بعض اوقات ہم لکھاریوں کو انگریزوں پر بہت پیار آتا ہے اور ہم تنہائی میں اکثر باتیں کرتے ہیں کہ انگریز ہوتے تو ایسا ہوتا ، انگریز ہوتے تو ویسا ہوتا۔انگریزوں سے اِس محبت کی وجہ اُن کی مبینہ انصاف پسندی اور قانون پرعملداری ہے، یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نے ڈائجسٹوں میں کہانیوں کی شکل میں پڑھ رکھی ہیں ۔ کیا واقعی انگریز ایسے ہی اصول پسند تھے ؟ کیا انہوں نے برصغیر کے ساتھ انصاف کیا تھا ؟ کیا ہندوستان کے بٹوارے کے وقت ہونے والے خون خرابے کی ذمہ دار انگریز سرکار نہیں تھی ؟ اِن سوالوں کا جواب اگر آپ کسی ایک مستند کتاب میں پڑھنا چاہتے ہیں تو اُس کا نام ہے Shameful Flight ۔ اِس کتاب کا ابتدائیہ گیارہ صفحات پر مشتمل ہے اور اِن گیارہ صفحات میں مصنف نے تاریخ پاکستان کا گویا کلیجہ نکال کر رکھ دیا ہے ۔جن لوگوں کو کتابیں پڑھنے سے رغبت نہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ کسی محفل میں بیٹھیں تو پڑھی لکھی گفتگو کرسکیں، انہیں چاہئے کہ فوری طور پر یہ گیارہ صفحے حفظ کرلیں، اِس سے انہیں تاریخ پاکستان کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہوجائے گااور وہ نہایت اعتماد کے ساتھ بتا سکیں گے کہ نہرو ، گاندھی اور ماؤنٹ بیٹن وغیرہ کون لوگ تھے،اِن میں سفید کرتا اور لُنگی پہننے والا بابا کون سا تھا، کانگریس کس بلا کا نام تھا،کرپس مشن کیا تھا، چرچل کیا چاہتا تھا اور ریڈ کلف ایوارڈ کس ’تمغے ‘کا نام تھا!
اسٹینلے والپرٹ کی کتاب میں بہت سی ایسی دلچسپ باتوں کا ذکر ہے جو اِس سے پہلے کم از کم میری نظر سے نہیں گزریں ، مثلاً انہوں نےچرچل کے ایک خط کا ذکر کیا ہے جو اُس نے اپنی جماعت کے ایک رکن کو لکھا ، اُس خط کے مندرجات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ چرچل کے ہندوستان کے بارے میں کیا خیالات تھے۔ چرچل لکھتا ہے :’’مسلسل اسّی برس تک ہم نے ہندوستان کو داخلی امن ، تحفظ اور خوشحالی دی ہے جو اِس ملک کو دو ہزار سال کی تاریخ میں کبھی نصیب نہیں ہوئی۔دنیا کاکون سا ایسا دوسرا ملک ہے جہاں امن اور خوشحالی کا ایسا طویل دور آیا ہو؟ امریکیوں نے خانہ جنگی دیکھی،چین کے ٹکڑے ہو گئے، روس میں انقلابات آئے ، ہر یورپی ملک خوفناک تنازعات کا شکاررہا ہے لیکن ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں ہماری حکومت کی وجہ سے تجارت بلاتعطل جاری رہی اور لوگوں نے امن اور خوشحالی کا دور دیکھا…ایک ہندوستانی ملازمہ بلاخوف و خطر اپنی چوڑیاں چھنکاتی ہوئی تراون کور سے پنجاب کا سفر کر سکتی ہے ….اگر ہمیں ہندوستان سے نکلنابھی پڑا تو ہم پورے جا ہ وجلال اور طمطراق کے ساتھ رخصت ہوں گے، اور اُس وقت ہماری عظمت کا جو باب رقم ہوگا وہ اس ملک کا سب سے شاندار اور پُر شکوہ باب ہوگا….۔‘‘
ظاہر ہے کہ چرچل کے یہ بلند بانگ دعوے غلط ثابت ہوئے، انگریزہندوستان سےجس شرمناک انداز میں فرار ہوئے اُس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی اور رہی بات خوشحالی اور امن کے دور کی تو اسی کتاب میں والپرٹ نے بنگال کے قحط کا ذکر بھی کیا ہے جو انگریزسرکار کی ناکامی اور نااہلی کی سب سے بڑی مثال ہے۔1943میں بنگال کے قحط نے پندرہ لاکھ انسانوں کی جان لی،اُس دور میں گندم اور چاول ،سونے اور چاندی سے زیادہ قیمتی ہوگئے ۔ انگریز سرکار کی سفاکی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی میں اِس مسئلے پر کانفرنس بلائی گئی جس کے نتیجے میں ہندوستان کے محکمہ خوراک نے برطانوی حکومت کو درخواست دی کہ فی الفور پانچ لاکھ ٹن خوراک ہندوستان روانہ کی جائے ۔ برطانیہ کی جنگی کابینہ نے یہ درخواست نا منظور کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ہندوستان میں اصل مسئلہ مہنگائی ہے ، خوراک کی ذخیرہ اندوزی اور اُس کے نتیجے میں ہونے والی کمی فقط اس مسئلے کی علامات ہیں ۔‘‘ والپرٹ لکھتاہے کہ جنگ کے دوران برطانیہ کا وزیر برائے نقل و حمل ’جیمز لیدرز‘ صرف چرچل کو جوابدہ تھا ، اُس نے برطانوی جہازوں میں 60 لاکھ ٹن گندم ’ہنگامی حالات ‘کے لئے بھر کر رکھی ہوئی تھی ، بنگال کے قحط کے دوران جب لاکھوں لوگ بھوک سے مر رہے تھے ، اُس وقت گندم سے لدے ہوئے یہ جہاز بحر ہند کے نا معلوم مقامات پر تیرتے پھر رہے تھے۔
اسٹینلے والپرٹ کی کتاب سےیہ بھی پتا چلتا ہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ کے کام کرنے کا انداز کتنامختلف تھا ۔مہاتما گاندھی نے جب ’ہندوستان چھوڑدو‘ تحریک شروع کی تو انگریز سرکار نے راتوں رات کانگریس پارٹی کی پوری قیادت کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا، اگلے دو برس تک گاندھی جی جیل میں رہے ، اِس دوران اُن کا سیکرٹری مہادیو ڈیسائی پچپن برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے جیل میں ہی مرگیا اور تقریباً ڈیڑھ سال بعد گاندھی جی کی پتنی کستربا گاندھی بھی تریسٹھ برس کی عمر میں جیل میں ہی چل بسیں۔انگریز سرکار نے اِس تحریک کو کچلنے کے لئےساٹھ ہزار لوگوں کو جیل میں ڈالا، چھ سو لوگوں کو کوڑے لگائے اور نو سو بندوں کے ہلاک ہونے کا سرکاری طور پر اعتراف کیا، صرف یہی نہیں بلکہ پہلی مرتبہ برٹش انڈیا کی شہری آبادی پر فضا سے بمباری کی گئی۔
اسی طرح جب 1947میں بٹوارے کےوقت فسادات پھوٹ پڑے تو نہرو نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خط لکھا جس میں انہوں نے لاہور میں ہونے والے فسادات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’’جب گھروں کو آگ لگائی جا رہی تھی تو رہائشی جان بچانے کی غرض سے بھاگ کر گلیوں میں نکل جاتے تھے مگر وہاں پولیس ،کرفیو کی خلاف ورزی کے جرم میں اُن پر فائرنگ کردیتی تھی…صورتحال بدستور بگڑ رہی ہے ۔ کیا ہم خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہیں اور اِس عظیم شہر کا وجود ختم ہوجائے؟‘‘نہرو نے جب یہ خط لکھا تو ماؤنٹ بیٹن تفریح کی غرض سے کشمیر میں تھے ، نہرو نے خط میں یہ التجا بھی کی تھی کہ شہر کو فوج کے حوالے کردیا جائے تاکہ حالات قابو میں آ سکیں۔ اسٹینلے والپرٹ لکھتا ہے کہ اِس خط کے دو دن بعد نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کی ملاقات ہوئی مگر اِس ملاقات میں ماؤنٹ بیٹن نے لاہور میں ہونے والی تباہی کے بارے میں کوئی بات کرنے کی بجائے بھارت کے لئےاپنے تیار کردہ پرچم کےڈیزائن پر بات کی اور نہرو کو بتایا کہ نیا پرچم کیسا ہونا چاہئے!
سو جناب یہ تھے انصاف پسند انگریز اور ایسا تھا چرچل کا ہندوستان۔