یوسف رضا گیلانی نے 11 اگست کو اقلیتوں کا قومی دن کس کے کہنے پر قرار دیا؟

1اگست پاکستان میں ’’یوم اقلیت‘‘ یا ’’متحدہ قومیت‘‘ کی حیثیت سے منایا جاتا ہے، گیلانی حکومت میں غالباًاس نوع کا فیصلہ ہوا تھا کہ پاکستانی اقلیتوں کیلئے بھی ایک دن ہونا چاہئے سو جناح صاحب کی اقلیتوں کیلئے معروف تقریر جو انہوں نے پہلی دستور ساز اسمبلی کے اولین ا جلاس میں کی تھی، کی مناسبت سے یہ طے کیا گیا کہ آئندہ یہ دن پاکستان میں ’’یومِ اقلیت‘‘ کی حیثیت سے منایا جائے گا۔

البتہ اقلیتوں کے اس حوالے سے کچھ تحفظات تھے، جن میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اکثریت یا اقلیت کی بحث میں الجھنے کے بجائےملک کے غیرمسلم پاکستانیوں کو مساوی حقوق عطا کرتے ہوئے قومی دھارے میں اسی طرح شامل کیا جائے جس سے ہم دوسرے درجے کے شہری خیال تصور ہونے کی بجائے متحدہ پاکستانی قومیت کا حصہ بن جائیں، ہمارا مذہب یا عقیدہ جو بھی ہے وہ ہمارا ذاتی و نجی معاملہ ہے اور شہریت کے جو بھی حقوق و فرائض ہیں، آئین پاکستان کی روشنی میں ہم سب برابر کے شہری ہیں جس کے تحت ہماری قومی حیثیت کا تعین کیا جائے۔

پہلی دستور ساز اسمبلی میں بانیٔ پاکستان کی یادگار تاریخی تقریر بھی تو یہی تھی کہ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہے ،وہ آپ کا ذاتی و نجی معاملہ ہے، مملکت کے شہری کی حیثیت سے ریاست کو کسی کے عقیدے سے کو ئی سروکار نہیں ہو گا، آپ سب آزاد ہیں، اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے یا اپنے مندروں میں جانے کے لئےیا کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لئے، ریاست کےلئے ہر مذہب کے لوگ برابر کے شہری ہوں گے۔

پاکستان میں جناح صاحب کی اس نایاب تقریر پر اب تک بے شمار مباحث ہو چکے ہیں، دانشورانِ قوم اس تقریر کے حوالے سے دوخانوں میں تقسیم ہیں، پون صدی گزر چکی، وہ مگر اس حوالے سے یکسو نہیں ہوسکے اور آئندہ بھی نہ ہو پائیں گے ۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اس تقریر کو جناح صاحب کی سیاسی زندگی کی اہم ترین تقریروں میـں شمار کرتے ہیں اور تقسیم ہند کے بعد انہوں نے کسی عوامی یا سیاسی جلسے میں ہی نہیں بلکہ آئین ساز اسمبلی کے اولین اجلاس میں بھی جب اپنا کلیدی صدارتی خطاب کیا تو واشگاف الفاظ میں منتخب آئین سازوں پر یہ واضح کر دیا کہ اب اس ملک کے ہر شہری کا مذہب و عقیدہ اس کا ذاتی و نجی معاملہ گردانا جائے گا۔

بانیٔ پاکستان کی حیثیت سے وہ جب اسمبلی کے فلور پر یہ اعلان کر رہے تھے کہ ’’ریاست پاکستان کو کسی بھی فرد یا شہری کے مذہب یا عقیدے سے کوئی سروکار نہیں ہو گا‘‘ تو اس سے دو ریاستی اصول واضح ہو گئے تھے: اول یہ کہ نئے ملک میں عقیدے کی بنا پر تعصب نہیں برتا جائے گا اور ملک کے تمام شہری ایک ہی قومیت کے نمائندہ ہوں گے۔ دوسرا، مذہب یا عقیدے کا کاروبارِ مملکت و ریاست سے کوئی سروکار نہیں ہو گا، اس کے بعد اس باب میں کوئی ابہام نہیں رہ جاتاکہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہو گی یا سیکولر ا سٹیٹ؟

ہمارے لبرل سیکولر دانشور تو اس تقریر کا یہی مفہوم پچھلے پچھتر سالوں سےپیش کر رہے ہیں اور اسی پر اصراربھی کر رہے ہیں، وہ دُکھی رہتے ہیں کہ جناح صاحب کے بعد آنے والوں نے اس واضح سنگِ میل سے پوری ڈھٹائی کے ساتھ روگردانی کی جب کہ ہمارے وہ دانشور و علماجو پاکستان کو ایک ’’اسلامی مملکت ‘‘ یا ’’ریاستِ مدینہ ‘‘ بنانے کے داعی ہیں، ان کا اصرار اس نکتے پر ہے کہ بانیٔ پاکستان کی محض ایک تقریر کو سامنے رکھ کر اتنا بڑا ریاستی فیصلہ کیوں کر کیا جا سکتا ہے کیوں کہ ان کی ان سینکڑوں دیگر تقاریر کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں جو انہوں نے اپنی طویل تحریکِ پاکستان کے دوران مختلف مواقع پر کیں اور سیکولر بیانیے پر مبنی اس تقریر کے بعد بھی انہوں نے مختلف مواقع پر جو کچھ کہا، ان کے اس بیانیے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی لاتعداد تقاریر میں اسلام اور اس کے اصولوں کو ریاست کے ساتھ اس طرح جوڑا کہ یہ ایک سیکولر نہیں بلکہ اسلامی ریاست ہو گی، انہوں نے نہ صرف یہ کہ قرآن کو ریاست پاکستان کا دستور قرار دیا بلکہ نئی مملکت کو اسلام کی ایک ایسی تجربہ گاہ قرار دیا جس میں اسلامی تعلیمات کو رائج کیا جائےگا۔

حقیقت یہ بھی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے بعد ان کے جانشین اور ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی نے اسمبلی سے قرارداد مقاصد منظور کرواتے ہوئے مملکت کے آئین کی بنیاد علما کے پیش کردہ 22نکات پررکھی جب کہ اس درویش جیسے سیکولر دانشور آج کے دن تک بارہا یہ دہرا چکے ہیں کہ ریاستِ پاکستان کے آئین کی بنیاد دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بانیٔ پاکستان کے واضح اعلان یا عہد نامے پر استوار ہونی چاہئے ۔

قیام پاکستان کے وقت ملک میں اقلیتی آبادی کی شرح 22 سے 25 فی صد تھی جو کم ہوتے ہوئے تین فیصد بھی نہیں رہی جب کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں اس وقت مسلم آبادی اگر ڈھائی یا تین کروڑ رہ گئی تھی تو آج 24/25کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کی اقلیتوں کے دُکھوں کی داستان بڑی المناک اور دردناک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں نمائشی سا یوم اقلیت منانے کی بجائے اپنے ان مظلوم و مجبور و محروم بھائیوں کو سینے سے لگاتے ہوئے پاکستانی ہونے کا اعتماد دیں اور یاد رکھیں کہ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے