’’پانچویں پشت‘‘ کی ابلاغی جنگ

پیر کی صبح اُٹھتے ہی ’’نوائے وقت‘‘ میں معمول کے مطابق چھپا اپنا کالم دیکھا تو شرمندہ ہوگیا۔ اس کی سرخی میں ’’پانچویں نشست‘‘ کی ابلاغی جنگ کا ذکر تھا۔ لکھنا جبکہ میں پانچویں ’’پشت‘‘ چاہ رہا تھا۔ ’’پشت‘‘ کا ’’نشست‘‘ میں بدل جانا مجھے پریشان کرگیا۔غلطی تاہم سراسر مجھ سے سرزد ہوئی تھی۔ کالم کو دفتر بھیجنے سے قبل عجلت میں پروف ریڈنگ کرتے ہوئے اسے دیکھ نہیں پایا۔معذرت کا طلب گار ہوں۔

معذرت بالخصوص اس لئے بھی درکار ہے کہ جب مذکورہ نوع کی جنگ کے لئے وطن عزیز کے نوجوان ذہنوں کو تیار کیا جارہا تھا تو میں تواتر سے اس کالم کے ذریعے ’’محتاط‘‘ رویہ اپنانے کی فریاد کرتا رہا۔ مذکورہ جنگ کو5th Generation War پکارا گیا۔ ابتداََ میں نے اس کا اردو متبادل ’’پانچویں نسل‘‘ کی ابلاغی جنگ تصور کیا۔بعدازاں ہمارے ایک دوست صحافی رضی دادا نے اسے اپنے سے مختص انداز میں ’’پانچویں پشت‘‘ کہا تو مجھے اچھا لگا اور ’’نسل‘‘ کا استعمال ترک کردیا۔’’نسل‘‘ کی ’’پشت‘‘ میں تبدیلی مجھے کیوں بھائی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مجھے اندرون لاہور کے کسی تھڑے پر بیٹھ کر گفتگو کرنا ہوگی۔اخبار کے لئے لکھا کالم میرے جواب کو مناسب پلیٹ فارم مہیا نہیں کرتا۔

پھکڑپن سے گریز کرتے ہوئے اصرار کرنا ہے کہ ’’ابلاغی جنگ‘‘ پاکستان ہی میں نہیں دنیا بھر کو ان دنوں پریشان کئے ہوئے ہے۔ امریکہ میں اس کا چرچا 2016 میں ہوئے صدارتی انتخاب کے دوران چھڑا تھا۔ ہیلری کلنٹن کا انتخابی مرکز چلانے والوں کی ای میل ہیک کرلی گئیں۔ انہیں ٹرمپ کے حامیوں نے ڈیموکریٹ پارٹی کی ’’اشرافی خصلت‘‘عیاں کرنے کے لئے ماہرانہ انداز میں استعمال کیا۔امریکہ کے جاسوسی اداروں نے کافی تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کیا کہ روس کے جاسوسی اداروں نے اس ضمن میں اپنی مہارت استعمال کی تھی۔ امریکہ کے جاسوسی اداروں کے خیال میں روسی صدر پوٹن ہیلری کلنٹن کوامریکہ کے ’’دائمی حکمرانوں‘‘ اشرافیہ یا ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کی حقیقی نمائندہ تصور کرتا تھا۔اسے خدشہ تھا کہ وہ اگر صدر منتخب ہوگئی تو روس کو اس کی ’’اوقات‘‘ میں رکھنا چاہے گی۔ ہیلری کلنٹن کے برعکس ٹرمپ کو روس نے ’’بھولا‘‘ تصور کیا جو عالمی سیاست کے تقاضوں سے غافل تھا۔فقط ایک کاروباری شخص جو امریکہ کو دفاعی اعتبار سے توانا تر بنانے کے بجائے اپنے ملک کو غیر ملکی تارکین وطن سے محفوظ رکھتے ہوئے معاشی اعتبار سے مضبوط تر دیکھنا چاہ رہا تھا۔مبینہ طورپر ٹرمپ کی انتخابی مہم کامیاب کروانے میں روس کے جاسوسی اداروں کی ایجاد کردہ ’’فیک نیوز‘‘ نے مؤثر کردار ادا کیا تھا۔

امریکی انتخاب پر ’’فیک نیوز‘‘ کے پھیلائو کی وجہ سے اثرانداز ہونے کی قوت نے ہمارے محافظوں کوبھی چوکنا بنادیا۔ انہیں فکر لاحق ہوگئی کہ ہمارے بھارت جیسے ازلی دشمن بھی ’’فیک نیوز‘‘ کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کرسکتے ہیں۔ اس امکان کا تدارک لازمی تصور ہوا اور ’’ابلاغی جنگ‘‘ کے لئے جسے ’’پانچویں نسل‘‘ کی جنگ ٹھہرایا گیا تھا ’’سپاہ ٹرول‘‘کھڑی کرنے کی کاوشیں شروع ہوگئیں۔

میں فریاد کرتا رہا کہ ’’بندر کے ہاتھ میں استرا‘‘ نہ دیا جائے۔ ابلاغ کا ہنر فطری مہارت کا تقاضہ کرتا ہے۔ برطانوی ایمپائر کے عروج کے دنوں میں وہاں ’’سورج بھی غروب‘‘ نہیں ہوتا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم نے اسے مگر یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ محکوم بنائے لوگوں کے دل جیتنا بھی لازمی ہے۔بذاتِ خود ایک جزیرہ ہوتے ہوئے برطانیہ ’’عالمی جنگ‘‘ کے مختلف محاذوں کے لئے فقط گوروں پر مشتمل فوج فراہم ہی نہیں کرسکتا تھا۔وہ اس تناظر میں ’’برطانوی ہند‘‘ کی افرادی قوت کا محتاج تھا۔ہمارے ہاں مگر سلطنت عثمانیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر ’’تحریک خلافت‘‘ شروع ہوگئی۔ہمارے جید علمائے کرام نے اس کے دوران برطانوی ہند کو ’’دارلکفر‘‘ قرار دیا۔یہاں سے ’’ہجرت‘‘ کی ترغیب دی گئی۔ برطانوی فوج میں بھرتی ہونا ’’حرام‘‘ ٹھہرادیا گیا۔

مذہبی دلائل سے ابھارے اس طوفان سے برطانیہ گھبرا گیا۔اس کے تدارک کے لئے ’’پراپیگنڈہ ڈیپارٹمنٹ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ’’پریس ڈیپارٹمنٹ‘‘ بھی اس کا حصہ تھا جس نے ان دنوں چھپنے والے اخبارات کو سرکاری اشتہارات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی روش متعارف کروائی۔اخبارات قابو میں آگئے تو ریڈیو ایجاد ہوگیا۔ برطانیہ نے اسے خطرناک ہتھیار تصور کیا کیونکہ برطانوی ہند میں اخبارات ورسائل پڑھنے کی صلاحیت سے ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت محروم تھی۔ ریڈیو کی وساطت سے پھیلایا گیا ’’منہ زبانی‘‘ پیغام مگر گھر گھر پہنچ سکتا تھا۔ مزید پریشانی اس لئے بھی لاحق ہوگئی کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد کمیونسٹ روس کے علاوہ جرمنی کی نازی پارٹی اور جاپان کے نسل پرستوں نے بھی اپنے ریڈیو کے ذریعے برطانوی ہند کے باسیوں کے اذہان تک یہاں بولی زبانوں میں پروگرام تیار کرتے ہوئے اپنا پیغام پہنچانے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔اسی باعث ’’آل انڈیا ریڈیو‘‘ قائم ہوا۔ دلی اس کا مرکز تھا۔منٹو جیسے ’’باغیوں‘‘ کو برطانوی سرکار نے وہاں ملازم رکھا۔ حاکموں کو ’’جس کاکام اسی کو ساجھے‘‘ والی حقیقت کا بھرپور احساس تھا۔منٹو کے علاوہ ن م راشد،راجندرسنگھ بیدی،کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی اور حفیظ جالندھری جیسے بے پناہ تخلیقی اذہان بھی آل انڈیا ریڈیو کے ساتھ اس دور کے حوالے سے انتہائی معقول معاوضے پر وابستہ رہے۔ مولانا چراغ حسن حسرت جیسے پیدائشی ایڈیٹر اور ماہر لسانیات سنگا پور منتقل ہوکر ’’فوجی اخبار‘‘ نکالتے رہے۔

ہمارے ہاں پانچویں ’’پشت‘‘ یا ’’نسل‘‘ کی ابلاغی جنگ تیار کرنے والوں نے مگرروایتی صحافت اور ٹی وی چینلوں پر مقبول ہوئے افراد کو ’’غدار‘‘ قرار دیتے ہوئے راندئہ درگاہ بنادیا۔’’لفافوں‘‘ کے بجائے ’’حق گوئی‘‘ کے فروغ کے لئے ’’نئے ‘‘چہرے اور آوازیں دریافت کرنے کے بعد ان کی سرپرستی شروع ہوگئی۔کئی برسوں تک رواں رکھے اس عمل نے اپریل 2022 کے بعد جس نوعیت کے ’’جلوے‘‘ دکھانا شروع کئے ہیں اس کی بابت خاموش رہنے ہی کو ترجیح دوں گا۔ فقط ایک بار پھر یاد دلانا چاہوں گا کہ ابلاغ کا ہنر فطری مہارت کا تقاضہ کرتا ہے۔ جبلت میں قدرت کی جانب سے عطیہ ہوئی مہارت کو ’’تربیت‘‘ کے ذریعے یقینا بہتر اور مزید مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔فطری صلاحیت سے محروم افراد کو تاہم ابلاغ کا ’’شیر‘‘ بنا دیا جائے تو بالآخر وہ ’’سدھانے‘‘ والے کے گلے کی جانب ہی لپکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے