف روایات کی صورت میں پیش کیا گیا ہیں! کبھی تو ایک ہی روایت کی شاہد کو الگ حدیث کے طور پر رکھا گیا ہے! جبکہ یہاں ترقیم میں اس بات کی پوری رعایت رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، کہ ایک حدیث اپنے متابعات وشواہد کے حوالے سے جامع بھی ہو اور مانع بھی ہو!
یہاں "کنز العمال” کی مثال اس لیے دی، کہ صاحب تحریر "المدونة ” کی تشبیہ اس سے دی تھی!
ویسے تو "المدونة الجامعة ” کی خصوصیات کی تفصیل خود ایک تفصیلی مضمون کا متقاضی ہے، جو کبھی انشاءاللہ تعالیٰ پیش کروں گا! سر دست اتنا عرض ہے، کہ یہ خالص "جمع” کا کام نہیں ہے، بلکہ نہایت دقت، عرق ریزی اور فنی معیار کے مطابق تمام دستیاب حدیثی مصادر، مراجع اور مظان کے مطبوعات ومخطوطات سے تمام مرفوع روایات، فن کے ٨٠ مصادر اصلیہ سے ہر روایت کے تمام طرق، اور دیگر سینکڑوں ثانوی مصادر اور غیر معروف مسند فنی اور غیر فنی کتب سے متعلقہ روایات کے شواہد اور مفید إضافات کے حامل طرق کا استقصاء کرکے اس کو ایک "عالمی نمبر ” دیا گیا ہے ، ہر حدیث پر ائمہ فن کا کلام نقل کیا گیا ہے، گویا ایک روایت کی مکمل تخریج کرکے اس کو ترقیمی عمل سے گزارا گیا ہے! چونکہ یہ سارا کام "کتب اور ابواب” کے طرز پر ہے، اس لیے اس تبویبی عمل کے ذریعے فقہ المحدثین تک رسائی آسان کردی گئی ہے!

چونکہ اس عمل میں جن کتابوں سے روایات کی کولیکشن میں استفادہ کیا جاتا ہے، ان کی کیٹیگرائزیشن تین درجات میں کی گئی ہے، پہلا درجہ ان کتابوں کا ہے، جن کے یا تو مصنفین "صنعة حدیدثیة کے ساتھ مشہور ہیں، یا وہ کتابیں متن حدیث کے متعلقہ انواع میں سے کسی ایک نوع پر لکھی گئیں ہیں ، ایسی معروف کتابوں کی تعداد 80 ہیں، جن میں کتب ستة کے علاوہ مشہور مسانید، سنن، مصنفات، موطآت، مستدرکات، مستخرجات اور معاجم شامل ہیں، ائمہ اربعہ کے حدیثی مرویات کی کتابیں ، امام بخاری کی”الأدب المفرد ” اور اجزاء، امام طحاوی کی ” شرح معانی الآثار” اور ” شرح مشکل الآثار” امام بیہقی کی تقریبا تمام حدیثی تصانیف، علامہ طبرانی کے "معاجم ثلاثہ” کے علاوہ "مسند الشامیین” "الطوال ” اور "طرق” من كذب علي متعمدا” أمام طبری کی "تهذيب الآثار ” ابن ابی عاصم کی”الآحاد "”الزهد ” سمیت ابتدائی تدوینی کتب کی اکثریت شامل ہیں، دوسری کیٹیگری میں” جوامع” زوائد، أطراف، تخاریج اور دیگر تسہیلی نوعیت کے ہمہ ثانوی مصادر شامل ہیں، تیسری کیٹیگری میں تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، عقائد، تاریخ، اصول سمیت آٹھ سو سے زائد وہ تمام مستند کتب شامل ہیں، جن میں سند کے حدیثی روایات مذکور ہیں! اس لیے ایک روایت کو ان تمام مراجع میں تلاش کرکے نکالنا، یا ان سب مصادر سے احادیث کی تخریج کے بعد ہم بلاشبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ انسانی کوشش کی حد تک تمام حدیثی مرویات کے استیعاب کی ایک منفرد کوشش ہے! جس میں جمع طرق سے زیادہ فنی حوالے سے احادیث کی تحلیل وتجزیہ، تحقیق، ترقیم اور تبویب پر کام کیا گیا ہے!

جہاں تک اس شبہے کا تعلق ہے، کہ یہ ترقیمی عمل بے فائدہ ہے، اس نوعیت کی کوشش شیخ فواد عبد الباقی مرحوم نے بھی کی، مگر وہ اسٹانڈرڈ نہ بن سکی!

تو اس حوالے سے عرض ہے، کہ فواد عبد الباقی مرحوم کے ترقیم کا تعلق مجموعہ احادیث سے نہیں تھا، بلکہ چند خاص کتابوں کے احادیث کو انہوں نے نمبر وائز کیا، جب کہ یہ تمام مرویات کی ترقیمی کاوش ہے! ویسے فواد عبد الباقی مرحوم کی کوشش اگر چہ قبولیت عامہ نہیں مل سکی، مگر بلاشبہ ان کی نمبرائزیشن اب بھی انہیں مخصوص کتابوں کی حد تک اسٹینڈرڈ ہے، اور اس حوالے سے انہیں کی ترقیم پر عموماً اعتبار کیا جاتا ہے!
ویسے اس ترقیمی عمل کے تناظر میں ہمیں یہ دعویٰ ہر گز نہیں ہے، کہ احادیث کے حوالے سے یہ ضرور اسٹینڈرڈ بنے گا، بلکہ یہ اس نوعیت کی پہلی، سنجیدہ، تحقیقی اور فنی انسانی کاوش ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے، کہ اس مبارک عمل کو عالمی سطح پر پذیرائی ملے گی!
انشاء اللہ تعالیٰ! وما ذالك على الله بعزيز!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے