سوشل میڈیا کا ہاتھ آیا اُسترا

اجتماعی بصیرت پر مبنی ایک کہانی بہت مہارت سے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ اُسترے کو بندر کے ہاتھ نہ جانے دو۔وہ اُسترے کو لے اُڑے تو کسی اور کو نہیں بالآخر خود ہی کو لہولہان کردیتا ہے۔

سوشل میڈیا دورِ حاضر میں بے تحاشہ انسانوں کے لئے بدترین لت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔اس کے منشیات جیسے طاقت ور اثر کے ادراک کے بعد کئی ممالک کی حکومتوں اور طاقت ور اشرافیہ نے عوام کو حقیقی مسائل سے غافل رکھنے کے لئے اُجرتی لکھاریوں کے غول تیار کئے۔وہ کسی ایک موضوع پر جنونی توجہ کے ساتھ پیغامات تیار کرنے کے بعد انہیں سیلاب کی صورت سوشل میڈیا پر پھیلادیتے ہیں۔پیغامات کا یہ سیلاب معاشرے میں اندھی نفرت وعقیدت پرمبنی ہیجان کو بھڑکائے رکھتا ہے۔انجام اس ہیجان کا اگرچہ بندر کے ہاتھ آئے اُسترے کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔

تحریک انصاف پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے 2011ء سے سوشل میڈیا کو اپنا بیانیہ فروغ دینے کے لئے انتہائی منظم اور ماہرانہ انداز میں استعمال کیا۔ اس کی بدولت جنونی مداحین کی ایک کھیپ تیار ہوئی جو اپنے مخالفین کو بدی اور بدعنوانی کی قابل نفرت علامتیں بناکر پیش کرتی رہی۔معاملات جب حد سے بڑھ گئے تو تحریک انصاف کے مخالفین نے بھی سوشل میڈیا ہی کے ذریعے جوابی جنگ برپا کردی۔تحریک انصاف کا دریافت کردہ ہتھیار اس ہی کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال ہوتا نظر آیا۔جوابی وار سے گھبراکر حکومت پیکا جیسا قانون بنانے کو مجبور ہوئی۔ پارلیمان ابھی تک مذکورہ قانون کی توثیق نہیں کرپائی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اگرچہ اسے غیر مؤثر بنانے کو آئینی اور قانونی اعتبار سے سنجیدہ اور اہم ترین سوالات اٹھادئیے ہیں۔سوشل میڈیا پر جاری جنگ البتہ بھرپور انداز میں جاری ہے۔

اس جنگ ہی کے تناظر میں جمعرات کی صبح میں واقعتا حیران وپریشان ہوگیا۔اخبار میں چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لئے لیپ ٹاپ کھولا تو ٹویٹر پر ایک ٹرینڈ چھایا ہوا نظر آیا۔مذکورہ ٹرینڈ کے ذریعے شدومد سے مطالبہ ہورہا تھا کہ اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر کو پاکستان سے نکال دیا جائے۔اس مطالبے کی حمایت میں پوسٹ ہوئے پیغامات کا سرسری جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ سوشل میڈیا پر حاوی غول محبان وطن پُر یقین ہے کہ اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر اپوزیشن رہ نمائوں سے رابطہ میں ہے۔چند افراد یہ دعویٰ بھی کررہے تھے کہ وہ اپوزیشن رہ نمائوں کو ڈالر فراہم کررہا ہے۔غالباََ مبینہ مالی معاونت کے ذریعے وزیر اعظم عمران صاحب کے خلاف قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔

عملی صحافت سے عرصہ ہوا اپنی اوقات دریافت کرنے کے بعد میں ریٹائرہوچکا ہوں۔ اپنے تجربے اور پرانے تعلقات کی بدولت امور خارجہ کی بابت چنداہم خبروں کا گوشہ نشینی کے باوجود مگر واجبی علم میسر ہوجاتا ہے۔ اس تناظر میں سرکو کھجا یا تو خیال آیا کہ اسلام آباد میں امریکی سفیر نے تو ابھی تک اپنا منصب ہی نہیں سنبھالا ۔یہ منصب سنبھالے بغیر وہ اپوزیشن جما عتوں سے مبینہ روابط کس انداز میں استوار کئے ہوئے ہے۔

گزشتہ دو سے زیادہ برس کے دوران اسلام آباد میں امریکی سفیر تعینات ہی نہیں تھا۔طویل وقفے کے بعد صدر بائیڈن نے چند ہفتے قبل ایک سفارت کار کو بالآخر اس عہدے کے لئے نامزد کردیا۔امریکی صدر کی جانب سے ہوئی ایسی نامزدگی کو وہاں کے سینٹ سے توثیق درکار ہوتی ہے۔مطلوبہ توثیق بھی تقریباََ دو ہفتے قبل فراہم کردی گئی تھی۔مجھے خبر نہیں کہ مذکورہ توثیق کے بعد نامزد ہوا امریکی سفیر پاکستان آچکا ہے یا نہیں۔

فرض کیا موصوف پاکستان تشریف لا بھی چکے ہیں تو اپنے فرائض منصبی کو باقاعدہ انداز میں ادا کرنے سے قبل امریکی سفیر کے لئے لازمی ہے کہ وہ صدر پاکستان کو اپنی اسناد سفارت پیش کرے۔ اسلام آباد میں تعینات ہوئے سفیر اسناد سفارت کو صدرِ مملکت کے روبرو چند سفارتی روایات کے تحت منعقد ہوئی ایک تقریب کی بدولت پیش کرتے ہیں۔مثال کے طورپر جب سفیر ایوان صدر پہنچتا ہے تو اسے بگھی میں بٹھا کر مرکزی دروازے تک پہنچایا جاتا ہے۔اس تقریب کی اہمیت اور رونق کو اجاگر کرتی تصاویر اخبارات میں اشاعت کے لئے بھجوائی جاتی ہیں۔ ٹی وی سکرینوں کے لئے بھی مذکورہ تقریب کے خصوصی کلپس تیار ہوتے ہیں۔ٹی وی میں دیکھتا نہیں۔اخبارات کا پلندہ مگر بہت غور سے پڑھتا ہوں۔ مجھے ایسی کوئی تقریب ہرگز یاد نہیں آرہی جہاں پاکستان کے لئے نامزد ہوئے امریکی سفیر نے ہمارے صدر کو اسناد سفارت پیش کی ہوں۔

پنجابی کا ایک محاورہ چند ’’اچکوں‘‘ کا طنزیہ تذکرہ کرتا ہے جو کسی ’’پنڈ‘‘ یا گائوں کے آباد ہونے سے قبل ہی اسے لوٹنے کے منصوبے بنانا شروع ہوجاتے ہیں۔سوشل میڈیا پر مسلط کئے محبان وطن بھی امریکی سفیر کی اسلام آباد تعیناتی سے قبل ہی اسے پاکستان سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کرنا شروع ہوچکے ہیں۔

امور خارجہ کا طالب علم ہوتے ہوئے میں خود کو یہ اصرار کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر امریکی سفیر کے خلاف جوٹرینڈ چلایا گیا ہے اسے واشنگٹن میں بہت فکر مندی سے لیا جائے گا۔امریکی وزارت خارجہ کے واشنگٹن میں موجود کئی سینئر افسر پہلے ہی بہت حیران ہیں کہ پاکستانی عوام کو کس بنیاد پر یہ بتایا جارہا ہے کہ افغانستان سے ذلت آمیز انداز میں انخلاء کے بعد امریکہ نے اس ملک پر نگاہ رکھنے کے لئے پاکستان سے فوجی اڈے جیسی سہولت کا تقاضہ کیا۔ ہمارے وزیر اعظم نے Absolutely Notکہتے ہوئے لیکن مبینہ استدعا کو حقارت سے مسترد کردیا۔ اس ضمن میں وضاحت کے لئے اسلام آباد میں تعینات امریکی ناظم الامور نے ہمارے ایک سینئر صحافی کو انٹرویو بھی دیا تھا۔ابھی وہ قضیہ ختم نہیں ہوا اور نئے الزامات کی بوجھاڑ شروع ہوگئی جو یہ تاثر دینے میں مصروف ہے کہ عمران خان صاحب کی جارحانہ وطن پرستی سے گھبراکر امریکہ اور اس اتحادیوں نے انہیں وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کی ’’سازشیں‘‘ شروع کردی ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد نازل ہوئی سرد جنگ کے دوران امریکہ نے یقینا کئی ممالک کے اندرونی معاملات میں ڈھٹائی سے مداخلت کی۔ایران میں ڈاکٹر مصدق اور چلی میں آلاندے کی حکومتوں کا خاتمہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔پاکستان کے سیاستدانوں کو مگر یقین مانیے امریکہ نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ وہ اپنے اہداف کے حصول کے لئے ایو ب خان،جنرل ضیاء اور جنرل مشرف جیسے دیدہ وروں کی معاونت کا طلب گار رہا اور اس ضمن میں وہ کبھی مایوس بھی نہیں ہوا۔

عمران خان صاحب کے متوالوں کو اپنے دیدہ ور کی سیاسی مشکلات کا امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز کرنا چاہیے۔امریکہ میں پاکستانیوں کی اکثریت دل وجان سے عمران خان صاحب کی گرویدہ ہے۔وہ ان کی بنائی سیاسی جماعت کے علاوہ ان کی جانب سے چلائے ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے لئے بھی بھاری بھر کم رقوم فراہم کرتے ہیں۔واشنگٹن کو ایسی ترسیلات روک دینے کو خدارامت اُکسائیے۔ سوشل میڈیا کا جو اُسترا آپ کے ہاتھ لگ گیا ہے اسے خود کو لہولہان کرنے کے لئے استعمال نہ کیجئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے