یکم اگست 2019 کی صبح غیر معمولی تھی۔ اس روز پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کا فائنل تھا۔
شہباز شریف پارلیمنٹ ہائوس میں موجود اپنے چیمبر میں مطمئن بیٹھے تھے کہ اب سنجرانی کوباآسانی گھر بھیج دیا جائے گا۔اپوزیشن کے پاس 100 ارکان کے ایوان میں 64 کی واضح برتری تھی۔
لیگی رہنما شہبازشریف سے ملاقاتیں کرکے انہیں جیت کی پیشگی مبارکباد دے رہے تھے۔ اچانک انہیں بتایا گیا کہ انکی جماعت کا بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان سینیٹر آغا شاہزیب درانی ان سے علیحدگی میں ملاقات کا خواہشمند ہے۔
شہبازشریف نے سینیٹر کو بلالیا۔ نوجوان سینیٹر نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کوبتایا کہ آج سینٹ میں اپوزیشن کے متعدد ارکان یا توغائب ہوجائیں گےیا وہ صادق سنجرانی کوووٹ دے کر اسے جتوا دیں گے۔ ہنستے مسکراتے شہبازشریف نے یہ بات سنی تو ان کے چہرے کی ہنسی حیرت میں بدل گئی۔ شاید انہیں یقین نہ آیا۔نوجوان سینیٹر نے کہا کہ ’’سر دیکھ لیجیے ایسا ہونے جارہا ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی شاہزیب نے متوقع طورپر دھّوکہ دینے والے دس کے قریب اپوزیشن سینیٹرزکے بارے میں بھی انہیں آگاہ کیا۔
اس روزعدم اعتماد کی ووٹنگ سے پہلے شہباز شریف پارلیمنٹ ہائوس سے منسٹرزانکلیو اسلام آباد میں اپنے سرکاری گھر چلے گئے۔ ادھر ٹی وی چینلز اس کارروائی کو براہ راست نشر کررہے تھے جب ایوان میں تحریک عدم اعتماد کارروائی کیلئے پیش کی گئی تو اپوزیشن کے 64 ارکان نے اسکی حمایت کی۔
شہبازشریف مطمئن ہوگئے کہ نوجوان سینیٹرکی بات غلط ہے لیکن خفیہ ووٹنگ کے بعد نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ اپوزیشن کے 14 سینیٹرزنے تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ بڑا شوروغوغا ہوا۔ سنجرانی البتہ جیت گئے۔ اب کرم فرما بتاتے ہیں کہ اسوقت مہربانوں نے اپوزیشن کے 22 سینیٹرزکو خریدا تھا جن میں سے 8 نے آخری وقت پر اپنی جماعتوں کو دھوکہ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔
اس روز پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن کے ہاں صف ماتم بچھی تھی۔ ن لیگی رہنما پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی کے ارکان، ن لیگ کے سینیٹرز پر دھوکہ دہی کے الزام عائد کررہے تھے۔
یہ الزام بھی لگایا جارہا تھا کہ ایک رات قبل آصف علی زرداری نے ایک پراپرٹی ٹائیکون سےملاقات کی تھی جس میں خفیہ طورپر کچھ طے پاگیا تھا۔خیردونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے ملاقات کے بعد مشترکہ طور پر تحقیقات کروانے کی بجائے اپنی اپنی جماعتوں کے اندرتحقیقات کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی نے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، نیربخاری، سعید غنی، فرحت اللہ بابر اور صابربلوچ پرمشتمل تحقیقاتی ٹیم کا اعلان کیا تو ن لیگ نے رانا تنویر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس میں سینیٹر اور سابق آئی جی پولیس رانا مقبول بھی شامل تھے۔ دونوں بڑی جماعتوں نے وقتی طورپر یہ اعلان تو کردیا مگرآج تک عوام کو یہ نہیں بتایا کہ انکی تحقیقات کا نتیجہ کیانکلا؟نجی ملاقاتوں میں بتایا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی تحقیقات میں کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہ آسکے کیوںکہ ان کے پاس ایسےجدید وسائل موجود ہی نہیں کہ جن سے ضمیر فروش سینیٹرزکا پتہ چلایا جاسکے۔
2019 میں سینیٹ کی شکست کے باوجوداب پیپلزپارٹی اورن لیگ ایک بارپھر تحریک عدم اعتماد کا کھیل کھیلنے جارہی ہیں۔ پیپلز پارٹی شروع دن سےایوان کے اندرتبدیلی کی خواہاں ہے جبکہ ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیرعام انتخابات کومسائل کاحل قراردیتی ہے۔ ن لیگ کے موقف میں ایک تبدیلی ضرورآئی ہے وہ یہ کہ نوازشریف نےتحریک عدم اعتماد کی پیپلزپارٹی کی طرف سے دی گئی تجویزکومنظورکرلیا ہے،تاہم وہ چاہتے ہیں کہ یہ کارروائی نئےانتخابات کا دروازہ کھولے۔
ظاہر ہے کہ ن لیگ ایوان کےاندرتبدیلی کی صورت میں وزارت عظمیٰ کی خواہشمند نہیں۔ وہ ضروری قانونی تبدیلیوں کے بعد عام انتخابات کے راستے وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ اس کے ساتھ دلیل یہ بھی دی جارہی ہے کہ حکومت کی نااہلی کے باعث اس بار اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ نہیں یا وہ خاموشی سے اسکا ساتھ چھوڑ چکی ہے حالانکہ ایسا کچھ نظرنہیں آرہا۔
سچی بات یہ ہے کہ مجھے ابھی تک عمران خان تو تبدیل ہوتے نظرنہیں آرہے البتہ عمران خان مارچ تک مئی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی تیاری کے سلسلے میں گورنرپنجاب کوضرورتبدیل کرنے جارہے ہیں۔ ادھرعمران خان کی طرف سے یہ نظریہ کہ پاکستان میں کرپشن تمام مسائل کی جڑ ہے بری طرح پٹ رہا ہے لوگ کمزور معاشی پالیسیوں کے باعث مہنگائی سے بلک رہے ہیں مگرکوئی مدد کرنے والا نہیں۔
حکومت اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کیلئے نوازشریف کو وطن واپس لا کر جیل میں بند کرنے کے اعلانات بھی کرتی رہی ہے مگر ان کے اپنے مشیرِ احتساب شہزاد اکبر نے 18 جنوری کو ہونے والے کابینہ کمیٹی کے بند کمرہ اجلاس کو بتایا ہے کہ نوازشریف کو برطانیہ سے واپس لایا جانا آسان نہیں۔ انہوں نے اجلاس میں عارف نقوی کا حوالہ بھی دیا کہ کس طرح امریکہ، برطانیہ سے عارف نقوی کی حوالگی کے لیے بے بس ہوا بیٹھاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ سب بند گلی میں ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ نے سب کو اپنی طاقت سے کنٹرول تو کررکھا ہے مگر وہ بار بار سیاست میں مداخلت کے باعث تیزی سے غیر مقبول ہورہی ہے۔ ادھر تحریک انصاف کو حکومت کرنا آرہا ہے نہ اپوزیشن جماعتوں کواپوزیشن کرنا۔ سب ہلکی آنچ پر’’ابالیاں‘‘ کھارہے ہیں۔
اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد شاید وزیراعظم عمران خان کی بجائے اسپیکرقومی اسمبلی یا چیئرمین سینٹ کے خلاف آتی نظر آرہی ہے۔ حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک عملی طورپرمجھے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کیتلی میں رکھے اس گرم پانی کی مانند لگتی ہے، جو ابل رہا ہے اس میں سے بھاپ بھی نکل رہی ہے مگر اسے کیتلی سے گرنے نہیں دیا جارہا۔
بشکریہ جنگ