افواہوں کی وجہ سے تدفین کے دوران ایس او پیز پر عمل نہیں ہوسکا

گلگت  بلتستان کرونا کے اموات کے اعتبار سے سب سے خطرناک رہا۔ پاکستان میں پہلے ڈاکٹر شہید کا تعلق گلگت  بلتستان سے تھا اور ملک کے ابتدائی 6اموات میں 4کا تعلق گلگت  بلتستان تھا۔ اسی لہر کی وجہ سے گلگت  بلتستان کے لوگ بھی خوف میں مبتلا تھا۔ پاکستان کے ڈاکٹرکمیونٹی سے کرونا کا شکار ہونے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض کے بعد پیرامیڈیکل مالک اشتر بھی ان افراد میں شامل ہوئے جو شروع میں اس وباء کا شکار ہوئے تھے۔

گلگت نگر سے تعلق رکھنے والے پیرامیڈیکل سٹاف مالک اشتر کی آخری رسومات کرونا وباء کے عروج میں ادا کی گئی اور تمام روایات و رواج سے دور رکھتے ہوئے ان کی تدفین کی گئی۔ گوکہ بعد میں لواحقین نے دوبارہ تمام رسومات ادا کردئے تاہم سوشل میڈیا میں ان کی تدفین کے تصاویر نے جہاں ایک طرف لوگوں کو مزید خوفزدہ کردیا وہیں پر افواہ برگئیڈ کو مزید شہہ دی اور انہوں نے افواہوں کا سلسلہ تیز کردیا کہ کرونا سے مرنے والوں کی میتوں کو فروخت کیا جاتا ہے اس لئے ایس او پیز کے نام پر لوگوں سے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ان افواہوں کی وجہ سے لوگوں میں کرونا کی ایس او پیز بالخصوص تدفین کے دوران کی ایس او پیز پر عملدرآمد کرنے کا شعور کم ہوتا گیا۔

گلگت بلتستان میں کرونا وباء کی لہر شروع ہونے سے لیکر اب تک 190 افراد سرکاری رپورٹ کے مطابق لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ ان 190 افراد میں صرف ڈاکٹر اسامہ ریاض اور پیرامیڈیکل سٹاف مالک اشتر کی تدفین کرونا وائرس کی ایس او پیز کے مطابق کی گئی۔

گلگت  بلتستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی منظر شگری بھی کرونا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں، ان کے گھر میں مجموعی طور پر تین افراد کرونا وائرس کا شکار ہوئے تھے جن میں ان کی بڑی بہن کا انتقال بھی ہوگیا۔

منظر شگری کہتے ہیں کہ میں راولپنڈی میں تھا تو مجھے خبر ہوئی کہ بڑی بہن بیمار ہے، بیماری کا یہ دورانیہ زیادہ نہیں رہا بلکہ تین چار دنوں تک ہی جاری رہا اور وہ انتقال کرگئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب گلگت میں کرونا ٹیسٹ کے لئے مسائل بہت زیادہ تھے۔محکمہ صحت کے پاس اس حوالے سے وسائل کی کمی تھی اور روزانہ کی بنیاد پر بڑی مشکل سے 100افراد کا ٹیسٹ لیا جاتا تھا اور اس کا نتیجہ کئی دنوں کے بعد جاری ہوتا تھا۔

گلگت ریجنل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر خالد کا شمار ان ڈاکٹروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ابتدائی ایام میں وباء سے متاثرہ علاقوں میں خدمات سرانجام دیں۔ ڈاکٹر خالد کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں ابتدائی چند ماہ تک کرونا کے ایس او پیز اور تدفین کے معاملات میں ایس او پیز کا خیال رکھا جاتا تھا تاہم بعد میں لوگوں نے ایس او پیز سے زیادہ افواہوں پر توجہ مرکوز کرنی شروع کردی۔ بعد میں جتنے اموات ہوئے ہیں ان میں تدفین کے دوران ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ تدفین کے دوران ایس او پیز کو نظر انداز کرنے میں جہاں افواہوں نے اپنا بازار گرم کئے رکھا وہی پر سیاسی شخصیات کی اموات بھی ایس او پیز کو نظر انداز کرنے اور بالائے طاق رکھنے کا سبب بن گئیں۔

منظر شگری کہتے ہیں کہ ہم نے گھر میں حتیٰ الامکان کرونا ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے کی مکمل کوشش کی اور بڑی حد تک تدفین میں ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ مجموعی طور پر جتنے تدفین کے معاملات ہوئے ان میں ایس او پیز پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ تدفین کے دوران ہر قسم کے مذہبی رسومات و عقائد پر اسی طرح عمدلرآمد کرایا جاتا رہا جیسے پہلے کئے جاتے تھے۔

منظر شگری کہتے ہیں کہ بڑی بہن کا کرونا کا ٹیسٹ تو نہیں کروایا گیا تھا لیکن اس پر کرونا کے آثار ظاہر ہوئے تھے اور بعد ازاں ان کے ایکسرے سے بھی معلوم ہوا کہ ان کا سینہ کرونا کی وجہ سے بہت متاثر ہوا تھا، ان کے ایکسرے اور کرونا کے دیگرمریضوں کے ایکسرے میں کوئی فرق نہیں تھا۔ کرونا کا ٹیسٹ نہ کرائے جانے کے باوجود ہم نے نہ صرف تدفین مکمل ایس او پیز کے ساتھ کی بلکہ گھر میں بھی ایس او پیز پر مکمل عملدرآمد کرایا۔

منظر شگری بعد ازاں خود بھی کرونا وائرس کا شکار ہوگئے، آثار ظاہر ہونے کے ساتھ ہی انہوں نے خود کو گھر سے الگ کرکے قرنطینہ کرلیا اور محکمہ صحت سمیت تمام زمہ داران سے رابطے کرکے اپنا کرونا کا سیمپل دیا جس کا چند روز بعد رزلٹ آیا اور وہ مثبت نکلا۔ اس دورانیہ میں ان کی صحت بھی بگڑتی چلی گئی، اور انہیں گلگت سب ڈویژن دنیور میں محمد آباد ہسپتال میں داخل کردیا گیا۔ ان کی ایک اور چھوٹی بہن پر کرونا کا شکار تو ہوگئی لیکن خوش قسمتی سے ان کی صحتیابی بہت جلدی ہوئی اور صحت سے متعلق زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

منظر شگری ان افواہوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شروع شروع میں تو صرف افواہیں ہی چل رہی تھیں، حتیٰ کہ لوگ ڈاکٹروں کی بھی سننے کو تیار نہیں تھے۔ قسم قسم کے فیس بک پیجز کے زریعے افواہیں پھیلائی جاتی رہی اور ہر شخص کسی نہ کسی خوف کی بنیاد پر اس وباء کو سازش سمجھتا اور افواہوں پر یقین کرلیتا۔ ان کا ماننا ہے کہ گلگت  بلتستان میں اگرچہ تدفین کے بعد میت کو فروخت کرنے کی افواہ اتنی تیزی سے نہیں پھیلی اور ممکن ہے کہ کسی مخصوص گروہ تک ہی رہی ہو، لیکن ان میں زرہ برابر بھی صداقت نہیں تھی۔ کرونا کے دوران جتنی اموات ہوئی ہیں ان سب کو کرونا کے ایس او پیز کے ساتھ تدفین کردی گئی ہے۔ پیرامیڈیکل سٹاف مالک اشتر کی تدفین میں البتہ ایس او پیز بہت زیادہ سخت رکھے گئے اور ورثاء و لواحقین کو بھی دور رکھنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم بعد ازاں لواحقین نے رسومات اور فاتحہ خوانی کے تمام تقریبات کا انعقاد کیا اور ان میں بھی ایس او پیز پر عمل کئے رکھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے