مسیحی خاتون نے ثابت کر دیا :محنت کبھی رایئگاں نہیں جاتی

محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی بے شک کتنا ہی نظرانداز کیا جائے لیکن محنت کا صلہ کامیابی کی صورت میں مل کر رہتا ہے اور کامیابی کی بات کریں کامیابی تو سب کو دکھائی دیتی ہے مگر اس کامیابی کے پیچھے نہیں دن رات کی محنت اور دشواریوں کی ضرورت طویل داستان ہے، جس کو بیان کرتے *نسرین!پرویز * آبدیدہ ہوگئیں ۔

اسلام آباد کے مضافاتی علاقے برما ٹاؤن میں رہنے والی مسیحی خاتون نے خود کامیابی کو اپنا مقدر بنایا .نسرین پرویز کو زندگی کے 35 سال نرسنگ کے شعبے سے منسلک ہوئے ہوگئے ہیں .بے شمار تکلیفوں پریشانیوں نے گھیرے رکھا مگر ہمت نا ہاری.

ہولی فیملی ہسپتال سے ایک سال کا مڈ وائف کا کورس کرنے کے بعد راولپنڈی سکتھ روڈ پر پرائیوٹ ہسپتال سے اپنے خدمات کا آغاز کیا ،رفیق نرسنگ ہوم میں پانچ سال کام کرنے کے بعد اسلام آباد پرنٹ پریس میں ڈیلی ویجز کے طور پر 11 سال کام کیا. نوکری مستقل کرنے کا اشتہار اخبار میں آتے ہی ادارے نے نرسنگ کی سیٹ ہی ختم کرنے کا کہہ دیا اور مجھ سے ٹرینگ دلوا کر لڑکی کو اس نرسنگ کی جاب پر رکھ دیا گیا .جہاں سے مجھے سیٹ ہی ختم کرنے کا کہہ کر نکال دیا گیا .وسائل کی کمی اور غربت کے باوجود انہوں نے صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا .عمر گزرنے اور نوکرى نا ملنے اور گھر چلانے کے لئے سلائی کرکے نظام چلایا پھر ایک عورت نے کہا کسی مسلمان کی مدد کرو بجائے کسی کرسچن کے پاس جاؤ ۔

نسرین پرویز نے کہا اقلیت ہونے پر ہر قدم پر پریشانیوں تکالیف کا سامنا کرنا پڑا مگر ہمت نا ہاری اور اپنی بیٹیوں کو کہا کہ اتنا پڑھو کہ آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کر سکو اور اس کے لئے اعلی تعلیم حاصل کرو ، باوجود اس کے مشکلات کم نا ہوسکیں ،اپنے زندگی کے تجربات کو بیان کرتے رخسار پر آنسو رک سے گئے، ان نم آنکھوں کو دیکھ کر ناجانے کتنے ہی سوال میرے ذہن میں دفن ہو کر رہ گئے،انہوں نے مزيد کہا اقلیتی برادری خود محنت کر کے بڑھتے ہیں کوئی بھی آگے نہیں جانے دیتا ،ہر قدم پر رکاوٹ کھڑی کردی جاتی ہیں ،قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود ہمت نا ہاری.

اس حوالے سے اینکر پرسن تنزیلہ مظہر سے بات کی جنہوں نے بہت مقامات پر خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی. ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غربت کے حالات کو دیکھا جائے تو صورتحال اچھی نہیں ہے. خاص طور پر غیر مسلم برادرى کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے اگر ہم دیکھیں تو سب سے پہلے تعلیم میں تفریق شروع ہو جاتی ہے. ان کو تعلیم کے مساوی مواقع نہیں دیتے جس کی وجہ سے ان کے بچوں کو بھی کام کرنے کے لیئے روزگار کی تلاش میں لگ جاتے ہیں.

دوسرى جانب نسرین کی طرح کی کہانیاں بھی ہیں جنہوں نے ہمت اور محنت کا ساتھ کبھی نا چھوڑا مگر بہت کم ہندو مسیحی پارلیمنٹ تک پہنچے ہیں مگر تناسب دیکھا تو بہت ہی کم ہے.

تنزیلہ نے کہا کہ میرا خیال ہے اس طرح کے رول ماڈل کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے اور باقی لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے اندر خودانحصاری کا جذبہ پیدا ہو، اقلیتی برادری کی حوصلہ افزائی کرنا ، ان میں خوداعتمادی کو بڑھانا جہاں ضروری ہے وہیں صرف حوصلہ افزائی سے بھی کام نہیں چل سکتا، اس سے معاملہ حل نہیں ہوتا ،جب تک ریاست مواقع اور ماحول پیدا نا کرے. جب تک وسائل اور موقع نہیں ملے گا محنت کا صلہ بھی نہیں ملے گا اور موٹیویشن بھی کسی کام کی نہیں ہوگی اسلیئے دونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا.

مسیحی خاتون کے پڑوسیوں کا بھی کہنا تھا کہ نسرین نے اپنی محنت سے ثابت بھی کیا کہ عورت کسی بھی میدان میں کسی سے پیچھے نہیں ہے. میرا سوال معاشرے سے ہے کہ آج عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھنے والے کچھ برس پہلے کیوں ان کو دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے، آج ایک اچھی زندگی گزارنے کا کیا فائدہ…. انکا مذہب تبدیل ہو گیا ،معاشرے سے تفریق کو ختم کرنا کیا اتنا مشکل ہو گیا؟؟؟ آخر کیوں ؟معاشرے میں اقلیتوں کو نا عزت دی جاتی ہے اور نا ہی میرٹ پر ان کے مقرر کردہ کوٹہ پر نوکری…

رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد
سرخرو ہوتا ہے انسان ٹھوکر کھانے کے بعد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے